حضرت فاطمہ زہرا ۔۔۔۔۔۔امّ ابیھا (س)
تحریر: ساجد حسن ساجد
یوں تو دنیا میں ہم بہت سے باپ اور بہت سی اولادیں دیکھتے ہیں، مگر آج تک کسی باپ کو یہ کہتے نہیں سنا کہ میرا بیٹا میرا باپ ہے، یا میری بیٹی میری ماں ہے۔ اور اگر ایسا جملہ کوئی باپ کہہ دے تو یہ اعزاز اس بیٹے یا بیٹی کی عظمت کو بیان کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ تاریخ میں ایسا واقعہ گذرا بھی ہے کہ ایک باپ نے اپنی بیٹی کو کہا کہ تم میری ماں ہو۔ یہ جملہ کسی بیٹی کی عظمت کو دو چند کر دیتا ہے، پھر جب یہ جملہ ایک ایسی ہستی کی زبان مبارک سے ادا ہو کہ جن کی زبان مبارک وحی سے دھلی ہوئی ہو، وہ ہستی کہ جس کے بارے میں تمام جہانوں کے خالق کا فرمان ہو کہ ’’ و ما ینطق من ھویٰ ان ھو الا وحی یوحی‘‘ یعنی میرا حبیبؑ اپنی خواہش نفسانی کے غلبے میں کچھ نہیں بولتا جو کچھ بھی بولتا ہے، وحی الہی کے اثر میں بولتا ہے، تو اس بیٹی کی عظمت کا بیان ناقص قلم کے ذریعےسے لکھنا ممکن ہی نہیں۔ باپؑ ایسا کہ تمام جہان جن کی وجہ سے خلق ہوئے ہیں، جب ایسا عظیم الشان باپ کسی بیٹی کو کہہ دے کہ تم میری ماں ہو، تو اس بیٹی کی عظمت کے ثبوت کیلئے الفاظ کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
جناب سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا ایک ایسی ہستی ہیں کہ جن کی عظمت کو قرآن کی کئی آیات بیان کرتی ہیں۔ اگر کوئی اور آیت نہ بھی ہو تو جناب سیدہ ؑ کی فضیلت کیلئے سورہ کوثر ہی کا فی تھی، یہ سورہ، عاص بن وائل کے اس اعتراض کے بعد اتری کہ جب اس نے رسول گرامی اسلام ﷺ کو کہا کہ ( نعوذ باللہ) آپ بے اولاد ہیں اور خداوند متعال نے رسول گرامی اسلام ﷺ کو تسلی دی کہ آ پ مت گھبرائیے آپ کو اللہ نے کوثر (خیر کثیر) عطا کیا اور کوثر سے مراد جناب سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کی ذات اقدس ہے۔
جناب سیدہ زہراء سلام اللہ ایک ایسی ہستی ہیں کہ آپ دنیا میں آنے سے پہلے اپنی والدہ ماجدہ کی تنہائی کو دور کرنے کیلئے شکم مادر میں اپنی ماں سے بات کیا کرتی تھیں۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ کئی دفعہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کو بات کرتے سنا، مگر وہاں کوئی ذی روح موجود نہ تھا تو استفسار کرنے پر بتاتی تھیں کہ میں اس بچی سے جو کہ میرے شکم میں ہے بات کر رہی ہوں۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے کہ جب بھی جنّت کا مشتاق ہوتا ہوں تو جناب سیدہ زہراء سلام اللہ علیھا کی خوشبو کو سونگھتا ہوں۔ یہ دنیا کی پہلی بیٹی ہے کہ جس کیلئے نبی کریم ﷺ جیسی عظیم المرتبت ہستی اپنی جگہ سے بلند ہو کر جناب سیدہ کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ اپنی چادر مبارک اپنی بیٹی کیلئے بچھاتے اور ان کو اس پر بٹھاتے تھے۔
آپ ﷺ ایک مرتبہ کعبہ کے صحن میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ اس دوران ابو جہل اپنے چند ساتھیوں سمیت وہاں آیا اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت گستاخی کرتے ہوئے، آپ ﷺ کی پشت مبارک پر اونٹ کی آلائش (اوجھڑی) ڈال دی، یہ ماجرا دیکھ کر کسی نے ابوجہل کے سامنے جرأت کا اظہار نہ کیا، کہ آنحضرت ﷺ کے جسم اطہر سے اس کو دور کرتا۔ ایک شخص دوڑا دوڑا نبی اکرم ﷺ کے گھر پہنچا اور جناب سیدہ ؑ کو سارا ماجرا بتا ڈالا، جناب سیدہؑ جلدی سے اپنے بابا کے پاس پہنچیں اور آپ ﷺ کی پشت مبارک سے ساری آلائش کو دور کیا اور اپنے باپ کو لے کر گھر آئیں اور اپنے بابا کا سر اپنی گود میں رکھ کر اپنی نرم اور میٹھی باتوں سے ان کا سارا غم دور کیا اور جب آپ نے یہ عمل انجام دیا تو اس موقع پر رسول اکرم ﷺ ارشاد فرمایا ’’ الفاطمہ امّ ابیھا‘‘ فاطمہ اپنے بابا کی ماں ہے۔