مضامین

آل سعود، زوال کی جانب گامزن

تحریر: علی اکبری

جب اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے انتہائی تکبر اور بڑے بڑے دعووں کے ساتھ 360 مربع کلومیٹر پر مشتمل غزہ کی پٹی پر فوجی حملوں کا آغاز کیا تو اس کا تصور یہ تھا کہ وہ فیصلہ کن فتح کے ذریعے اپنی طاقت کا لوہا منوا لے گی اور فلسطینیوں کی مزاحمت کو کچل کر رکھ دے گی لیکن جب اپنی تمام تر کوششوں اور جارحانہ اقدامات کے باوجود اسے شکست اور ذلت کے علاوہ کچھ نصیب نہ ہوا تو اسے اپنے بقول عزت مند انداز میں غزہ سے عقب نشینی اور ابتدائی مقاصد کے حصول کے دعووں کے ساتھ فوجی جارحیت کے خاتمے کے علاوہ کوئی راستہ نہ ملا۔ کون ہے جو اس حقیقت سے بے خبر ہو کہ غزہ کے خلاف فوجی جارحیت میں اسرائیل نہ فقط اپنے مطلوبہ سیاسی اور فوجی اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا بلکہ اسلامی مزاحمتی گروہ پہلے سے بھی زیادہ منظم، مضبوط اور طاقتور ہو کر سامنے آئے اور اس وقت مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینیوں کا مسلح ہو جانے کے ڈراونے خواب نے غاصب صہیونی رژیم کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

     
بالکل ایسی ہی صورتحال یمن کے خلاف حالیہ سعودی فوجی جارحیت میں بھی قابل مشاہدہ ہے۔ ایسی رژیم سے جنون آمیز رویوں کے علاوہ کس چیز کی توقع رکھی جا سکتی ہے جو اپنے علاقائی اہداف و مقاصد کے حصول میں ناکامی کا شکار ہو چکی ہے اور روز بروز گوشہ گیری کا شکار ہو کر ماضی کی نسبت زیادہ کمزور ہوتی جا رہی ہے اور خطے کے ممالک میں اس کے مورچے اور حامی قوتیں یکے بعد از دیگرے ختم ہوتے جا رہے ہیں اور لبنان، عراق، شام، بحرین وغیرہ جیسے ممالک میں اپنے سیاسی اہداف حاصل نہیں کر پائی اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت، بدعت آمیز فتووں اور توہین آمیز اقدامات کے ذریعے تمام بین الاقوامی اور انسانی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے باوجود ناکامی اور ذلت کے سوا اسے کچھ نصیب نہیں ہو سکا۔ اپنے خیال میں فتح کی آرزوئیں پالنے والے آل سعود کے چند احمق اور ناتجربہ کار جوانوں نے بعض ایسی نامعقول وجوہات کی بنا پر جنہیں سن کر ہر عاقل شخص حیرت اور مزاح کا شکار ہو جاتا ہے، یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کر دیا۔ ایک ایسی آمرانہ رژیم، جو حتی اپنے شہریوں کے حقوق کیلئے ذرہ بھر اہمیت کی قائل نہیں اور جاہلانہ دور کی حکومتوں سے مشابہت رکھتی ہے، جہاں خواتین ووٹ دینے جیسے بنیادی ترین حق سے محروم ہیں اور اس نے جمہوریت کی بو تک نہیں سونگھی، نے یمنی عوام کے حقوق کے دفاع کے بہانے اور ایسے نام نہاد سابق صدر کی درخواست پر جس نے ملک کو ترک کرنے سے پہلے ہی استعفی دے دیا تھا اور عملی طور پر یمن کے سیاسی نظام میں اسے کوئی حیثیت حاصل نہیں، ایک ایسے متمدن اور مہذب ملک پر دھاوا بول دیا جو عالمی استکباری قوتوں سے آزادی اور اپنی خودمختاری کے علاوہ کسی اور چیز کے خواہاں نہیں۔ آل سعود رژیم نے یمن کے خلاف حملے میں تمام انسانی اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بے گناہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کا قتل عام کیا اور یمن کے انفرااسٹرکچر کو نابود کر دیا۔ ایک مہینے کی وحشیانہ بمباری اور بربریت کے بعد جب دیکھا کہ اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتا تو جنگ بندی کا ڈرامہ رچایا اور خود کو اس دلدل سے نجات دلانے کی کوشش کی۔

 
آل سعود حکومت کا دعوی ہے کہ چونکہ اس کے تمام مطلوبہ اہداف حاصل ہو چکے ہیں لہذا فیصلہ کن طوفان نامی فوجی آپریشن کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ کون عقل مند شخص اس دعوے کو ماننے پر تیار ہے؟ یہ جنگ بندی جو زیادہ پائدار بھی نہیں اور سعودی حکومت پر جنگ بندی کا پابند رہنے سے متعلق اعتماد بھی نہیں کیا جا سکتا، آل سعود رژیم کی نابودی کا مقدمہ ثابت ہو گی۔ وہ رژیم جو خبیث برطانوی استعمار کی سازشوں اور ناپاک منصوبوں کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں معرض وجود میں آئی اور اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی اسلام اور مسلمین کے خلاف فتنہ انگیزی کرنے لگی اور اب تک اس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کوئی کام انجام نہیں دیا۔ وہ رژیم جسے امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے "خائن الحرمین” کا لقب دیا اور امام خامنہ ای کے بقول اس نے اسلام اور انسانیت کی بو تک نہیں سونگھی۔ آل سعود رژیم چند جھوٹے دعووں کے ذریعے خود کو اپنے ظالمانہ اقدامات کے منحوس نتائج سے نہیں بچا سکتی لہذا اسے مشکل وقت کیلئے تیار ہو جانا چاہئے۔ خطے میں سعودی حکومت کے مجرمانہ اور ظالمانہ اقدامات کے منفی اور منحوس اثرات میں سے بعض درج ذیل صورت میں واضح کئے گئے ہیں:

 
1)۔ آل سعود رژیم یمن کے خلاف فوجی جارحیت کے بہانے ایک عربی – اسلامی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام رہی اور تاریخ میں پہلی بار اس کے ہمیشگی اتحادی بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ پاکستان، مصر، بعض خلیجی عرب ریاستوں اور حتی بعض ایسی افریقی حکومتوں کی جانب سے سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والے اتحاد میں شرکت سے امتناع کرنا جو سعودی حمایت سے برسراقتدار ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں بھی سعودی عرب کوئی بڑا علاقائی اتحاد بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا۔

 
2)۔ یمن کے مسئلے میں قوموں کے مضبوط ارادوں کے مقابلے میں مادی طاقت کا کھوکھلا اور بے فائدہ ہونا ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ اپنی مغربی اسلحہ و فوجی ساز و سامان سے لیس کرائے کے عربی اور غیرعربی فوجیوں پر مشتمل فوج پر ناز کیا کرتا تھا اور اسلحہ خریدنے کیلئے بھاری بجٹ خرچ کرتا ت
ھا جس کے باعث یہ فوج سعودی عرب کی طاقت کا سرچشمہ تصور کی جاتی تھی۔ لیکن یہی فوج گذشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے ایک ایسے ملک کے خلاف برسرپیکار ہے جو زمین اور سمندر سے محاصرے کا شکار ہے اور اس عرصے میں بے گناہ بچوں، خواتین اور بوڑھوں پر بم برسانے اور ان کا خون بہانے کے علاوہ اسے کوئی کامیابی نصیب نہیں ہو سکی۔ سعودی فوج میں اتنی جرات اور ہمت نہ تھی کہ وہ اپنے اتحادی ممالک کی جانب سے انکار کے بعد یمن کے خلاف زمینی کاروائی کا آغاز کر سکے۔

 
3)۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور گروہ یمن میں سعودی عرب کے مجرمانہ اور غیرانسانی اقدامات پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور عالمی رائے عامہ کا دباو بین الاقوامی اداروں کو اس بارے میں تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دینے پر مجبور کر دے گا۔ لہذا بے گناہ یمنی عوام کے خلاف جنگی جرائم کا مرتکب ہونے والے سعودی حکام کو عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی اداروں کے سامنے جوابدہی کیلئے تیار ہو جانا چاہئے۔

 
4)۔ اسلامی دنیا کی رائے عامہ جو سعودی عرب پر ہر طرح کی تنقید کے باوجود اسے ایک اسلامی عرب ملک، خانہ کعبہ کی چابی کے مالک اور خادم الحرمین کے طور پر جانتی تھی، آج اس کے اصلی چہرے سے آشنا ہو چکی ہے۔ سعودی رژیم جس نے اپنے عربی ہونے کے احترام کا خیال بھی نہ رکھا اور ایک عرب ملک پر حملہ ور ہو کر کویت پر صدام حسین کی جارحیت کی یادیں تازہ کر دیں اور اپنے اسلامی ہونے کا لحاظ بھی نہ رکھا۔ سعودی حکومت کی بربریت اس کی متانت اور وقار پر غالب آ گئی اور اس نے اپنا حقیقی چہرہ آشکار کر ڈالا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آل سعود رژیم ماضی کا بظاہر خوبصورت چہرہ اب کبھی بھی دوبارہ بحال نہ کر پائے گا۔ سعودی حکومت کے بعض مخالفین، شدید ترین اختلافات کے باوجود ہمیشہ اس کوشش میں مصروف رہتے تھے کہ اپنی مخالفت کا کھل کر اظہار نہ کریں اور سعودی سربراہان مملکت کو براہ راست تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ لیکن اب جب سعودی حکومت نے یمن کے مظلوم عوام کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا تو انہوں نے تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سعودی حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ان میں حزب اللہ لبنان اور اسلامی جمہوریہ ایران کا نام سرفہرست ہے۔ اسلامی دنیا کی رائے عامہ پر حزب اللہ لبنان اور اسلامی جمہوریہ ایران کا اثرورسوخ ناقابل انکار امر ہے۔

 
تحریر حاضر میں بیان ہونے والے مطالب یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے منفی نتائج اور اثرات کا چھوٹا سا حصہ ہیں اور یقینا ان منفی اثرات کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اگر اسرائیل کی صہیونی رژیم مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف فوجی طاقت کے بے جا استعمال کے ذریعے اپنی قومی سلامتی کو بہتر کرنے اور خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں کامیاب ہو سکی ہے تو پھر سعودی حکومت بھی ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے یمن پر آل سعود رژیم کی فوجی جارحیت درحقیقت اس کے زوال اور خاتمے کا آغاز ہے۔ ایسی رژیم جس کی بنیاد ظلم، جہالت اور مجرمانہ اقدامات پر استوار ہے اور اسی کے ذریعے باقی رہی ہے لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ کوئی بھی حکومت ظالم کی بنیا پر باقی نہیں رہ سکتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button