یمن، آئینی حکومت کا دفاع
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی
چلو فرض کرتے ہیں کہ یمن میں آئینی حکومت کا تختہ پلٹ کر ’’انصار اللہ‘‘ نے اپنی حکومت قائم کرلی ہے تو کیا اس سے سعودی عرب کو یمن پر فوجی یلغار کا حق حاصل ہوگیا ہے اور کیا واقعی سعودی عرب کو یمن میں ایک آئینی حکومت کے قیام میں دلچسپی ہے۔؟
اس معاملے کو مزید سمجھنے کے لئے چند مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں:
1999ء میں پاکستان میں (اس وقت) وزیراعظم نواز شریف کی آئینی حکومت قائم تھی۔ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل (ر) پرویز مشرف نے اس حکومت کو پلٹ دیا۔ کیا اس پر بھارت یا کسی اور ملک کو پاکستان پر فوجی یلغار کا حق حاصل ہوگیا تھا، تاکہ وہ پاکستان میں غیر آئینی حکومت کو ختم کرکے پھر سے آئینی حکومت بحال کروائے اور چین، بنگلہ دیش اور ترکی وغیرہ کو چاہیے تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعاون کرتے، چونکہ بھارت کو ’’مشکل وقت‘‘ میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا؟
مصر میں اخوان المسلمین کے نمائندہ ڈاکٹر محمد مرسی کی صدارت میں آئینی حکومت قائم تھی۔ جنرل سیسی جو مصری افواج کے سپہ سالار تھے، انھوں نے صدر مرسی کی حکومت کو پلٹ دیا۔ انھیں جیل روانہ کر دیا۔ وہ ابھی تک زندان میں ہیں۔ کیا سعودی عرب نے اس آئینی حکومت کی حمایت میں فوجیں جمع کیں، خلیج تعاون کونسل یا عرب لیگ کا اجلاس طلب کیا، تاکہ مصر کی آئینی حکومت کو بحال کیا جاسکے؟ نہیں بلکہ سعودی عرب نے ’’الاخوان‘‘ کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ جنرل سیسی کو خوش آمدید کہا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے آئینی حکومت پلٹنے والوں کی بے پناہ مالی امداد کی۔ ان احسانات کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور ان ہی احسانات کا بوجھ اتارنے کے لئے جنرل سیسی اس وقت سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ان کی زمینی فوج یمن کے ’’آئین شکنوں‘‘ کو کچلنے کے لئے بے قرار ہے۔
1979ء میں ایران میں ایک عظیم عوامی انقلاب رونما ہوا۔ امام خمینی اس کے قائد تھے۔ آئین ساز کونسل نے آئین کا ایک ڈرافٹ تیار کرکے ریفرنڈم کا انعقاد کیا۔ 97فیصد سے زیادہ عوام نے اس آئین کی تائید کی۔ اس آئین کے تحت انتخاب منعقد ہوئے، نئی حکومت قائم ہوئی۔ یہ حکومت ابھی نئی نئی تھی کہ عراق کے صدر صدام حسین نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ایماء پر ایران پر حملہ کر دیا۔ سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات اور علاقے میں سعودی عرب کے اتحادی صدام حسین کی پشت پر کھڑے ہوگئے۔ ایران کی آئینی حکومت کے خلاف آٹھ برس تک جارحیت کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ نے بھی آخر کار صدام حسین کو جارح قرار دے دیا۔
فلسطین میں حماس کی منتخب حکومت کے خلاف اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے اقدامات شروع کر دیئے۔ اسماعیل حانیہ اکثریتی پارٹی کے وزیراعظم تھے۔ محمود عباس کو صدارتی انتخابات میں کامیابی دلوانے کے لئے اسرائیل نے جو وسائل خرچ کئے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آخر جوڑ توڑ شروع ہوا۔ حماس کو اسرائیل نے دہشت گرد قرار دے دیا۔ اسماعیل حانیہ کو مغربی کنارے سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا۔ حماس کی حکومت غزہ میں محدود اور محصور ہوکر رہ گئی۔ اب غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس آئینی حکومت کی حمایت کے بجائے سعودی عرب نے اسرائیلی منصوبے کی حمایت کی۔ محمود عباس سے دوستی کی پینگیں چڑھتی رہیں اور حماس کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
بحرین میں عوام نے جمہوری حقوق کی جدوجہد شروع کی۔ خاندانی بادشاہت کو وہ آئینی بادشاہت یعنی آئین کی پابند بادشاہت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے جیسے برطانیہ میں ملکۂ برطانیہ کی بادشاہت جمہوری اصولوں کی پابند ہے اور اصل اختیار عوام کے منتخب اکثریتی نمائندے یعنی وزیراعظم کی حکومت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اس جدوجہد کو کچلنے کے لئے سعودی شاہی خاندان نے بحرین پر حاکم یا قابض شاہی خاندان کی حفاظت کے لئے بحرین میں اپنے ٹینک داخل کر دیئے۔ اس طرح ایک پرامن، نہتے عوام کی جمہوری جدوجہد کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ کون سے عوام، کونسا آئین اور کونسے حقوق؟
اگر یہ کہا جائے کہ سعودی عرب میں ایک منتخب عوام دوست آئینی حکومت قائم ہے۔ جو وہاں کے عوام میں بہت مقبول ہے۔ جمہوری اصولوں کی پاسدار ہے۔ ساری دنیا میں اس کی انسان دوستی کے چرچے ہیں۔ مسلمانوں میں امن و خوش حالی اور اتحاد و وحدت کے لئے اس کی گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ مسلمانوں اور کمزور قوموں کے حقوق کی محافظ ہے۔ سعودی عرب میں عوام دوست حکمرانوں نے عدل اجتماعی پر مبنی نظام قائم کر رکھا ہے۔ وہ اگلے وقتوں کے مسلمان حکمرانوں کی طرح سادگی اور درویشی کی مثال ہیں۔ عوام کے تمام طبقوں کے حقوق کے پاسبان ہیں۔ سعودی عرب میں بسنے والے حنفی، شافعی، شیعہ اور دیگر مسلمان حنبلیوں اور سلفیوں کی طرح تمام حقوق حاصل کئے ہوئے اپنے حکمرانوں سے مطمئن ہیں۔ وہاں کی سول سروس میں اہلیت کی بنیاد پر تمام مسالک اور طبقوں کے لوگوں کو شرکت کا موقع دیا جاتا ہے۔ سعودی حکمران ہمیشہ صہیونیت کے مظالم کے خلاف اگلی صفوں میں داد شجاعت دیتے رہے ہیں۔ وہ دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا میں اپنے وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ وہ دنیا میں مذاکرے اور مکالمے کو ترویج دینے میں پیش پیش ہیں اور بھی بہت کچھ۔
کیا قارئین کرام اس تمام ’’خراج تحسین‘‘ کو درست تسلیم کرلیں گے؟ اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہے کہ س
عودی عرب یمن میں ایک آئینی حکومت کے دفاع کے لئے آج ’’قربانیاں‘‘ دے رہا ہے لیکن اگر یہ سب کچھ جھوٹ ہے تو پھر یہ کیسے سچ ہوگیا کہ سعودی عرب یمن میں آئینی حکومت کی بحالی کے لئے بے قرار ہے۔ آل سعود وہی خدمات انجام دے رہے ہیں جو اقتدار عطا کرنے والی طاقتوں نے ان کے ذمے کر رکھی ہیں۔