دفاع حرم مگر کیسے؟
تحریر: سجاد حسین آہیر
آج کل وطن عزیز پاکستان کے معصوم مسلمانوں کی عقیدت اور اسلام دوستی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے حرمین شریفین کے دفاع کی آڑ میں وقت کا طاغوت اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے در پے ہے۔امت مسلمہ کی بد قسمتی ہے کہ امام کعبہ کا تعلق اس مکتب فکر کے ساتھ ہے جو طاغوت کا پیدا کردہ ایک فرقہ ہے۔ امام کعبہ ایک طرف اتحاد اور وحدت کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف یمن کے مظلوم عوام کو کچلنےپر زور دے رہے ہیں جو ان کے مؤقف میں دوگانگی اور تضاد کی واضح اور روشن دلیل ہے ۔ اور یہ تضاد ان کی دینداری کی علامت ہے اس لیے کہ جس دین کے وہ امام ہیں اس میں منافقت اور تکفیریت کے سوا کچھ نہیں ہے اور تکفیریت کا تقاضا یہ ہے کہ افتراق ہو نہ کہ اتحاد۔ اسی لیے وہ کعبۃاللہ کے تقدس کی آڑ میں مسلمانوں کے درمیان نفرت کا بیج بو رہے ہیں اور اتحاد کے سائے میں مسلمانوں میں افتراق پیدا کر کے اپنی امامت کو پختہ کر رہے ہیں ۔فیض احمد فیض کی نظم ’’تین آوازیں‘‘ کے ایک کردار ’’ظالم‘‘ کی صورت میں بیان کیے گئے یہ مطالب آج ہی کی صورت حال کو بیان کرنے کے لیے تھے۔
اب فقیہانِ حرم دستِ صنم چومیں گے
سرو قد، مٹّی کے بونوں کے قدم چومیں گے
اور آج امام کعبہ اپنے تقدس کی عبا کو لہرا لہرا کر پاکستانیوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا رہا ہے ۔ اور ہر شخص سوچ رہا ہے کہ کس طرح ہم ان شعائراللہ کا دفاع کر سکتے ہیں اور ان کی حرمت کو بچا سکتے ہیں ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کعبۃ اللہ کا دفاع تقوی کا متقاضی ہے اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کعبہ کا دفاع متقی افراد کے تقوی نے کیا نہ کہ دین کے لبادے میں کعبہ کو سپر کے طور پر استعمال کر کے اہم مناصب اور مراتب تک پہنچنے کی تگ و دو کرنے والوں نے ۔ ابراہہ کے ہاتھیوں کے سامنے حضرت عبد المطلب علیہ السلام کے تقوی کی طاقت ابابیل کی صورت میں ظاہر ہوئی اور کعبہ کا دفاع ہوا۔ اکسٹھ ہجری میں ایک دفعہ پھر جب کعبہ کی حرمت کو خطرہ پیش آیا تو امام المتقین علیہ السلام کے بیٹے امام حسین علیہ السلام نے اپنا سب کچھ قربان کر کے کعبہ کی حرمت کا دفاع کیا اور فرمایا کہ کعبہ سے ایک بالشت باہر قتل ہونے کو ترجیح دوں گا تا کہ کعبہ کے تقدس کا دفاع کر سکوں ۔کیوں کہ اگر امام علیہ السلام کعبہ کی اوٹ میں بیٹھ جاتے تو ممکن تھا کہ واقعہ کربلا یوں بے دردی کے ساتھ پیش نہ آتا لیکن کعبہ کی توہین ہو جاتی ۔اس کے مقابلے میں اس وقت کی ایک نام نہادمسلم شخصیت عبداللہ ابن زبیرجس کا مطمع نظر اپنا دفاع اور مقام و منصب تک رسائی تھا کعبہ کو اپنی جان کے دفاع کے لیے سپر کے طور پر استعمال کرتی ہے اور اس وقت کا ابرہہ کعبہ کو آگ لگا دیتا ہے۔ اگر یہ کعبہ کی ڈھال میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں مصروف نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ کعبہ کی توہین نہ ہوتی۔
جس طرح کعبہ کی عمارت احترام کی حامل ہے اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ اس کی حرمت اور تقدس کا دفاع ضروری ہے لیکن آج کے مدافع حرمین سے سوال کرنا ہو گا کہ کعبہ کی ہتک حرمت کا سبب آپ بنے یا یمن کے حوثی۔
یمن کے حوثیوں نے اپنے امام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے سب کچھ قربان کر دیا لیکن کعبہ کی طرف ایک گولی تک نہ چلائی لیکن آل سعود نے اپنے امام کی سیرت پر عمل پیرا ہو کر اپنی حکومت اور اقتدار کے تحفظ کی خاطر کعبہ کی حرمت اور تقدس کو پائمال کر دیا۔ جس کی ایک مثال ۶ ذی الحج ۱۴۰۷ ہجری کے سیاہ جمعہ کو شاہ فھد کے حکم پر ہزاروں حاجیوں کو حرم میں قتل کر کے حرمین کی حرمت کا پائمال کرنا ہے۔
حرمین کو خطرہ ان سے ہے جن کا دینی فریضہ یہ ہے کہ کوئی حرم اور حرمت باقی نہ رہے مختلف ادوار میں حرم کی حرمت کو خطرات پیدا ہوتے رہے اور اس مذہب کے پیروکار حرموں کی بے حرمتی کر کے اپنے مذہبی وظیفے کو انجام دیتے رہے اور اگر پاکستان اور مصر کی غیرت مند قوم نہ ہوتی تو ان نام نہاد مدافع حرمین کے آباء و اجداد کے ہاتھوں حرمین بھی جنت البقیع کا سماں پیش کر رہے ہوتے۔
آل سعود کا اپنی شہنشاہیت کی بقاء کے لیے حرمین شریفین کے خطرہ کو آلے کے طور پر پیش کرنا ان کی سیاسی بے شعوری کی علامت ہے کیوں کہ یہ خود ایک دلیل بن رہی ہے کہ آل سعود جہاں حرمین کی حرمت کو خود پائمال کرتے رہے ہیں وہاں اس مقام اور عمارت کی بھی حفاظت کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ پس امت مسلمہ کو ان مقدسات اسلامی کے تحفظ کے لیے فکر کرنی چاہیے اور جو اس کا اہل ہو اس کو تولیت دینی چاہیے۔
کعبہ کا دفاع وہ کر سکتا ہے جو اس کے تقدس کا قائل ہو اور اس کے دفاع کی خاطر اپنی جان مال عزت اور ناموس سب کچھ قربان کر سکتا ہو ۔جبکہ سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبد العزیز کے بھائی امیر طلال بن عبد العزیز نے جرمن ٹی وی چینل سے گفتگو میں یمن پر سعودی جارحیت کے سلسلے میں بتایاکہ یمن پر بمباری کرنے والے جنگی طیاروں کے پائلٹ غیر ملکی ہیں جو سعودی عرب کے مزدور ہیں۔ ان مزدور پائلٹوں کا تعلق ،ہندوستان، فرانس، امریکہ جیسےدیار کفرسے ہے جو ایک اڑان کے بدلے میں ۷۵۰۰ ڈالر مزدوری لیتے ہیں۔
کعبہ کا دفاع صرف وفا دار کر سکتے ہیں نہ کہ خائن جبکہ سعودی بادشاہ کے بھائی نے کہاکہ سعودی عرب کے اتحادیوں نے یمن میں ہمارے ساتھ خیانت کی ہے ۔ اسی طرح شعائراللہ کا دفاع شجاعت سے ہو سکتا ہے نہ کہ بزدلی سے۔امیر طلال نے سعودی عرب کے فوجی کمانڈروں کے بارے کہا کہ سعودی عرب کے فوجی کمانڈر زمینی جنگ میں د
اخل ہونے سے ڈرتے ہیں حتی سعودی عرب کے بعض سپاہیوں نے جب یہ سنا کہ اس کے اتحادی یمن کی جنگ میں ان کا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ نوکری چھوڑ کر بھاگ گئے۔
اس کا حل پیش کرتے ہوئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ حرمین شریفین کی مدیریت اور منیجمنٹ، اسلامی دنیا کے بڑے بڑے متقی،علما ءاور عظیم شخصیتوں کی ایک شوری کو کرنی چاہیے، اور ان جرائم پیشہ افراد کو برکنار کردینا چاہیے۔ کیوں کہ قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں سرزمین وحی اور بیت اللہ الحرام کے متولی آل سعود جیسے عیاش لوگ نہیں بلکہ متقی اور پرہیزگار لوگ ہونے چاہیں ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے «إِنْ أَوْلِياؤُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ» کعبہ کا متولی متقی ہونا چاہیے۔