مسئلہ یمن اور پاکستان کی مشکلات
تحریر: سید اسد عباس تقوی
ایک یا دو نہیں دس عرب حکومتیں یمن کے حوالے سے پاکستان سے جو مطالبہ کر رہی ہیں، اس سلسلے میں کوئی سیدھا سادھا جواب دینا کم از کم ان کے احسانات تلے دبے ہوئے حکمرانوں کے لئے آسان کام نہیں ہے، جس کا مظاہرہ گذشتہ چند ہفتوں میں دیکھنے میں آیا۔ حکومت پاکستان نے پہلے پہل کہا کہ ہم سعودیہ کی سالمیت کے لئے ہر طرح سے حاضر ہیں لیکن جب ملک میں موجود اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ردعمل آیا تو ابتدائی بیان میں لچک آئی اور کہا کہ نہیں ہم پارلیمنٹ جائیں گے۔ جو بات پارلیمنٹ کرے گی وہی ہمارا فیصلہ ہوگا۔ پھر پارلیمنٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
اس فیصلے کو قوم کے ایک بڑے حلقے نے پسند کیا، تاہم وہ جن کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا، اس پر بہت برہم ہوئے اور انھوں نے واشگاف الفاظ میں دھمکی دے ڈالی کہ اس فیصلے کا آپ کو بہت نقصان ہوگا۔ اس بیان نے حکومتی ایوانوں میں ایک مرتبہ پھر کھلبلی مچا دی۔ 13 اپریل یعنی کل ایک مرتبہ پھر مشاورتی اجلاس بلوایا گیا، جس کی اگرچہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے بعد چنداں ضرورت نہ تھی، تاہم اس اجلاس سے عالمی پریشر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صورتحال تقریباً افغانستان پر امریکی حملے جیسی ہی ہے۔ اس وقت بھی یہ صدا سنائی دی تھی کہ ’’یا تو تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو‘‘، درمیانی کوئی راہ نہیں۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف نے ’’ہمارے ساتھ ہو‘‘ کے انتخاب کا فیصلہ کیا، کیونکہ انھیں نظر آرہا تھا کہ اگر ہم ساتھ نہیں دیتے تو جہاں خطے میں ہندوستان کا رسوخ بڑھے گا، وہیں اس فیصلے کے پاکستانی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ پس ہم ان کے ساتھ ہو لئے یہی فیصلہ ہمیں اس وقت کم برا نظر آیا۔
اب بھی صورتحال وہی ہے کہ عرب حکمران جو بہرحال کسی نہ کسی انداز سے پاکستان کی مدد کرتے رہے ہیں، انہوں نے ہم سے یہ سوال کر دیا ہے کہ ’’یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو‘‘ بیچ کی کوئی راہ نہیں۔ یمن پر مسلط کردہ جنگ حق ہے یا باطل، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے، تاہم افسوس یہ ہے کہ عالمی سیاست میں معاملات کو حق و باطل کی بنیاد پر نہیں بلکہ نفع و نقصان کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے۔ یمنی خواہ مظلوم ہوں، خواہ ان کے خلاف ننگی جارحیت جاری ہو، انھوں نے کسی بیرونی ملک پر حملہ نہ کیا ہو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بات تو یہ ہے کہ دنیا کی طاقتیں لکیر کی ایک جانب کھڑی ہیں اور یمنی دوسری جانب۔ ایسے حالات میں پاکستان جیسی اقوام کے لئے فیصلہ بہت مشکل ہوتا ہے، جب انصاف اور ضمیر انھیں ایک جانب کھینچتا ہے اور نفع و نقصان دوسری جانب۔
ایک حاضر سروس فوجی افسر سے میری یمن کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ ان کا کہنا تھا: پاکستان بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ دنیا میں ہمارا کردار کمیوں والا ہے (میں نے لقمہ دیا بخشو) تو وہ بولے ہاں ’’بخشو‘‘۔ پھر وہ کہنے لگے کہ طالبان کے خلاف جنگ کے لئے ہمیں دس سال ذہن سازی کرنی پڑی، اس کے بعد ہمارے جوان محاذوں پر گئے، اس کے باوجود جب کسی جوان کا جسد خاکی گھر آتا ہے تو یہ آسان نہیں ہوتا۔ اگر یہی جوان سعودیہ جا کر لڑ مریں اور ان کی میتیں پاکستان آئیں تو ہم معاملات کو کیسے سنبھالیں گے۔ لہذا فوج کسی ایسی جنگ میں داخل ہونے کے لئے تیار نہیں، جس میں اسے فعال کردار ادا کرنا پڑے۔ ہم فقط مددگار کا کام کرسکتے ہیں، تاہم ہمارے عرب برادران ہم سے کچھ اور توقع رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم صنعاء کو کلیئر کروائیں، جیسا کہ ہم نے وزیرستان کو کلیئر کروایا۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے۔ دوسری جانب ہماری معیشت کا انحصار سمندر پار پاکستانیوں کی آمدن نیز عرب حکمرانوں کی وقتاً فوقتاً کی جانے والی مدد پر بھی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں عرب ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو اگر ہمارے کسی فیصلے کی وجہ سے نقصان پہنچے تو یہ پاکستان کا ہی نقصان ہے اور کوئی بھی دانشمند اس فیصلے کو درست نہیں کہے گا۔
میں نے پوچھا کہ کیا اس جنگ میں شامل ہو کر ہم ایران سے بلواسطہ ٹکر نہیں لیں گے؟ اور کیا اپنے ایک اہم ہمسائے سے ہاتھ دھو نہیں بیٹھیں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس ٹکر میں نقصان کم ہے۔ (میرا سوال تھا کہ وہ کیسے؟) تو وہ بولے کہ سعودیہ اور عرب ریاستیں ہمارے ملک میں شدت پسند گروہوں کو فنڈنگ کرتی ہیں۔ اگر وہ ان لوگوں کو ابھاریں (جس کے امکانات ہیں) کہ ریاست کے خلاف میدان میں اترو، تو یہ لوگ ملک میں فساد برپاکر دیں گے جبکہ ایران کی جانب سے ایسے فساد کی توقع نہیں ہے۔ بات تو یہ پتے کی تھی۔
پھر میرا اگلا سوال یہ تھا کہ موجودہ صورتحال میں درمیانی راہ کیا ہوسکتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ بخشو کے پاس کیا حل ہوسکتا ہے، سوائے اس کے کہ اپنی قیمت لگوائے اور زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرے۔ کوئی ڈیل کرے کہ میں یہاں تک جاؤں گا، میرے کچھ اور مزدور دبئی لے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کا کہنا تھا کہ پیسے کے لئے کوئی جان نہیں دیتا، جان ہمیشہ کسی کاز کے لئے دی جاتی ہے۔ ہمارے بہادر سپاہی وطن کی آزادی اور سالمیت کے لئے جانیں دیتے ہیں تو فخر کرتے ہیں، لیکن سعودیہ جاکر ہم کس لئے جان دیں نظام کے لئے، سعودی تسلط کے لئے؟ بات تو یہ بھی پتے کی تھی۔
اب اور کیا صورت بچتی ہے؟ صورت یہ بچتی ہے کہ پاکستان، فوج کو بھی بچا لے اور مدد بھی کر دے۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ پاکستان سے جنگجو بھرتی کئے جائیں، جو سعودیہ کے تحفظ کو کاز سمجھتے ہ
وں اور وہ یمن میں جاکر جنگ لڑیں۔ اس طرح کے نعرے ہمارے دیس میں سننے کو مل رہے ہیں۔ ایسی صورتحال بھی پہلے ہمارے ساتھ گذر چکی ہے، جب ہمارے ملک کی مذہبی تنظیموں کے افراد کو جہاد افغانستان کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اس مدد کے نتائج ہم سے پنہاں نہیں ہیں۔ اگر بفرض محال کوئی اور صورت کامیاب نہ ہو اور ہمیں یہ راہ اپنانی پڑے تو بھی ہمیں نہایت غور و فکر کے بعد ایسا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ ہم کسی ملک کی جنگ کا ایندھن بنیں اور اس جنگ کے شعلے ہمارے ملک میں نہ آئیں۔ کاش ہم بخشو نہ ہوتے۔۔۔۔۔۔۔!