مضامین

امام جواد علیہ السلام کا یحییٰ بن اکثم سے مناظرہ،ولادت پر خصوصی تحریر

جس وقت "مامون”، "طوس” سے بغداد آیا تو امام جواد (علیہ السلام) کے نام ایک خط لکھا اورا مام کو مدینہ سے بغداد آنے کی دعوت دی ۔ البتہ یہ دعوت بھی امام رضا (علیہ السلام) کی طرح ظاہری دعوت تھی لیکن حقیقت میں آپ کا یہ سفر زبردستی اور مجبوری کی حالت میں تھا ۔ آپ نے قبول کرلیا اور جب آپ بغداد پہنچے تو مامون نے آپ کو اپنے محل میں آنے کی دعوت دی اوراپنی بیٹی "ام الفضل” سے شادی کرنے کی پیشنہاد دی ،ا مام (علیہ السلام) اس کی پیشنہاد کے سامنے خاموش ہوگئے، مامون نے اس خاموشی کو آپ کی رضایت سمجھا اور اس کام کے مقدمات کو فراہم کرنے لگا (١) ۔
مامون ایک بہت بڑا جشن کرنا چاہتا تھا لیکن بنی عباس یہ خبر سن کر ناراض ہوگئے اور ان سب نے مل کر اعتراض آمیز لہجہ میں مامون سے کہا : تمہارا یہ کیا پروگرام ہے ؟ ابھی تو علی بن موسی کا انتقال ہوا ہے اور خلافت بنی عباس تک پہنچی ہے لہذا تم پھر دوبارہ خلافت کو آل علی میں واپس کرنا چاہتے ہو ؟ ! یہ جان لو کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیںگے ، کیا تم ہمارے درمیان چند سالہ دشمنی کو بھول گئے ہو ؟
مامون نے پوچھا : تم کیا کہنا چاہتے ہو ؟
انہوں نے کہا : یہ جوان بہت چھوٹا ہے اوراس کے پاس علم وغیرہ نہیں ہے ۔
مامون نے کہا : تم اس خاندان کو نہیں پہچانتے،ان کے چھوٹے اور بڑے سب کے پاس علم و دانش کا سمندر ہے اور اگر تم میری بات قبول نہیں کرتے تو اس کا امتحان کرلو ، جس شخص کو تم پسند کرتے ہو اس کو مناظرہ کے لئے بلالو تاکہ وہ ان سے مناظرہ کرے اور میری بات صحیح ہوجائے ۔ عباسیوں نے علماء میں سے یحیی بن اکثم کو (اس کی علمی شہرت کی وجہ سے) منتخب کیا اور مامون نے امام جواد کے علم کو آزمانے کے لئے ایک مجلس کا انتظام کیا ۔
اس مجلس میں یحیی نے مامون کی طرف رخ کرکے کہا : کیاتم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں اس جوان سے سوال کروں ؟ مامون نے کہا : خود انہی سے اجازت لو ۔ یحیی نے امام جواد سے اجازت لی ۔ امام نے فرمایا : اے یحیی تم جو پوچھنا چاہو پوچھ سکتے ہو ۔
یحیی نے کہا : یہ فرمائیے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
اس سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یحیی حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی علمی بلندی سے بالکل واقف نہ تھا وہ اپنے غرور علم او رجہالت سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ کمسن صاحبزادہ ہیں ، روز مرہ کے روزے ، نماز کے مسائل سے واقف ہوں تو ہوں، لیکن حج وغیرہ کے احکام اور حالت احرام میں جن چیزوں کی ممانعت ہے ان کے کفاروں سے بھلا کہاںواقف ہوں گے !
امام نے اس کے جواب میں اس طرح سوال کے گوشوں کی الگ الگ تحلیل فرمائی جس سے اصل مسئلہ کا جواب دئیے بغیر آپ کے علم کی گہرائیوں کا یحیی اور تمام اہل محفل کو اندازہ ہوگیا ۔ یحیی خود بھی اپنے کو سبک پانے لگا اور تمام مجمع کو بھی اس کا سبک ہونا محسوس ہونے لگا ، آپ نے جواب میں فرمایا : اے یحیی ! تمہارا سوال بالکل مبہم اور مہمل ہے ،سوال کے ذیل میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف، اس نے عمدا اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سے قتل ہوگیا تھا ، وہ شخص آزاد تھا یا غلام، کمسن تھا یا بالغ۔ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس کے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ، شکارپرند کا تھا یا کوئی اور چھوٹا یابڑا جانور تھا وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے ، رات کو پوشیدہ طریقہ پر اس نے اس کا شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طور پر، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا۔ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔
یحیی کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہوتا، بہرحال فقہی مسائل پر کچھ نہ کچھ اس کی نظر تھی ، وہ ان کثیرا لتعداد شقوں کے پیدا کرنے ہی سے خوب سمجھ گیا کہ ان کا مقابلہ میرے لئے آسان نہیں ہے اس کے چہرہ پر ایسی شکستگی کے آثار پیدا ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہ دیتاتھا ۔
مامون نے کہا : میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سوچا تھا وہی ہوا ۔
اس کے بعد اپنے خاندانی افراد کی طرف نظر کی اور کہا : جس بات کو تم نہیں جانتے تھے اب اس کو قبول کرتے ہو ؟! (٢) ۔
پھر جب مذاکرات کے بعد سب لوگ چلے گئے اور صرف خلیفہ کے نزدیکی لوگ باقی رہ گئے تو مامون نے امام جواد (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو استفادہ کا موقع مل سکے ۔
امام علیہ السلام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد "”حل”” میںشکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا ۔ اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوںگے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منی میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہ
یں اور عمدا شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ، ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے ، آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا (٣) ۔
یہ تفصیلات سن کر یحیی ہکّا بکّا رہ گیا اور سارے مجمع سے احسنت احسنت کی آواز بلند ہونے لگی ۔ مامون کو بھی ضد تھی کہ وہ یحیی کی رسوائی کو انتہائی درجہ تک پہنچا دے ، اس نے امام سے عرض کی کہ اگر مناسب معلوم ہو تو آپ بھی یحیی سے کوئی سوال فرمائیں ۔ امام علیہ السلام نے اخلاقاً یحیی سے دریافت کیا کہ کیا میں بھی تم سے کچھ پوچھ سکتا ہوں ، یحیی اب اپنے متعلق کسی دھوکے میں مبتلا نہ تھا ،اس نے کہا : حضور دریافت فرمائیں ، اگر مجھے معلوم ہوگا تو عرض کروں گا ورنہ خود ہی حضور سے معلوم کرلوں گا ، حضرت نے سوال کیا :
اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی ، دن چڑھے حلال ہوگئی ، پھرظہر کے وقت حرام ہوگئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی ، غروب آفتاب پر پھر حرام ہوگئی ، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی ، آدھی رات کو حرام ہوگئی ، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی ، بتائو ایک ہی دن میں اتنی دفعہ وہ عورت اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی ۔
امام علیہ السلام کی معجزہ بیان زبان سے اس سوال کو سن کر قاضی القضاة یحیی بن اکثم مبہوت رہ گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا ، بالآخر انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول (ص) آپ ہی اس کی وضاحت فرمادیں اور مسئلہ کو حل کردیں ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : وہ عورت کسی کی کنیز تھی ،اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی ، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی ، حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے ظہار کیا تو پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دیدیا تو پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دی ، جس سے پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس طلاق سے رجوع کرلیا ،حلال ہوگئی (٥) (٦)۔

حواشی و منابع
١۔ حالت احرام میں محرم کے لئے حج یا عمرہ کے اعمال میں ایک چیز جو حرام ہے وہ شکار ہے ۔ فقہی احکام میں حج کے احکام سب سے زیادہ مشکل اور سخت ہیں ،اس وجہ سے یحیی بن اکثم جیسے افراد کسی کا امتحان لینے کے لئے حج کے مسائل پیش کرتے تھے تاکہ وہ اپنے زعم میں امام کو علمی مشکلات میں دیکھ سکیں ۔
٢۔ مجلسى، بحار الأنوار، الطبعه الثانيه، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1395 ه”.ق، ج 50، ص 75 – 76 – قزوينى، سيد كاظم، الامام الجواد من المهد اًّلى اللحد، الطبعه الأولى، بيروت، مؤسسه البلاغ، 1408 ه”.ق، ص 168 – .172۔ اس واقعہ کا راوی "”ریان بن شبیب”” ہے جو معتصم کا ماموں ہے اور امام رضا اور امام محمد تقی (علیہما السلام) کا صحابی ہے اور موثق محدث ہے ۔ (قزوينى، همان كتاب، ص 168 – شيخ مفيد، الارشاد، قم، مكتبه بصيرتى، ص 319 – 321 – طبرسى، الاحتجاج، نجف، المطبعه المرتضويه، 1350، ص 245 – مسعودى، اثبات الوصيه، نجف، منشورات المطبعه الحيدريه، 1374 ه”.ق، ص 216 – شيخ مفيد، الاختصاص، تصحيح و تعليق: على اكبر الغفّارى،، منشورات جماعه المدرّسين فى الحوزه العلميه – قم المقدسه، ص 99(.۔
٣۔ (3) . مجلسى، وهی كتاب، ص 77 – قزوينى، وهی كتاب، ص 174 – شيخ مفيد، الارشاد، ص 322 – طبرسى، وهی كتاب، ص 246 – مسعودى، وهی كتاب، ص 217 – شيخ مفيد، الاختصاص، ص .100.
٤۔ ظہار کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی سے کہے : میرے لئے تمہاری کمر میری ماں، یا بہن یا بیٹی کی طرح ہے اور اگر ایسا کہے تو پھرظہار کا کفارہ دے تاکہ اس کی بیوی دوبارہ اس پر حلال ہوجائے ۔ اسلام سے پہلے جاہلیت میں ظہار ایک قسم کی طلاق شمار ہوتی تھی اور دونوں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے تھے ،لیکن اسلام میں اس کا حکم بدل گیا اور فقط کفارہ کا سبب بن گیا ۔
٥۔ مجلسى، بحار الأنوار، الطبعه الثانيه، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1395 ه”.ق، ج 50، ص 78 – قزوينى، سيد كاظم، الامام الجواد من المهد اًّلى اللحد، الطبعه الأولى، بيروت، مؤسسه البلاغ، 1408 ه”.ق، ص 175. – شيخ مفيد، الارشاد، قم، مكتبه بصيرتى، ص322 – طبرسى، الاحتجاج، نجف، المطبعه المرتضويه، 1350، ص247.
(6) . گرد آوری از کتاب: سیره پیشوایان، مهدی پیشوائی، ص 544.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button