سعودی عرب میں شیعوں کی مسجد پر دہشت گردانہ حملے کے پہلووں کا جائزہ
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبررساں ادارہ) اس کے باوجود کہ داعش نے قطیف میں شیعوں کی مسجد پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ،اس سلسلے میں سعودی عرب کی جاسوسی اور سراغرساں اداروں کا ہاتھ ہونا چند دلیلوں کی بنا پر نا قابل انکار ہے ۔
عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق کہ جو عربی تحلیلی خبری مرکز” الوقت” سے منقول ہے۲۲ مئی ۲۰۱۵ قطیف کے شیعہ نشین صوبے کے شہر القدیح کی مسجد امام علی میں کہ جو سعودی عرب کے مشرق میں ہے نماز جمعہ کے دوران پاکستانی لباس پہنے ایک دہشت گرد نے مسجد میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں دسیوں افراد شہید اور زخمی ہو گئے یہ دہشت گردانہ کاروائی کہ سعودی حکام کے بقول جس کو دولت اسلامی عراق و شامات( داعش) کے دہشت گردوں نے انجام دیا ہے یہ سلسلہ وار قتل و خونریزی کا ایک حصہ ہے کہ جو بحرین سے شروع ہو کر عراق اور یمن تک پہنچا ہے اور آخر کار مشرقی علاے کے شیعوں کو اس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہے ،یہ پہلی بار نہیں ہے کہ دہشت گرد تنظیموں نے مسجد کو نشانہ بنایا ہے اور نہ یہ آخری بار ہے اس لیے کہ وہ قطیف اور سعودی عرب کے دوسرے علاقوں میں شیعوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات کرنے کے سلسلے میں آزاد ہیں ،اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ سعودی عرب کے تیل پیدا کرنے والے اس علاقے کے بے گناہ شہری ایک منظم سازش کے تحت نشانہ بنائے جا رہے ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان خونی حملوں کے پیچھے کون سے افراد یا تنظیمیں ہیں ؟
اس کے باوجود کہ داعش نے قطیف میں شیعوں کی مسجد پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ،اس سلسلے میں سعودی عرب کی سراغرساں اداروں کا ہاتھ ہونا چند دلیلوں کی بنا پر نا قابل انکار ہے ،پہلی دلیل یہ ہے کہ سعودی حکمران ہمیشہ تاکید کرتے رہے ہیں کہ سعودی عرب میں تمام امور پر اس کے سراغرساں اداروں کی نظر ہے ،اور اس چیز کے پیش نظر کہ سعودی حکام اس علاقے کے شیعوں کو کچلنے کے اقدامات کرتے رہے ہیں ،الشرقیہ کا علاقہ حفاظتی اور جاسوسی اداروں کے افراد سے بھرا ہوا ہے ۔
سبھی اس امر کو جانتے ہیں کہ سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں آئے دن شیعوں کی طرف سے اعتراضات ہوتے رہتے ہیں ،اور اس علاقے کے بڑی تعداد میں شیعہ گولیوں کا نشانہ بھی بن کر جام شہادت پی چکے ہیں اور بہت سارے روشن فکر سیاسی افراد اور ماہرین حقوق جو اس علاقے سے ہیں جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں ،اور کسی بھی صورت میں اس علاقے کے لوگوں کو نشانہ بنا نا پہلی فرصت میں اس بات کا غماز ہے کہ سعودی حکومت اس علاقے کے شیعوں کو بھاری ضرب لگانے اور کچلنے کے در پے ہے ۔
ایک خود کش کا بھاری مقدار میں ہتھیار اٹھانا اور قطیف کے عوامی مقامات اور اس کی سڑکوں پر چلنا سوال پیدا کرتا ہے کہ کس طرح دہشت گرد تنظیمیں سعودی عرب کے مشرق کی سڑکوں پر جو سراغرساں اداروں کے افراد ،قومی گارڈ اور فوجوں سے بھری رہتی ہیں اور جگہ جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں ،ایسے اقدامات کر گذرتے ہیں ۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حفاظتی فوجیں ان تنظیموں کے اقدامات سے ایک طرح سے چشم پوشی کر کے انہیں شیعوں کےخلاف اس طرح کی کاروائیاں کرنے کی اجازت دیتی ہیں ۔
حقیقت میں یہ کہنا چاہیے کہ سعودی عرب کے سراغرساں ادارے اور حکومت آل سعود کو سب سے زیادہ اس دھماکے کا فائدہ ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی حکومت شیعوں کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاو کرتی ہے اور شیعوں کو سزا کا حقدار مانتی ہے اس بنیاد پر بعض سزائیں سعودی حکومت اور کچھ سزائیں دہشت گرد تنظیمیں شیعوں کو دیتے ہیں ،اس سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو سعودی جاسوسی اداروں کی جانب سے حکم ملتا ہے ایسی کاروائیاں کر نے کا ۔
اس نکتے کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ سعودی عرب کے تکفیری دہشت گرد تنظیموں کو داعش اور وہابیوں کے رہنماوں کی جانب سے پوری مدد ملتی ہے اس بنا پر دہشت گرد تنظیمیں اور وہابیت کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ،اور سعودیوں کے سراغرساں ادارے شمالی افریقہ سے لے کر مشرقی ایشیاء کے ملکوں تک دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتی ہے اور دنیا بھر کے ملکوںمیں ان دہشت گردانہ اقدامات کا مقصد اسلامی اور عربی علاقے میں امریکہ اور اسرائیل کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ہے ۔
شام عراق ، لبنان اور اب مشرقی سعودی عرب میں قتل عام اس چیز کا واضح نمونہ ہے جس کی جانب ہم نے اشارہ کیا ہے ،کہ یہاں دہشت گرد تنظیمں امریکہ اور صہیونیوں کی حمایت سے بے گناہ شہریوں کو قتل کرتے ہیں ۔
دہشت گردی کی حمایت میں سعودیہ کا کردار ایسی چیز ہے جس نے مغربی سوسائٹی کو بھی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے ،یہاں تک مغربی ذرائع ابلاغ کے روزناموں نے اس امر کا اعتراف کیا ہے اور مغرب کی حکومتوں اور امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آل سعود کے ساتھ تعاون کو ختم کریں ۔ان مغربی ممالک میں ذرائع ابلاغ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہابیوں کے انتہا پسند گروہ کہ آل سعود اور اس ملک کے سراغرساں ادارے ان کی رہنمائی کرتی ہیں ،وہ علاقے اور دنیا میں دہشت گردی کوفکری غذا فراہم کرتے ہیں۔
سعودی حکام کا مقاومتی تحریکوں سے کینہ اور بغض اور ان تحریکوں کو پیشقدمی سے روکنا کہ جو اسرائیل کے مقابلے پر ہیں ،اس چیز نے بعض سعودی حکام کو علاقے میں محور مقاومت کا مقابلہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کی فوج تشکیل دینے پر مجبور کیا
ہے ،تا کہ وہ آل سعود اور اسرائیل کے علاقے میں جو حلیف ملک ہیں ان کی نیابت میں علاقے میں جنگ کے شعلے بھڑکائیں ،اور قطیف میں شیعوں کا شہید ہو نا اسی خطر ناک سازش کے حصے کے طور قابل اشارہ ہے ۔