مضامین

کس طرح ایران کی سفارتکاری نے سعودی عرب کے پیسے اور ہتھیاروں کو مات دے دی ؟

حالیہ مہینوں میں ان تبدیلیوں کے چلتے ہوئے کہ جو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے یمن پر حملے کے نتیجے میں رونما ہوئی ہیں ،ہمیشہ یہ دعوے کیے جاتے رہے ہیں کہ ایران یمن میں موجود ہے اور حوثیوں کی مدد کر رہا ہے تا کہ اس کو یمن پر حملے کا بہانہ بنایا جا سکے ۔ایک تجزیاتی سائٹ المانیٹر نے ایک مضمون میں حالات کا جائزہ لیا ہے اور اس طرح کے جھوٹے دعوے کیے جانے کی دلیل کی جانب اشارہ کیا ہے ۔

پاکستانی شیعہ خبررساں ادارے شیعہ نیوزکے مطابق ایک تحلیلی سائٹ” المانیٹر "نے ایک مضمون میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے یمن پر حملے کا تجزیہ کیا ہے اور اشارہ کیا ہے کہ اس واقعے کو سعودی عرب کی ایران کا مقابلہ کرنے کی کوشش کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ،لیکن اس دعوے کی تصدیق ہونے کے لیے دو چیزوں کے بارے میں تحقیق ہو نا چاہیے : پہلی یہ کہ کیا یمن میں جھڑپوں کی وجہ فرقہ وارانہ مسائل ہیں اور دوسری یہ کہ ایران یمن میں کس چیز کے پیچھے ہے ؟

یمن کو ہمیشہ دنیائے عرب کے افغانستان کے طور پر جانا جاتا رہا ہے ،زیادہ تر یمنی غریبی کی لائن سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ سعودی عرب کے ساتھ اس کی لمبی سر حد کے سوا اس ملک میں بہت ساری سیاسی اور اجتماعی سر گرمیاں ہوتی رہی ہیں ،عربی انقلابات کی تبدیلیوں کے بعد منصور ہادی ایک نفری انتخاب میں خلیج فارس تعاون کونسل کی حمایت سے یمن کے صدر کے طور پر منتخب ہوا ۔اس کے مقابلے میں ایک طرف حوثیوں اور دوسری طرف علی عبد اللہ صالح کے طرفداروں نے مختلف علاقوں میں اپنے اپنے پاوں جما لیے ۔

یمن کے امور کے ماہرین اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حوثیوں کی تحریک نے ایک زیدی پسند تحریک کے عنوان سے ،یمن میں سعودی عرب کی حمایت سے ۱۹۹۰ میں سلفیوں کی تحریک نے جو زور پکڑا تھا اس کے رد عمل کے طور پر جنم لیا ہے ،یہ دعوی کہ یہ تحریک فرقہ وارانہ ہے اور ایران سے مربوط ہے کافی پرانا ہے ۔

رابرٹ ورس مرکز ویلسن کا سابقہ محقق اور مشرق وسطی میں نیو یارک ٹائمز کا سابقہ نامہ نگار کہتا ہے حوثیوں پر شروع سے ہی یہ الزام تھا کہ یہ ایران کے پیدا کردہ ہیں ۔اس کے باوجود ان الزامات پر کسی نے زیادہ دھیان نہیں دیا ۔ورس کہتا ہے کہ سال ۲۰۰۷ میں جب وہ یمن میں موجود تھا ،اس وقت یہاں تک کہ یمنی حکام بھی اپنے خصوصی جلسوں میں اس نظریہ کو کہ حوثی کسی کی پیداوار ہیں مضحکہ خیز مانتے تھے ۔

حقیقت میں اگر ایران اور سعودی عرب کے درمیان یمن میں کوئی تنازعہ تھا کہ جس کا حوثیوں سے تعلق تھا تو اس کے نشاناٹ کو سال ۲۰۰۹ کے اواخر میں تلاش کرنا چاہیے ۔ اس سال سعودی عرب کے سرحدی علاقوں پر حملے کے بعد کہ جو حوثیوں کے کنٹرول میں تھے ایک بار پھر اس تحریک کے ایران کے ساتھ مربوط ہونے کے دعووں نے سر ابھارا تھا ۔

ورس کے نقطہء نظر سے اس امر کی دلیل واضح ہے :ایک عوامی مسلح تحریک مہینوں سعودی عرب کی فوج کے مقابلے پر ڈٹی رہی اور یہاں تک کہ اس نےان پر رسوا کن کاری چوٹیں بھی لگائیں ۔یہ ایسی حالت میں تھا کہ ایرانی ذرائع ابلاغ سعودی عرب کے مقابلے میں حوثیوں کی مقامت کی تعریف کر رہے تھے ۔امریکہ کی وزارت خارجہ کی اس زمانے کی اسناد کہ جن کو ویکی لیکس نے افشا کیا ہے ،ان سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی حکومت کو بھی حوثیوں کے ایران کے ساتھ مرتبط ہونے میں شک تھا ۔

ایرانی ذرائع ابلاغ میں سے ایک کا کہنا ہے کہ ایرانی ذرائع ابلاغ میں یمن کی خبروں کو اسی زمانے سال ۲۰۰۹ میں جگہ دی جانی شروع کی گئی۔سال ۲۰۱۱ کے تحولات کے زمانے سے نہیں ۔یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ ایرانیوں کی طرف سے حوثیوں کی مدد کی جانے کے بارے میں پہلی خبریں سال ۲۰۱۲ میں منتشر ہوئیں ۔ورس کہتا ہے کہ حوثیوں کے علاوہ ایران کا دوسری تحریکوں جیسے تحریک استقلال جنوب کے ساتھ بھی رابطہ تھا ۔اور یہ مسئلہ صرف حوثیوں تک محدود نہیں تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حوثی ایران کے تحت فرمان ہیں یا ان سے مشورہ لیتے ہیں ۔

اس سال ۱۲ اپریل کے دن یعنی دو روز پہلے سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے یمن پر حملہ بند کرنے کے سلسلے میں ایران کی درخواست پر رد عمل دکھاتے ہوئے کہا : ایران یمن کا ذمہ دار نہیں ،اگر یہ بات صحیح ہو تو پھر سعودی عرب نے کس کو نشانہ بنایا ہے ؟

ایران کے ایک سابقہ اعلی سیاستمدار نے المانیٹر سے کہا ہے کہ ریاض نے خود کو ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے کہ وہ خود کو علاقے میں ایران کےبڑھتے ہوئے نفوذ کے مقابلے پر پا رہا ہے ۔اس سلسلے میں سعودیوں نے متعدد محاذ کھول رکھے ہیں ،شیعوں اور سلفیوں کی عقیدے کی جنگ ،عراق میں ایران کو مشکلات سے دوچار کرنا ، اور اسی طرح شام لبنان اور اب یمن میں اس کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ اس پر طرفہ یہ کہ سعودی عرب ایران اور امریکہ کے درمیان روابط کی بہتری سے بھی خوف زدہ ہے کہ جس سے علاقے میں سعودیوں کا روایتی ساتھی بھی ان کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے ۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا یمن کی ایران کے علاقائی توازن میں کوئی گنجائش ہے اور ہے تو کیسے ہے ؟تہران میں مشرق وسطی کے مطالعات کے ادارے کے رئیس نے المانیٹر کو بتایا ہے کہ :ایران کی علاقائی سیاست علاقے میں تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے آزاد حکومتوں کی حمایت پر مبنی ہے ۔ایک آزاد یمن کہ جس کی ایک تمام عیار حکومت ہو اس حکمت عملی کی ارزش کو درست قرار دے گی اس
لیے کہ اس سے ایک اور عرب ملک ایران کے خلاف عربوں کے خارجی کھلاڑیوں کے ساتھ مشترکہ کھیل کے میدان سے خارج ہو جائے گا ۔

یمن کی جنگ کا شاید سب سے زیادہ قابل توجہ پہلوعلاقے کا اس پر رد عمل تھا۔کچھ حکومتوں نے تیزی کے ساتھ اپنی فوجوں کو سعودی حملہ آور فوجوں کے ساتھ ملحق کردیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران کے قدیمی اتحادی یعنی سوڈان نے بھی ان ملکوں کا ساتھ دیا ہے ،اس کے علاوہ رپورٹ ملی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے بھی درخواست کی ہے کہ اس کاروائی کے لیے مادی اور انسانی مدد فراہم کرے ۔

اس کے باوجود حالیہ دنوں میں ایران کی فعال سیاست کی وجہ سے اس جنگ میں علاقے میں سعودیوں کی کوشش کو بھاری چوٹ پہنچائی ہے ۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کے تہران کے سفر کے کچھ ہی دیر بعد کہ جس کا اختتام دونوں ملکوں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان پر ہوا تھا جس میں آیا تھا کہ یمن میں جھڑپوں کو ختم ہونا چاہیے ،ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے عمان اور پاکستان کا دورہ کیا اور یمن کے بارے میں دونوں ملکوں کے حکام سے بات چیت کی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان نے کہ جو سعودی عرب کا قدیمی اتحادی ہے اور ایسا ملک ہے کہ اگر ایران ایٹمی ہتھیار بناتا ہے تو یہ ملک سعودی عرب کے ایٹمی ہتھیار کا منبع بنے گا اس نے یمن میں ہر طرح کی مداخلت سے پہلو تہی کی ہے ۔

سعودی اور اماراتی دونوں نے کھل کر ترکی اور پاکستان کے یمن کی جنگ میں شرکت سے اجتناب کرنے پر دکھ کا اظہار کیا ہے ۔البتہ ان کا غصہ قابل فہم ہے : حوثی پہلے کی طرح یمن میں ہیں ،اور سعودی عرب اپنے افراد کو ہاتھ سے کھو رہا ہے ایک سنی محاذ تشکیل دینے کا خیال باطل ہو چکا ہے اور ریاض ایرانی پر چھائیوں کے خلاف ایک بہت مہنگی جنگ میں کود چکا ہے وہ جنگ کہ جس پر ایران کی پھوٹی کوڑی بھی خرچ نہیں ہو رہی ہے ۔

برز گر کے بقول ایران کی پالیسی یہ ہے کہ وہ حوثیوں کی حمایت کرے گا اور ضرورت پڑنے پر ان کو قایل کرے گا کہ وہ ایک ایسی حکومت تشکیل دیں کہ جس میں سبھی شامل ہوں ۔ اس کے ساتھ ہی ایران سعودی عرب اور مصر کے ساتھ اپنے رابطے کو دونوں کی مرضی کا راہ حل نکالنے کی خاطر ،یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے منقطع نہیں کرے گا ۔

اگر چہ یہ طے نہیں ہے کہ یمن کی جنگ کب ختم ہو گی ،مگر اتنا معلوم ہے کہ ایران کی پالیسی سعودیوں کے پیسے اور ہتھیاروں کا موئثر جواب ہے ۔ اسی دوران ایسے حالات میں کہ جب سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے لیے یمن میں اپنے مقاصد تک پہنچنے کا راستہ دن بدن پیچیدہ تر ہو رہا ہے ،یہ ملک جلدی ہی خود کو ایک دلدل میں پھنسا ہوا پائیں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button