داعش میں مغربی خواتین کی دلچسپی کیوں؟
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) مغربی دنیا خواتین اور لڑکیوں کی جہادی گروہوں میں دلچسپی کو اپنے لئے ایک نیا خطرہ قرار دے رہی ہے۔ تین برطانوی نوعمر لڑکیاں چند ہفتے قبل ہی شام جانے کے لئے نکلی ہیں۔ اس دوران ایک امریکی خاتون بھی شام کے ارادے سے ملک چھوڑ گئی۔ برطانوی کائونٹر ٹیررازم کمانڈ کے سربراہ کمانڈر رچرڈ والٹن کے مطابق تینوں برطانوی لڑکیاں شام کے ان خطرناک علاقوں کی طرف جانا چاہتی ہیں جو دہشت گرد گروپ آئی ایس آئی ایس (داعش) کے قبضہ میں ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں جہادیوں کو مغربی ثقافت اور تہذیب کیلئے ابھی تک اتنا بڑا خطرہ ثابت نہیں کیا جاسکا جتنا کہ انہیں سیاسی و جنگی خطرہ سمجھ لیا گیا ہے۔ مغربی معاشروں میں سوچ پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے ہر اہم واقعہ یا نظریہ یہاں کے نوجوانوں کو بہت جلد متاثر کرلیتا ہے۔ کوئی ایسا نظریہ جو ایک انسان کو پرتعیش اور آسودہ زندگی ترک کرکے دین کے نام پر اپنی جان دینے اور دوسروں کی جان لینے پر مائل کرے وہ یورپ کی نوجوان نسل کے لئے فوری کشش کا باعث ہوسکتا ہے۔ ادھر داعش کی عراق کے کچھ علاقوں میں قائم امارت الاسلامیہ نوجوان خواتین کو بھرتی کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ DUKE انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کلینک کی ڈائریکٹر جین ہکربائی نے ان وجوہات کو کھوجنے کی کوشش کی ہے جو مغربی خواتین کو جہادی گروپ کی طرف کھینچ رہی ہیں۔ جین ہکربائی کے مطابق بعض معاملات میں تنہائی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ کچھ خواتین معاشرے میں غیر مساوی حیثیت کے باعث لڑائی میں کودنے پر تیار ہو جاتی ہیں تاکہ ان کو تسلیم کیا جائے اور کچھ محض مہم جوئی کی خاطر جہادی گروپوں میں شامل ہورہی ہیں۔ کئی بار انٹرنیٹ پر کسی جہادی سے محبت بھی لڑکیوں کو جہادی گروپوں میں شمولیت پر آمادہ کرتی ہے۔
کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی لڑکی کا داعش کے لوگوں سے آن لائن رابطہ ہوتا ہے اور وہ اسے ایک نئی اسلامی ریاست کا ڈھانچہ بنانے میں تعاون پر آمادہ کرتے ہیں، ایسی اسلامی ریاست جہاں وہ اپنے عقائد پر باسہولت عمل پیرا ہوسکے۔ ایسی پیشکش کو خواتین بہت پرکشش اور محفوظ تصور کر بیٹھتی ہیں اورجنگجووں کے نرغے میں آجاتی ہیں۔ جین ہکربائی کے مطابق خواتین ان گروپوں میں اپنا ایک اہم کردار دیکھتی ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت سی دیگر خواتین کے ساتھ مل کر وہاں ریاستی اداروں کی تشکیل کا کام کریں گی۔ انہیں یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ ایک نئے ملک میں نہایت اہم کردار ادا کریں گی۔ یقینا ایک تصوراتی ریاست میں ان خواتین کو ایسا اہم تصوراتی کردار ملنے کی امید دلائی جاتی ہے جو ان کے لئے پرکشش ہوتی ہے۔ بعض مغربی تجزیہ کاروں کی رائے میںمغربی ریاستیں مسلمانوں کوپوری طرح اپنا نہیں بنا سکیں۔ مغربی ریاستوں میں قرآن کو نذرآتش کرنے، توہین آمیز خاکوں کی اشاعت، مسلمانوں کی کڑی نگرانی اور ان کے حوالے سے منفی پراپیگنڈے نے مسلمان شہریوں پر بہت برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس صورتحال میں وہ آسانی سے کسی ایسے گروپ کے جال میں پھنس جاتے ہیں جو ان کے عقائد کے تحفظ اور ان کی دل آزاری کرنے والوں کو سزا دینے کی بات کرے۔ مغربی مسلم خواتین کی بڑی تعداد غالباً اس وجہ سے بھی شام اور عراق جا کر دولت الاسلامیہ کا حصہ بننا چاہتی ہے۔
ایک مبصر کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس خواتین کو اپنے ماحول اور معاشرے سے فرار کے خوشنما خواب فروخت کررہی ہے۔ اکثر لڑکیاں یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کے بعد وہ بااختیار ہو جائیں گی۔ ان کی زندگی میں جوش بڑھ جائے گا اور وہ اپنی زندگی کو بامقصد بنانے کیلئے کچھ کرسکیں گی۔ آئی ایس آئی ایس کی جن خواتین نے اپنے ٹوئٹر اکائونٹ بنائے ہیں وہ ا ن اکاونٹس پر اپنی روزمرہ زندگی کی جزئیات ایسے پیش کرتی ہیں کہ دوسری خواتین کو ان کی زندگی اپنے لئے مشعل راہ معلوم ہوتی ہے۔ آئی ایس آئی ایس کی وابستگان ٹوئٹر پر کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم انہیں گھرداری کے لئے خرچ دیتی ہے، ماہانہ اخراجات دیتی ہے، خوراک دیتی ہے، سفری سہولت دیتی ہے، فوجی ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور ہر چیز کی حفاظت۔ ایسے ہی ایک اکاونٹ میں کہا گیا ’’ہر نومولود کی پیدائش پر ہمیں اضافی رقم ملتی ہے، کسی کافر ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ کنگز کالج لندن میں ڈیفنس سٹڈیز کی استاد کیتھرائن براون کی تحقیق بتاتی ہے کہ داعش سے وابستہ خواتین دیگر لڑکیوں کو آن لائن مشاورت اور رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ یہ خواتین بتاتی ہیں کہ بھرتی ہونے کے لئے انہیں کہاں سے مدد ملے گی، سفری مدد کیسے مل سکتی ہے۔ یہ آن لائن مشیر اسلامی طرز زندگی کو جہاد کے ساتھ ملا کر بڑے مثالی انداز میں پیش کرتی ہیں۔
اس تحقیق میں بتایا گیا کہ داعش کی آن لائن خواتین کا اکاؤنٹ مرد جہادی استعمال کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خواتین اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے ان کے جہاد میں شامل ہوں۔ خواتین کو شام اور عراق میں بلا کر یہ جہادی ایک اور مقصد بھی حاصل کرتے ہیں۔ وہ ان غیر ملکی خواتین کو مثالی بنا کر دیگر خواتین کو پھسلانے کی چال چلتے رہتے ہیں۔ یہ جنوری 2015ء یعنی دو ماہ پہلے کی بات ہے جب امریکہ کی ایک فیڈرل عدالت نے ریاست کولو ریڈو کی 19 سالہ لڑکی شینن کونلے کو مشرق وسطیٰ جا کر اسلامک اسٹیٹ کے جہاد میں حصہ لینے اور جہادی کارکن سے شادی کی کوششوں کا اعتراف کرنے پر 4 سال کی سزائے قید کا فیصلہ دیا۔ شینن کو داعش سے روابط اور سازش کا الزام ثابت ہونے پر سزا دی گئی۔ فیصلہ سننے کے بعد شینن
نے روتے ہوئے کہا کہ ’’ اسے داعش کے متعلق اب حقائق کا پتہ چلا وہ شرمندہ ہے کہ اس نے اس جہادی گروپ کو قابل احترام تصور کیا۔‘‘ شینن نے کہا کہ وہ آن لائن مبلغ سے متاثر ہوکر صرف مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہتی تھی کسی کو آزار پہنچانا اس کی نیت میں شامل نہ تھا۔ اس نے کہا کہ ’’یہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا سبق تھا لہٰذا اب وہ درخواست کرتی ہے کہ امریکی سماج اسے موقع دے تاکہ وہ ثابت کرسکے کہ اس کا وجود اس معاشرے کیلئے کسی خطرے کا باعث نہیں‘‘ کونلے کو جب جیل بھیج دیا گیا تو اس کے والد نے ایک آن لائن پریس ریلیز جاری کی جس میں امریکہ کے قانونی نظام پر سخت تنقید کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری لڑکیوں کو انتہاء پسندی سے دور رکھنے کیلئے ان کی بیٹی کو عبرت کی مثال بنا یا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق شینن کونلے کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کو مددگار میٹریل فراہم کرنے اور اس کے ساتھ مل کر سازش کرنے کے جرم میں سزا کے ساتھ 250000 ڈالر جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ رہائی کے بعد تین سال تک اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جائے گی اور اسے 100 گھنٹے سماجی بہبود کے کاموں میں صرف کرنا ہونگے۔ امریکہ کے اٹارنی گریگ ہولووے کا کہنا ہے کہ شینن کونلے نے تفتیش کے دوران مکمل تعاون کیا اور تفتیش کاروں کو مطلوبہ معلومات فراہم کیں۔ اس کو سزا کے ذریعے امریکی حکومت نے یہ پیغام دیا کہ وہ اس طرح کے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھتی ہے۔ فیصلے کے وقت جج نے شینن کونلے کے نفسیاتی معائنہ کی ہدایت بھی کی۔ مغربی میڈیا میں داعش اور دیگر شدت پسند گروپوں میں شامل ہونے والی خواتین کے حوالے سے ایک بات تسلسل سے کہی جارہی ہے کہ اس کا مقصد ان گروپوں کے جنگجووں کی ازدواجی ضروریات پوری کرنا ہے اور مغربی میڈیا کے مطابق ان خواتین کوجنگجووں کے ساتھ نکاح کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ تیونس کے سیکولر میڈیا میں اس حوالے سے کئی کہانیاں شائع ہوتی رہی ہیں، جن کی مختلف حلقے تردید بھی کرتے رہے ہیں۔
سب سے پہلے الجزائر کی سرحد کے قریب پہاڑی سلسلے میں سرگرم القاعدہ جنگجوؤں سے نکاح کے لئے تیونس سے لڑکیوں کے جانے کی بات سامنے آئی تھی۔ اہل عرب عالم سے ایک فتویٰ منسوب کیا، جس کے مطابق یہ خواتین شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کا ساتھ دینے کے لئے آگے بڑھیں، تاہم بعد میں ان عرب عالم نے ایسا فتویٰ جاری کرنے کی نفی کردی۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر پر اسے ’’جعلسازی‘‘ قرار دیا۔ 19 ستمبر 2013ء کو تیونس کے وزیر داخلہ لافطی بن جیدو نے اپنی قومی اسمبلی کو بتایا کہ شام جانے والی لڑکیاں جنگجووں کے دل بہلانے کے کام آتی تھیں۔ تیونسی وزیر کے اس بیان پر تنقید بھی کی گئی۔ بعض حلقے اسے پروپیگنڈہ کا نام دیتے ہیں، تاہم یہ حقیقت ہے کہ پچھلے چند ماہ میں مغربی دنیا سے کئی خواتین ان شدت پسند گروہوں کا حصہ بنی ہیں، مغربی دنیا اس پر بڑی پریشان ہے اور اس حوالے سے جامع حکمت عملی بنانے پر غور ہو رہا ہے۔ دنیا میں کئی شدت پسند مذہبی گروپ ہیں، جو خواتین کے سرگرم جنگجو کردار کی حمایت کرتے ہیں۔
فلسطین میں سرگرم حماس تنظیم اپنے منشور کی شق 12 میں کہتی ہے کہ ’’دشمن کی مزاحمت اور اس سے مقابلہ ہر مسلمان مرد اور عورت کا بنیادی فرض ہے۔ ایک عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر دشمن سے لڑنے جاسکتی ہے اور غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر ایسا کرسکتا ہے۔‘‘ افغانستان اور پاکستان میں سرگرم اسلامک جہاد یونین بھی خواتین کو جہاد میں سرگرم کردار دینے کی حمایت کرتی ہے تاہم اس کی قیادت نے اس ضمن میں کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ جہاد یونین کی داعی خاتون امو محمد اپنے پیغام میں لکھتی ہے کہ ’’کھونے کیلئے تمہارے پاس کچھ نہیں۔ یہ نہ سوچو کہ تم ماں، باپ اور بچوں کو اپنے پیچھے چھوڑ جاو گی۔ کیا تمہارے لئے اللہ کی محبت، ا س کا دین اور اس کا حکم تمہارے خاندان کی نسبت زیادہ اہم نہیں۔‘‘ القاعدہ کے رہنما ابو مصعب الزرقاوی نے 5 جولائی 2005ء کو ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں اس نے کہا کہ ’’جہادی خاتون وہ ہے جو اپنے بچوں کو جہاد میں بھیجنے کیلئے پالتی ہے جہاد میں لڑنے اور مرنے کیلئے بھیجتی ہے۔ اس کا یہ کام قابل احترام ہے۔‘‘ تاہم مشہور شدت پسند تنظیم القاعدہ کا موقف مختلف ہے۔ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے 16 دسمبر 2007ء انٹرنیٹ جہادی کمیونٹی اور میڈیا کے لئے ایک پیغام جاری کیا۔ ’’کیا القاعدہ کو اپنی صفوں میں خواتین کو شامل کرنا چاہیے؟ میں نے ایک بہن غربا کے سوال پر کہا ! نہیں۔‘‘ ایک اور پیغام میں ایمن الظواہری کا کہنا ہے کہ ’’ القاعدہ میں کوئی خاتون نہیں۔ مجاہدین کی خواتین ان کے گھروں کا خیال رکھتی ہیں اور ہجرت، نقل و حرکت، اتحاد اور ممکنہ صلیبی حملوں کے دوران مجاہدین کے بیٹوں کی نگہداشت کرتی ہیں۔‘‘
القاعدہ رہنماؤں کی ہدایات کے باوجود عراق میں خودکش خاتون بمباروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ خواتین انٹرنیٹ پر الظواہری کے بیان کو مسترد کررہی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک سے جہاد کے لئے بھرتی ہونے والے افراد میں سے 10 فیصد خواتین ہیں۔ داعش دراصل صرف گروپ نہیں ایک ریاست بنانا چاہتی ہے اس لئے وہ خواتین کو اپنے ہاں بلا رہی ہے۔ ایک بات ہے کہ یہ خواتین جب شام اور عراق پہنچتی ہیں تو وہاں رومانویت آمیز تاریخی ناولوں والا مجاہد نہیں ملتا بلکہ انہیں لیٹرین دھونے، زخموں والی پٹیاں بدلنے اور جنگجوؤں کی ضروریات پوری کرنے کا کام سونپ دیا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ
مغربی دنیا اس نئے ایشو کو کس طرح کائونٹر کرتی ہے۔
بشکریہ: روزنامہ دنیا