مضامین

پشاور، اہل تشیع کی قتل گاہ اور تکفیری جماعت کا گڑھ۔؟

رپورٹ: محمد سعید خان

پشاور میں عرصہ دراز سے اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ اور مذہبی مقامات پر بم دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے اور دہشتگردی کی مختلف کارروائیوں میں اب تک سو سے زائد شیعہ شہری نشانہ بن چکے ہیں، پھولوں کا شہر کہلائے جانے والا شہر پشاور آج اہل تشیع شہریوں کیلئے قتل گاہ میں تبدیل ہوچکا ہے، دہشتگردی کی آخری بڑی کارروائی رواں سال فروری میں امامیہ مسجد حیات آباد میں ہوئی تھی، جبکہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے، گذشتہ ہفتہ معروف ڈاکٹر علی احمد جان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، جس میں وہ اپنے ایک بیٹے سمیت زخمی ہوئے جبکہ ان کا ایک بیٹا اور ایک چوکیدار شہید ہوگیا۔ واضح رہے کہ پشاور میں ٹارگٹ کلرز نے شیعہ ڈاکٹرز اور وکلاء سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو نشانہ بنایا۔

پشاور میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر اب تک صوبائی حکومت اور پشاور کی انتظامیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا، شہر میں امن قائم کرنے کی بجائے کالعدم فرقہ پرست جماعت اہلسنت والجماعت (کالعدم سپاہ صحابہ) کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے، کالعدم فرقہ پرست جماعت گذشتہ تین سال سے انتہائی منظم ہوتی نظر آرہی ہے، آئے روز مرکزی رہنماوں کو پشاور کے دورے کرائے جاتے ہیں، جلسے، جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، گلی گلی پوسٹرز، بینرز، وال چاکنگ اور جھنڈے آویزاں ہیں، مختلف مواقع پر تکفیری نعرہ بازی کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ قومی ایکشن پلان کے مطابق کالعدم جماعتوں کی فعالیت کو روکنے، ان کیخلاف کارروائیاں کرنے اور سرگرمیاں محدود کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، تاہم پشاور میں اس پلان پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔

پشاور میں کالعدم جماعت اس قدر منظم ہوتی نظر آرہی ہے، کہ جلد پشاور جھنگ اور ڈی آئی خان کا منظر پیش کرسکتا ہے، پاکستان تحریک انصاف ایک لبرل جماعت کے طور پر اپنے آپ کو متعارف کرانا چاہتی ہے، تاہم اس دور حکومت میں کالعدم جماعت کو اپنی سرگرمیوں کی انجام دہی میں کافی آسانی نظر آرہی ہے، وزیراعلٰی پرویز خٹک صاحب دو سے زائد بار کالعدم جماعت کے رہنماوں کو ملاقات کا شرف بخش چکے ہیں۔ کالعدم فرقہ پرست جماعت کیساتھ پی ٹی آئی کے رہنماوں کا یہ رویہ یقیناً اس جماعت کی اپنی ساکھ کو متاثر کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ رواں سال کالعدم جماعت کے رہنماء اور ٹارگٹ کلنگ کے ملزم ظاہر شاہ کی رہائش گاہ سے انتہائی خطرناک دہشتگرد برآمد ہوئے تھے، اور پولیس کے چھاپے کے دوران اہلکاروں پر فائرنگ بھی کی گئی تھی۔

پشاور میں کالعدم جماعت کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر پشاور کے شہریوں میں عرصہ دراز سے پائی جانے والی مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی سبوتاژ ہونے کا خدشہ ہے۔ ذرائع نے ”اسلام ٹائمز” کو بتایا ہے کہ پشاور کے بعض علاقوں میں یہ کالعدم جماعت اپنے فنڈ سے بعض مجبور افراد کو روزگار کا بندوبست کرکے دیتی ہے، اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے لئے بھی استعمال کرتی ہے، پشاور شہر کے علاقہ زگرآباد میں روٹیوں کی ایک دکان (تندور) سے صرف کالعدم فرقہ پرست جماعت کے کارکنوں کو مفت روٹیاں دی جاتی ہیں، اس کے علاوہ پشاور کا مضافاتی علاقہ متنی بھی کالعدم جماعت کے زیر اثر ہے، جہاں پولیس اور فورسز کو متعدد بار دہشتگردی کا نشانہ بنایا جاچکا ہے، تاہم حکومت کی جانب سے کالعدم جماعت کیخلاف کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر نظر آتا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ جہاں ایک طرف پشاور اہل تشیع کیلئے قتل گاہ بن چکا ہے، وہاں دوسری جانب یہ شہر کالعدم فرقہ پرست جماعت کا ایک مضبوط گڑھ بنتا جا رہا ہے، تو غلط نہ ہوگا، اگر صوبائی حکومت نے اس حوالے سے فوری طور پر اقدامات نہ کئے تو دہشتگردی کا نشانہ بننے والی مظلوم ملت تشیع کی جانب سے ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے اور دوسری طرف کالعدم جماعت کی سرگرمیوں کی وجہ سے شہر کا امن مزید خراب ہوسکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت اسلامی کی قیادت کوا س حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، پشاور میں موجود شیعہ حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنی آواز کو موثر بنانا ہوگا، بصورت دیگر حالات مزید خرابی کی طرف جاسکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button