تکریت گرینڈ آپریشن
تحریر: سعداللہ زارعی
عراقی صوبے صلاح الدین کے دارالحکومت تکریت کی تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے آزادی کی خاطر چند روز قبل شروع ہونے والا گرینڈ آپریشن فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ آپریشن کئی پہلووں سے "اسٹریٹجک” اور فیصلہ کن قرار دیا جا رہا ہے۔ لہذا تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے بھی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اس شہر کو اپنے قبضے میں رکھنے کیلئے پورا زور لگا دے گا۔ اس آپریشن کی اہمیت اور ممکنہ نتائج کے بارے میں درج ذیل نکات قابل ذکر ہیں:
1)۔ تکریت کی آزادی کیلئے شروع کیا گیا فوجی آپریشن تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف عراق کی سکیورٹی فورسز کا اہم ترین آپریشن سمجھا جاتا ہے، جبکہ ماضی میں بھی آمرلی آپریشن، جرف الصخر آپریشن اور مقدادیہ آپریشن جیسے اہم فوجی آپریشنز انجام پاچکے ہیں۔ تکریت آپریشن اس اعتبار سے بہت ہی حساس اور اہم ہے کہ تکریت کا شہر داعش اور بعث پارٹی سے وابستہ عناصر کا گڑھ اور مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ اگر تکریت پر عراقی سکیورٹی فورسز کا قبضہ ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عراق میں بعثی عناصر اور داعش کا مرکز شکست کا شکار ہوجائے اور یہ امر عراقی مسلح افواج کا مورال بلند ہونے اور ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتا ہے اور موصل کی آزادی کا راستہ بھی ہموار ہوسکتا ہے۔ لہذا یہ کہا جا رہا ہے کہ داعش نے شام سے اپنے ماہر ترین جنگجووں کو تکریت کی حفاظت کیلئے عراق طلب کر لیا ہے۔
2)۔ تکریت کی آزادی صوبہ صلاح الدین میں بعثی عناصر اور داعش کے آخری ٹھکانے کے خاتمے کے مترادف ہوگی۔ اس سے قبل عراق کی سکیورٹی فورسز تکریت کے شمال میں واقع الشرقاط اور بیجی، مغرب میں واقع توزخورماتو اور الدور اور جنوب میں واقع بلد اور الفریس کو پہلے ہی داعش سے آزاد کروا چکی ہیں۔ صوبہ صلاح الدین کا ایک اور بڑا شہر سامراء ابتدا سے ہی تکفیری عناصر کے قبضے سے محفوظ رہا ہے۔ لہذا تکریت سے داعش اور بعثی عناصر کے قبضے کا خاتمہ درحقیقت صوبہ صلاح الدین سے داعش کے قبضے کا مکمل خاتمہ اور اس صوبے میں عراق آرمی کی جانب سے شروع ہونے والے گرینڈ فوجی آپریشن کا اختتام ثابت ہوگا۔ چونکہ صوبہ صلاح الدین دو بڑے سنی اکثریتی صوبوں الانبار اور نینوا کے درمیان واقع ہے، لہذا تکریت کی آزادی ان دو صوبوں میں موجود داعش اور بعثی عناصر پر بھی اثرانداز ہوگی۔ صوبہ الانبار کے شمال اور مشرق کا وسیع حصہ صوبہ صلاح الدین کے ذریعے نینوا، کرکوک، بغداد اور دیالا کے صوبوں سے منسلک ہوتا ہے۔ لہذا صوبہ صلاح الدین میں کامیاب فوجی آپریشن عراق کے مرکزی اور مشرقی صوبوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے میں بنیادی کردار کا حامل ہے اور بہت حد تک دارالحکومت کی پوزیشن بھی مضبوط بنے گی۔
3)۔ تکریت آپریشن میں انتہائی وسیع آپریٹنگ رقبہ ہونے کے پیش نظر عوامی سطح پر تعاون اور مدد کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ 10 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد پر مشتمل تکریت آپریشن کا آپریٹنگ رقبہ لبنان کے رقبے کے برابر اور فلسطین کے رقبے کا تین گنا ہے۔ کم از کم مدت میں اتنے وسیع علاقے میں آپریشن انجام دینے پر تاکید کی وجہ سے یہ آپریشن عراقی سکیورٹی فورسز اور عوامی رضاکار فورسز کی تیاری اور توانائیوں کے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لہذا اس آپریشن میں شامل ایک اعلٰی سطحی کرد کمانڈر کا کہنا تھا کہ کرد شہریوں کو آپریشن کے کمانڈرز پر مکمل اعتماد ہے اور انہیں یقین ہے کہ یہ آپریشن مختلف فورسز کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کا راستہ ہموار کرے گا اور موصل کی آزادی کیلئے انہیں جلد از جلد منظم کر دے گا۔
4)۔ تکریت کا ایک اور اہم پہلو اس شہر کی اقتصادی اور سماجی پوزیشن ہے۔ عراق کے تیل کے ذخائر کی اکثریت تکریت کے اطراف میں واقع ہے۔ اس شہر پر داعش کا قبضہ ایک طرف تو عراقی حکومت کی جانب سے خام تیل کی پیداوار میں رکاوٹ تھا اور دوسری طرف خود داعش اس خام تیل سے حاصل درآمد کے ذریعے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بڑھاتا چلا جا رہا تھا۔ داعش خام تیل کی درآمد کے ذریعے بیرونی ممالک اور خطے کی بااثر شخصیات کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کئے ہوا تھا۔ اسی طرح اسپائکر کا ہوائی اڈہ جو ابتدا سے ہی داعش کے قبضے میں آگیا تھا، اسی علاقے میں واقع ہے۔ اس ہوائی اڈے کی آزادی عراق کی مسلح افواج کیلئے اچھی خبر ہے۔ داعش جب تک اسپائکر ہوائی اڈے اور بیجی اور تکریت میں صوبہ صلاح الدین کے تیل کے کنووں پر قابض تھا، اپنے دشمنوں کے سامنے طاقت کا مظاہرہ کیا کرتا تھا۔ اس وقت مغربی ممالک کے اکثر اخبار بیجی اور اسپائکر ہوائی اڈے پر داعش کے قبضے کو اس دہشت گرد گروہ کی ذہانت کی علامت قرار دیتے تھے اور اس کی شکست کو محال ظاہر کرتے تھے۔ لیکن گذشتہ چند دنوں میں یہی اخبار صوبہ صلاح الدین کی قریب الوقوع مکمل آزادی کی خبریں لگا رہے ہیں۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ اس بارے میں اپنے مخصوص شیطنت آمیز انداز میں لکھتا ہے: "اس وقت جنرل سلیمانی کے قدم تکریت تک پہنچ چکے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے چند روز میں صوبہ صلاح الدین کا دارالحکومت مکمل طور پر آزاد ہوجائے گا۔ عراقی شہریوں کا عقیدہ ہے کہ تکریت میں جنرل سلیمانی کی کامیابی انہیں عراق میں اس قدر مقبول بنا دے گی کہ وہ ان سے موصل کی آزادی کی خواہش کا بھی اظہار کریں گے، اور موصل کی آزادی کیلئے انجام پانے والے آپریشن میں ان ک
ی ہمراہی کریں گے۔” دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ مغربی حکام ایران کی مرکزیت میں داعش کی شکست پر شدید پریشان نظر آتے ہیں اور ان کی یہ پریشانی 1983ء سے لے کر 1989ء کے دوران انقلاب اسلامی ایران کے مقابلے میں صدام حسین کی شکست پر ان کی پریشانی کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ اس زمانے میں مغربی حکام واضح طور پر یہ کہتے ہوئے نظر آتے تھے کہ ایران کے مقابلے میں صدام حسین کی شکست نے خلیج فارس جیسے اسٹریٹجک خطے اور نیز ایران کے مغرب اور مشرق میں واقع ممالک پر مغربی تسلط کو بہت مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔
ابھی کچھ ہفتے قبل ہی ہنری کیسنجر نے وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے ایران کا خطرہ داعش سے زیادہ شدید ہے، کیونکہ داعش ایک عارضی تحریک ہے، جس کی کوئی اسٹریٹجک گہرائی نہیں۔ لہذا بہت جلد ختم ہوجائے گی، لیکن ایران کا اسلامی انقلاب ایک تاریخی پس منظر پر استوار ہے اور اسے ایک مذہب کی توانا قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ ایران بہت پیچیدہ ہے اور ابھی تک ہماری فورسز اس سے مکمل طور پر آگاہ نہیں، لیکن داعش وہی کچھ ہے جو نظر آتا ہے۔” البتہ ایران نے عراق کی قانونی حکومت کی درخواست پر عراقی سکیورٹی فورسز کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کو ہرگز مخفی نہیں کیا، جیسا کہ عراقی حکام نے بھی داعش کے خلاف جنگ میں ایران سے رسمی طور پر مدد مانگی، اپنی اس درخواست اور ایران کی جانب سے اس کے مثبت جواب اور موثر اقدامات کو ہرگز چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن مغربی حکام نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ ایران داعش اور بعثی عناصر کے مرکز تکریت کو آزاد کروانے پر قادر نہیں، عراقیوں کو ناامید کرنے کی غرض سے ڈھنڈورا پیٹ رکھا ہے، لیکن انہیں معلوم ہے کہ یہ شور شرابا زیادہ دن جاری نہیں رہے گا۔ لہذا وہ اشاروں اور کنایوں میں بات کر رہے ہیں۔
5)۔ گذشتہ کئی دنوں سے تکریت کی آزادی کیلئے شروع ہونے والے گرینڈ آپریشن کے دوران چھوٹے چھوٹے بے شمار کامیاب آپریشنز انجام پائے ہیں۔ ان تمام آپریشنز کا ایک بڑا ہدف داعش اور بعثی عناصر کے وجود سے تکریت کو پاک کرنا ہے۔ آپریشن کے آغاز کے دو تین دنوں میں ہی عوامی رضاکار فورسز کی مدد سے عراق کی مسلح افواج نے العلم، الدور، البوعیسی، البوطلحہ نامی شہروں اور ان کے اردگرد دسیوں دیہاتوں کو تکفیری دہشت گرد عناصر سے پاک کر دیا، جن میں سے ہر شہر اور گاوں کی آزادی کیلئے ایک الگ آپریشن کی ضرورت تھی۔ ان کامیابیوں کے ساتھ ہی داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر نے دو اہم قصبوں الفتح اور الحویجہ سے بھاگنا شروع کر دیا، جو ان کے شدید خوف اور پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس سے قبل داعش کسی حال میں اپنے دہشت گردوں کو میدان چھوڑ کر بھاگنے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور پسماندگی اختیار کرنے والے افراد کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ جیسا کہ ماضی میں شام کے صوبے حمص کے شمال میں واقع علاقے القصیر میں ہونے والے آپریشن کے دوران دیکھا گیا تھا۔ اس آپریشن میں داعش کے دہشت گرد میدان سے بھاگتے نہیں تھے اور آخری لمحے تک مزاحمت کرتے تھے۔ لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران عراق آرمی اور رضاکار فورسز کی مسلسل کامیابیوں نے داعش کی پالیسی میں بھی تبدیلی ایجاد کر دی ہے اور اب وہ بھاگ جانے کو موت پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ "شبک” فورس جو صوبہ دیالا کے شیعوں پر مشتمل ہے اور وہ تکریت کی آزادی کیلئے جاری آپریشن میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، سے وابستہ جنگجووں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے فتح اور حویجہ سے دسیوں داعش دہشت گردوں کو فرار ہوتے دیکھا ہے۔
6)۔ داعش کی شکست صرف ایک دہشت گرد گروہ کی شکست نہیں بلکہ ایک ایسے چند جہتی منصوبے اور اسٹریٹجک سوچ کی شکست ہے, جس کے پیچھے مغربی ممالک اور خطے کے بعض ممالک کی انٹیلی جنس اور سیاسی قوتیں کارفرما ہیں۔ تقریباً گذشتہ تین سال قبل یہ کہا جاتا تھا کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سعودی عرب ایک ایسے سیاسی نظام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جو بظاہر تو ایران کے سیاسی نظام جیسا ہوگا، لیکن اس کا اصل مقصد ایران کے مقابلے میں آنا ہوگا۔ ان ممالک نے امریکہ کی سربراہی میں ایک ایسا گروہ تشکیل دیا، جو گوریلا جنگ میں مہارت رکھتا تھا، لیکن اس وقت اصل کے مقابلے میں نقل اپنا رنگ کھو چکی ہے۔