چنیوٹ، جشن میلاد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا
شیعہ نیوز (چنیوٹ) حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت کے موقع پر ہر سال ایک پرشکوہ میلاد مبارک، اپنی انفرادیت اور اجتماعی ثمرات و اہداف کے لحاظ سے بعثت ٹرسٹ کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک ہے۔ رجوعہ سادات میں "فاطمہ یونیورسٹی” کا قیام اسی عظیم جشن کے منانے کے نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے۔ اس سال بھی بروز جمعہ ۲۰ جمادی الثانی ۱۴۳۶ھ مدرسہ کاظمیہ میں اس جشن کا انعقاد کیا گیا۔ پنڈال میں جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی لحد مبارک، امام علی علیہ السلام کا کنواں اور آخر میں شہید عماد مغنیہ اور شہید بہشتی کی قبر کا ماڈل ثقافتی ٹیم نے نہایت محنت سے تیار کیا ہوا تھا۔ بی بی (س) کے القاب پر مشتمل مختلف پینافلیکس کے ذریعے اس کے ماحول کو مزید نورانی بنایا گیا۔ جشن کی پہلی نشست کا آغاز تلاوت ِ قرآن سے کیا گیا۔ انجینئر عمران حیدر کو دعوت خطاب دی گئی۔ آپ نے کہا کہ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم فخر ملائکہ بلکہ فخر کائنات اور خیر کثیر کے میلاد کا جشن منعقد کر رہے ہیں۔ اس پروگرام کے میزبان ہم نہیں ہیں بلکہ اس کی میزبان خود سیدہ مخدومہ کونین ہیں۔ ان کے بعد حسن مھدی کاظمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر انسان کو اپنی ذات کی شناخت اور کائنات شناسی کے بعد اس کائنات کے خالق کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہوگا اور اس کے دیئے ہوئے نظامات ہی کو عملی کرنے کی کوشش کا نام "بعثت” ہے، جو کہ بنیادی ۱۴ نظامات پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے حاضریں کو اس سفر میں شریک کار بننے کی عمومی دعوت دی اور آئندہ کے بھی چند منصوبوں کا بھی ذکر کیا۔
ان کے بعد قاضی شبیر علوی نے جناب سیدہ (س) کے فضائل و مناقب بیان کرنے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ عہد کریں کہ بی بی (س) کی پسندیدہ ترین شے تلاوت قرآن میں کبھی کوتاہی نہیں کریں گے۔ علامہ سید شبیر بخاری نے اپنے خطاب میں سورہ دخان کی روشنی میں فضائل حضرت فاطمہ بیان کئے۔ جب بی بی عبادت کے لئے کھڑی ہوتیں تھیں تو انکا نور عرشِ الہی تک جاتا تھا۔ آپ ہی نور الہی کسب کرنے کا سریع وسیلہ ہیں اور اس جشن ِحضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا میں گیارہ آئمہ خود میزبان ہیں۔ پہلی نشست کے اختتام پر نماز جمعہ کا وقت ہونے کو تھا۔ پہلے خطبہ جمعہ میں سید محمد حیدر نقوی نے فضیلت تقویٰ کے بعد کہا کہ اللہ نے جن اعزازات سے اس گھرانے کو نوازا، وہ کسی بھی دوسرے کے حصے میں نہیں آتے۔ دوسرے خطبے میں اس جشن میں شرکت کرنے ولے مہمانان ِ گرامی کو خوش آمدید کہا اور "یمن، ملکی اور بین الاقوامی تناظر میں” کے موضوع پر گفتگو کی۔
وقفہ طعام کے بعد دوسری نشست میں شاعر اہلبیت زوار بسمل، آقای سید مظہر حسین کاظمی اور آقای نقی ہاشمی نے خطاب کیا۔ آغا نقی ہاشمی نے نسل کوثر اور اس کے دائرہ کار پر نہایت مفصل خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ امام خامنہ ای حسینی سید، حسن نصر اللہ، آیۃ اللہ سیستانی، عبدالمالک حوثی یہ سارے نسل کوثر ہی کے افراد ہیں۔ حتی کہ پاکستان میں شھید عارف بھی اسی نسل کوثر ہی کے فرد ہیں، جن کو کفار طعنہ دیا کرتے تھے کہ آپ (ص) کی اولاد نہیں ہے۔ اللہ نے تو حضرت فاطمہ زہراء (س) ہی کے ذریعے سادات، علویوں اور مذہب تشیع کو پھیلا دیا۔ اس وقت دنیا میں قلوب میں نفوذ کے اعتبار سے تشیع سب سے آگے ہے۔ یہ سب برکات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ہی کی ذات اقدس کی بدولت ہی ہیں۔
سید مظہر حسین کاظمی نے روایات اہل سنت کے پس منظر میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی عظمت کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے کہا کہ "اللہ اور اس کا سسٹم ہی سب سے بڑا ہے۔ دنیا کا معنی ہے پست، اور علی (ع) کا معنی ایسی بلندی جس نے کبھی پستی دیکھی ہی نہ ہو، اب کوئی علی (ع) والا ہو تو اس کو پستی پسند ہو، ایسا نہیں ہوسکتا۔” انہوں نے کہا کہ تفسیر کوثر یہ ہے کہ یہ کسی کامل خاندان کی بات ہے۔ قیامت برپا ہی نہیں ہوگی جب تک اس محمد (ص) کے بیٹے حکومت قائم نہ کر لیں۔ رسول (ص) باغ ہیں اور بتول (س) اس باغ کی نگہبان ہیں۔ اگر باغ کی حفاظت نہ کی جائے وہ باقی نہیں رہ سکتا۔ جبریل نے جب کثرت انوار کی وجہ سے سوال کیا تو حضرت فاطمہ (س) کو محور قرار دے کر تعارف اہلبیت کرایا گیا۔ امام احمد بن حنبل سے روایت ہے کہ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ "بی بی (س) شہادت کی صبح تروتازہ لگتی تھیں۔ مجھ سے پانی مانگا، غسل کیا اور کہا مجھے اب دوبارہ غسل نہ دینا۔” معصوم فرماتے ہیں "ہم آئمہ تمام انسانوں پر حجت ہیں اور ہم پر حضرت فاطمہ حجت ہیں۔” انہوں نے کہا کہ ہم سب انسان ناقص ہیں، حضرت فاطمہ کی عظمت ہماری عقل میں سما نہیں سکتی، بلکہ انسانیت مکمل ہی نہیں ہوتی جب تک آئمہ اہل بیت کے سامنے نہ جھکا جائے۔ بس جو ہمیں لینا ہے، عملاً عہد کریں کہ ہم بھی وہی نظامات لیں جو اللہ نے آئمہ کے ذریعے دیئے ہیں، لیکن یہ مروجہ تعلیمی سسٹم سے ممکن ہی نہیں۔