تکریت کا احوال، امریکی و سعودی حسرتیں پامال
عراق کا شہر تکریت امریکہ اور اسرائیل کے سابق پالتو صدام حسین کا آبائی گاؤں ہے اور سامرا سے ستاون کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ عراقی آرمی شیعہ رضا کار ملیشیا کے ساتھ فاتحانہ انداز میں تکفیریوں کا صفایا کرتے ہوئے بارہ مارچ سے صدام کے گاؤں تکریت میں داحل ہو چکی ہے۔ تکریت وہی جگہ ہےجہاں سے صدامی بھگوڑے آج کل داعشیوں میں شامل ہو رہے تھے، اور یہیں سے سامرا میں امام حسن عسکری علیہ سلام اور امام علی نقی علیہ سلام کے روضوں پر متعدد حملے کرچکے ہیں۔ تمام دنیا کا میڈیا ٹیلی سکوپ لگا کر دیکھ رہا ہے، کہ کوئی ایسی خبر ملے یا فوٹیج ملے، جس سے اس کامیابی کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جا سکے۔ ابتک تو وہ اپنی اس سازش میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ البتہ سعودی اخبار العربیہ اور ہمارے کچھ بکاؤ صحافیوں کو پڑھنے سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ کس قدر ظلم ہو رہا ہے۔ داعشیوں کا "قتل عام ” ہو رہا ہے۔
العربیہ کے نیوز ایڈیٹر نے تو ایک کالم لکھ مارا ہے، تکریت میں ظلم کی داستان پر۔ لکھتا ہے کہ عراقی شیعہ آرمی مظلوم سنیوں کو بے دریغ قتل کر رہی ہے۔ سنیوں کے گھر جلاۓ جا رہے ہیں، اور ایران صدام سے ایران عراق جنگ کہ بدلہ لینے کے لئے بیتاب ہے۔ یہ وہی بکاؤ کالمنسٹ ہیں، جنھیں سعودی عرب، بحرین، عراق اور ایران میں شیعہ پر ڈھاۓ جانے مظالم نظر نہیں آتے۔ اس طرح کے کئی کالمنسٹ پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ جنھیں ضیاء ملعون کے دور میں ” صحافی” بنایا گیا۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ایران میں صرف انہی "پالتو صحافیوں ” کو سنی قتل ام نظر آتا ہے۔ جس کا ثبوت صرف ان کی تحریروں میں ہوتا ہے ، کبھی شدنی چھوڑ دیں گے کا ایران میں سنی مسجد نہیں، عراق میں سنی فوجی نہیں۔ کیا ان پالتو صحافیوں سے کسی نے پوچھا کہ سعودی عرب، اردن، قطر میں کتنی شیعہ مساجد ہیں اور کتنے فیصد شیعہ فوجی ہیں؟ یہ وہی صحافی نما لوگ ہیں، جنھیں ہزاروں شیعہ لاشیں تو نظر نہیں آتی، لال مسجد اور پنڈی کے تعلیم القرآن کے دہشت گرد نظر نہیں آتے، بلکہ جہاں پر تین چار دہشت گردوں کے مرتے ہیں، یہنام نہاد صحافی مشہور کر دیتے ہیں، کہ سینکڑوں مارے گئے۔ بچے ذبح ہو گئے وغیرہ وغیرہ اور آج تک ان کی لاشیں تو درکنار ، ان "مقتولین” کے نام تک میڈیا میں نہیں آ سکے۔
تو عرض یہ ہے جب سے شیعہ مجاہدین نے شام اور عراق میں اپنا لوہا منوایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ جنگ ظلم سے نہیں بہادری سے لڑی جاتی ہے۔ لوگوں کے گلے کاٹنے زندہ لوگوں کے ٹکڑے کرنے جیسی حرکات سے کوئی مرعوب نہیں ہوتا۔ تب سے سعودی عرب کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب پوری دنیا میں سب سے زیادہ اسلحے کا حریدار بن چکا ہے، اور دوسری طرف حزب الله اور عراقی آرمی کے ہاتھوں داعشیوں کی شکست کے سلسلوں نے ثابت کیا ہے کہ جنگ پیسے یا اسلحہ سے نہیں بلکہ عقل اور ایمان سے لڑی جاتی ہے۔ ایک سوال بڑا اہم یا ہے کہ سعودی عرب اربوں ڈالر کا اسلحہ حرید رہا ہے اور دنیا کہ سب سے بڑا اسلحہ کا حریدار ہے۔ تو آخر یہ اسلحہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔ تو ظاہر ہے سعودی عرب اس وقت یمن، عراق، شام، بحرین میں پوری طاقت سے شیعہ اکثریت کو اپنے تابع کرنے کے خواب کو پورا کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے، لیکن الله کا ایسا کرنا ہو رہا ہے کہ ہر جگہ اس کو ذلت کا سامنا ہے۔
اب امریکا بھی ایرانی سفارت کاری کے آگے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہو چکا ہے اور آج عرب اسرائیل کی جھولی میں بیٹھ کر اس سے المدد المدد کی درد مندانہ اپیل کر رہے ہیں۔ اسرائیل بھی عرب تکفیریوں کو ” بس آ گئے شیعہ بس آ گئے شیعہ ” کے ڈراوے دے کر خوب الو بنا رہا ہے۔ تکریت میں عراقی آرمی کی کامیابی کے بعد اگلا ہدف موصل ہے، جسے داعشیوں کا سب سے مضبوط گڑھ سمجھا جا رہا ہے۔ جس طرح تکریت شہر میں داحل ہوتے ہوئے "اتحادی طیاروں ” نے عراقی آرمی کے چالیس جوان بمباری کر کے مار دیے، اس طرح کی "غلطیاں ” موصل میں بہت زیادہ ہوں گی۔ آپ کو مستقبل قریب میں "شیعہ مظالم ” کی خوب خبریں ملیں گی، تا کہ اس خطے میں شیعہ طاقت کو روکا جا سکے۔ اس وقت سعودی عرب اپنی اہم سرحدوں کو غیر محفوظ کر چکا ہے۔ یمن میں بارہ مارچ کو شیعہ ملیشیا نے سعودی عرب کی سرحد پر مارچ کر کے سعودی بادشاہت پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔ انشا الله آل یہود کا قبضہ جلد حجاز سے حتم ہو جائے گا، اور وہاں امام برحق مہدی عجل تعالہ فرج شریف کی خکومت جلد قائم ہو گی، اور الله اپنے وعدے کے مطابق اپنا نور پورا کرنے والا ہے۔ چاہے یہود و سعود لاکھ پھونکیں مار کر اسے بجھانے کی کوشش کر لیں۔