مضامین

سعودی ایران یا اسرائیل ایران پراکسی؟

مشرق وسطٰی کے مسائل کو عام طور ہمارے ہاں سعودی ایران پراکسی جنگ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ عنوان ہمارے ہاں کے دانش وروں نے نہیں دیا بلکہ جنھوں نے آتشِ جنگ بھڑکائی ہے انھوں نے ہی جنگ کے لئے نام اور عنوان بھی تجویز کیا ہے اور ہمارے’’ آگاہ اور باخبر دانش ور‘‘ وہی عنوان بے دریغ اور بے سوچے سمجھے استعمال کر رہے ہیں۔ جو عینک انھیں عنایت کی گئی ہے، وہ اُسی سے اُس پار ’’حقائق‘‘ کو دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے محترم دانشوروں سے مودبانہ خواہش کرتے ہیں کہ وہ خود سے حقائق کی ٹوہ لگائیں اور پھر انھیں جو مناسب عنوان سمجھیں دے دیں۔ اس حوالے سے کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہم چند امور اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ وہ تحقیق کرکے رائے قائم کریں، ہم البتہ انھیں حقائق کی حیثیت سے جانتے ہیں، انھیں تاریخی ترتیب سے بیان نہیں کیا جا رہا۔

(1) مصر میں اخوان المسلمین کے حمایت یافتہ صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ مصر کی فوج نے پلٹ دیا۔ اخوان المسلمین اہل سنت پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر مرسی بھی راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہیں۔ وہ اکثریت کے حمایت یافتہ منتخب صدر بھی تھے۔ ان کی حکومت بھی قانونی تھی، لیکن سعودی عرب نے ان کی حکومت کا تختہ پلٹنے والی فوج کی کھلے بندوں حمایت ہی نہیں کی بلکہ بھرپور مالی امداد سے بھی نوازا۔
(2) ایران میں 1979ء میں وسیع عوامی حمایت کے نتیجے میں ایک حکومت قائم ہوئی، جس نے شاہ ایران کے دور میں اسرائیل سے قائم سفارتی، تجارتی اور فوجی تعلقات کو ختم کر دیا اور تہران میں جو عمارت اسرائیل کے سفارتخانے کے طور پر بنائی گئی تھی، اُسے فلسطین کے مرحوم صدر یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کے حوالے کر دیا۔

(3) انقلابی ایران نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی، فلسطینی تنظیموں کو سیاسی و اخلاقی ہی نہیں فوجی تعاون بھی مہیا کیا۔ حماس اور اسرائیل کے مابین گذشتہ معرکوں میں حماس نے جو راکٹ اسرائیل کے خلاف استعمال کیے وہ ایران نے مہیا کیے تھے، جبکہ اس سے پہلے فلسطینی بچے غلیلوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ حماس کی مدد کا یہ اعلان خود ایران نے سرکاری طور پر کیا۔ اس سلسلے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حماس اہل سنت کی تنظیم ہے۔
(4) لبنان کی سرزمین کو اسرائیل سے آزاد کروانے والی حزب اللہ کو بھی ایران کی ہر طرح کی حمایت حاصل رہی ہے اور اب بھی ہے۔ لبنان کے جو علاقے اسرائیل کے قبضے میں تھے، وہ شیعہ آبادی پر مشتمل علاقے ہیں، اس لئے حزب اللہ شیعوں پر مشتمل تنظیم ہے۔ لبنان کی سنی تنظیموں کے ساتھ بھی ایران کے اچھے تعلقات ہیں۔

(5) ایران میں انقلاب رونما ہوا تو عراق میں صدام حسین کی حکومت تھی، جس نے 1980ء میں ایران پر فوجی یلغار کر دی۔ یہ جنگ آٹھ سال تک جاری رہی۔ اس میں صدام حسین کو امریکا اور سوویت یونین کے علاوہ علاقے کی بیشتر عرب حکومتوں کی حمایت حاصل تھی، جن میں عراق، کویت اور دیگر ممالک شامل تھے۔ اس زمانے میں امام خمینی (رہ) ایران کے روحانی پیشوا تھے۔ انھوں نے بارہا کہا کہ میں عرب حکمرانوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ صدام حسین ایران سے فارغ ہوکر عربوں پر حملہ کرے گا۔ ایران کے خلاف جنگ بند ہوئی تو صدام حسین نے کویت پر چڑھائی کر دی۔ اب امریکا کی قیادت میں نئی صف بندی میں پھر سعودی عرب شامل تھا۔ اس نے امریکا کو اپنی سرزمین ہی نہ دی بلکہ سب سے زیادہ مالی وسائل فراہم کرنے والوں میں بھی سعودی عرب دوسروں پر سبقت لے گیا۔

(6) شاہ ایران کے امریکا سے تعلقات پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ اسے اس خطے میں امریکا کے پولیس مین کی حیثیت حاصل تھی، جبکہ ایران میں آنے والے انقلاب کا سب سے زور دار نعرہ ’’مرگ بر امریکہ‘‘ تھا۔ امام خمینی نے امریکا کو ’’شیطان بزرگ‘‘ قرار دے رکھا تھا۔ تہران میں امریکی سفارت خانے پر تہران یونیورسٹی کے طلبہ نے قبضہ کرلیا۔ وہاں سے ملنے والی دستاویزات کی روشنی میں اس سفارتخانے کو ’’جاسوسی کا اڈہ‘‘ قرار دیا گیا۔ اس وقت سے اب تک ایران کے امریکا سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ ایران کے خلاف امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر خوفناک اقتصادی پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔ ان پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی زمانے میں امام خمینی نے کہا تھا: ’’تم ہمارے اردگرد لوہے کی دیوار کھڑی کرلو۔ ہم تمھیں زندہ رہ کر ثابت کریں گے کہ ہمارا کوئی خدا ہے۔‘‘

(7) سعودی عرب پر امریکا کی نوازشات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سعودی عرب اسرائیل کے بعد علاقے میں امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے بلکہ اب تو دنیا بھر میں اس کا نمبر دوسرا ہے۔ وہ بھارت سے بھی زیادہ اسلحہ خرید رہا ہے۔ گذشتہ تین برس میں اس نے 150 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے، جو ایک اندازے کے مطابق یمن کے 40 برس کے کل بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔
(8) سعودی عرب پر بے پناہ امریکی مہربانیوں کے باوجود خطے میں امریکا کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل کے مفادات کا تحفظ، بلکہ اسرائیل کا تحفظ امریکی سیاست کا بنیادی محور ہے۔ لہٰذا امریکا نے ایران اسرائیل مسئلے کو بہت خوبصورتی سے ’’دانش مند حکمرانوں‘‘ کی مدد سے اسے ایران سعودی، اور شیعہ سنی مسئلہ بنا دیا ہے۔

ابھی ہم نے صرف آٹھ نکات سپرد قلم کئے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کی خدمت میں گذارش کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر ان نکات کا مطالعہ کریں۔ اگر وہ بھی انھیں ’’حقائق‘‘ جانیں تو پھر مشرق وسطٰی
میں جاری آویزش کو سعودی ایران پراکسی کا نام نہ دیں اور نہ اسے شیعہ سنی مسئلے کے پراپیگنڈا کے تناظر میں دیکھیں بلکہ ایران اسرائیل معرکے کا نام دیں۔ ہم اپنی آج کی گفتگو ایران کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کے ایک بیان پر ختم کرتے ہیں: 29،30 جنوری 2012ء کو تہران میں بیداری اسلامی کانفرنس برائے جوانان منعقد ہوئی۔ اس میں 73 ممالک سے 1200 نمائندے شریک تھے۔ دو روزہ کانفرنس کے مختلف سیشن ہوئے۔ کانفرنس کے دوسرے روز دوسرے سیشن میں مختلف ممالک کے منتخب جوانوں نے خطاب کیا۔ اس میں بوسنیا کے ایک جوان ڈاکٹر بھی تھے۔

بوسنیا کے نمائندے کی تقریر کے بعد ڈاکٹر ولایتی نے مختصر سی گفتگو کی اور اپنی چند یادیں حاضرین سے بیان کیں۔ اس گفتگو میں انھوں نے فلسطین کے موضوع پر بھی بات کی۔ ڈاکٹر ولایتی نے ایران کی طرف سے فلسطین کی مسلسل حمایت اور اس کے لئے ادا کی جانے والی بھاری قیمت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ امریکہ کی طرف سے پیغام آیا کہ اگر ایران صرف اسرائیل اور فلسطین کے مابین امریکہ کی طرف سے تجویز کردہ امن معاہدے کی حمایت کردے تو امریکہ و ایران کے مابین تمام تر معاملات حل ہوسکتے ہیں۔ (یعنی ایران پر عائد تمام تر پابندیاں ختم ہوسکتی ہیں۔ امریکہ میں ضبط کئے گئے ایرانی اثاثے واپس مل سکتے ہیں اور بہت سے دیگر معاملات حل ہوسکتے ہیں) لیکن ایران نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا دنیا میں کوئی اور ایسا ملک ہے جو اتنی بھاری قیمت ادا کرکے فلسطین کی حمایت کر رہا ہو؟ یہ بات کرنے کے بعد انھوں نے حاضرین سے کہا کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ فلسطینی اہل سنت ہیں۔؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button