مضامین

گلگت بلستان الیکشن میں نواز شریف کی خفیہ دھاندلی پر وسعت اللہ خان کا اہم آرٹیکل

اگرچہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے جغرافیائی حجم میں ایک اور آٹھ کا فرق ہے اور متنازعہ ہونے کے سبب دونوں علاقے پاکستان کے آئینی وفاق کا تکنیکی اعتبار سے باضابطہ حصہ نہیں بن سکتے لیکن یکساں متنازعہ حیثیت ہونے کے باوجود کشمیر اور گلگت بلتستان سے ایک جیسا آئینی ،قانونی ، انتظامی و سیاسی برتاؤ جانے کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا۔

مثلاً پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جسے صدر کہا جاتا ہے اسے گلگت بلتستان میں گورنر کہتے ہیں۔ جسے کشمیر میں وزیرِ اعظم کہتے ہیں اسے گلگت بلتستان میں وزیرِ اعلی سمجھتے ہیں۔ کشمیر کے صدر کا ایلکٹورل کالج آزاد کشمیر لیجسلیٹو اسمبلی اور کشمیر کونسل پر مشتمل ہے جبکہ گلگت بلتستان کا گورنر براہِ راست صدرِ پاکستان نامزد کرتا ہے۔

آزاد کشمیر کا اپنی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہے اور گلگت بلتستان میں چیف کورٹ اور سپریم اپیلٹ کورٹ ہے ۔کشمیر ہو کہ گلگت بلتستان دونوں جگہ اعلی ججوں کی تقرری علی الترتیب کشمیر کونسل اور گلگت بلتستان کونسل کرتی ہے۔دونوں کونسلوں کا سربراہ وزیرِ اعظم پاکستان ہے۔مگر فرق یہ ہے کہ کشمیر کونسل کا وائس چیرمین منتخب وزیرِ اعظم کشمیر لیکن گلگت بلتستان کونسل کا وائس چیرمین بھی مرکز کا نامزد گورنر ہوتا ہے۔چنانچہ کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں اعلی ججوں کی تقرری میں مقامی حکومت کا مشورہ شامل نہیں ہوتا۔ کشمیر کا اپنا سرکاری جھنڈا ہے مگر گلگت بلتستان میں جھنڈے والی سرکار نہیں ہوتی۔

آزاد کشمیر کی مجلسِ قانون ساز میں ان کشمیری باشندوں کے لئے بھی بارہ نشستیں مختص ہیں جو پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں حتی کہ ایک نشست سمندر پار کشمیریوں کی بھی ہے لیکن گلگت بلتستان لیجسلیٹو اسمبلی میں بیرونِ علاقہ آباد مقامی باشندوں کے بارے میں سیلف گورننس آرڈیننس خاموش ہے ۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر ہو کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر ۔دونوں جگہ ڈوگرہ ریاست کے زمانے کا سٹیٹ سبجیکٹ قانون نافذ ہے جس کے تحت کوئی غیر کشمیری اس علاقے میں اپنے نام پر املاک نہیں رکھ سکتا۔مگر گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ قانون انیس سو ستر میں ختم ہوگیا جب اسے ناردرن ایریاز کا نام دے کر ایک علیحدہ انتظامی یونٹ بنا دیا گیا۔لہذا وہاں تکنیکی اعتبار سے غیر مقامی املاک کی خرید فروخت کا حق رکھتے ہیں۔

کشمیر میں طویل عرصے تک مقامی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس نے بلا شرکتِ غیرے حکومت کی ۔لیکن گلگت بلتستان میں مقامی قیادت اچھی خاصی شرح خواندگی اور شعور کے باوجود کبھی بھی اتنی موثر نہ ہو سکی کہ انتخابی عمل پر اثر انداز ہوسکے۔اس وقت یہاں تیرہ مذہبی و سیاسی جماعتیں متحرک ہیں ۔ صرف تین سیاسی تنظیموں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کا خمیر مقامی قوم پرست سیاست سے اٹھا ہے۔اور ان میں سے بھی صرف ایک جماعت یعنی بلورستان نیشنل فرنٹ کی سابق اسمبلی میں ایک نشست تھی ۔کشمیر ہو کہ گلگت بلتستان ۔یہ تاثر دونوں جگہ راسخ ہے کہ انتخابی سیاست سے قطع نظر جس پئا کی اسلام آباد میں حکومت ہوگی اسی کی کوئی چہیتی سہاگن کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی حکومت کرے گی۔مگر زمانہ شائد بدل رہا ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ آیا پاکستان کی مرکزی حکومت اپنے ہی نافذ کردہ گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈیننس پر باعمل یقین رکھتی ہے ؟ چلئے گورنر کے عہدے کو ہی لے لیتے ہیں۔آئینِ پاکستان کے جس آرٹیکل دو سو اٹھاون کے تحت سیلف گورنننس آرڈیننس جاری ہوا اسی پاکستانی آئین کے آرٹیکل ایک سو ایک کے تحت صوبائی گورنر کی بھی وہی اہلیت ہے جو رکنِ پارلمیان کے لئے مقرر ہے۔گورنر اسی صوبے کا رہائشی اور ووٹر ہونا چاہئے۔ سیلف گورننس آرڈیننس میں بھی درج ہے کہ پہلے باقاعدہ گورنر کی تقرری تک وزیرِ امور کشمیر و گلگت بلتستان ہی گورنر کے فرائض انجام دے گا۔گویا یہ ایک عارضی انتظام تھا۔لیکن ہوا کیا ؟ پہلے گورنر قمر زمان کائرہ کے بعد چوہدری برجیس طاہر کے پاس بھی وفاقی وزارت اور گورنری ایک ساتھ ہے۔ اس اقدام کو قانونی ٹوپی پہنانے کے لئے چوہدری صاحب کی بطور گورنر تقرری سے دو روز قبل ( بارہ فروری ) صدر ممنون حسین نے گورننس آرڈیننس کی شق بیس میں یہ ترمیم کردی کہ وزیرِ امورِ کشمیر و گلگت بلتستان بلحاظ ِ عہدہ گورنر بھی رہےگا۔چلئے یہاں تک بھی ٹھیک ہے ۔لیکن پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ایک سو تین اور سیلف گورننس آرڈیننس کے آرٹیکل آٹھ اور نو کا کیا کریں جن میں واضح طور پر درج ہے کہ کوئی شخص بحیثیت گورنر کوئی دوسرا منفعت بخش عہدہ یا مرتبہ نہیں رکھ سکتا اور اگر کوئی رکنِ اسمبلی گورنر بنتا ہے تو اس کی اسمبلی نشست خالی تصور ہو گی ۔

مگر عملی تصویر یوں ہے کہ عزت مآب چوہدری برجیس طاہر کے پاس وفاقی وزارت اور گورنری سمیت نہ صرف دو تنخواہ دار عہدے ہیں بلکہ وہ بطور رکنِ قومی اسمبلی بھی تمام مالی مراعات کے حقدار بنے ہوئے ہیں ۔کر لو جو کرنا ہے۔ کوئی بتائے گا کہ نگراں وزیرِ اعلی شیر جان صاحب نے قراقرم کوآپریٹو بینک کا منفعت بخش عہدہ چھوڑا کہ نہیں ؟

کشمیر ہو کہ گلگت بلتستان ۔عملاً اصل قوت وفاقی کنٹرول والی طاقتور کشمیر کونسل و گلگت بلتستان کونسل ، وفاقی وزارتِ کشمیر و گلگت بلتستان اور متنازعہ حساس سرحدی علاقہ ہونے کے سبب اتنے ہی حساس اداروں کے درمیان کہیں گھوم رہی ہے ۔اس اختیاراتی میوزیکل چئیر گیم کے
بیچوں بیچ علاقے کے عوام ہیں۔لہذا شغل میلے کے طور پر انتخابی مشق میں نہ تو کوئی حرج ہے اور نہ ہی کسی کو اعتراض۔ووٹر جہاں جیسے رہیں خوش رہیں۔

سنا ہے زوالفقار علی بھٹو ، ضیا الحق اور آصف زرداری کے بعد اب نواز شریف نے بھی گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور بااختیاری کا مسئلہ مقامی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لئے جزوقتی وزیرِ خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں کوئی جائزہ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔۔۔

ہائے وہ رقاصہ کہ جس کے ہر ہر ٹھمکے پر نواب صاحب فدا ہوتے رہے اور رقاصہ کو نولکھا ہار ، حویلی اور ٹم ٹم دینے کا وعدہ کرکے اپنا دیوانہ بنا لیا۔علی الصبح رقاصہ نواب صاحب کو وعدہ یاد دلانے سازندوں کے ہمراہ ڈیوڑھی تک پہنچی تو نواب صاحب نے حیرانی سے پوچھا وعدہ ؟ کیسا وعدہ ؟ ارے بھئی تم نے ہمارا دل خوش کیا تو ہم نے بھی تمہارا دل خوش کردیا ۔حساب برابر۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button