داعش کے ہاتھوں قاتلوں کی نئی نسل تیار، جرمن خبر رساں ادارہ
عراق اور شام میں دہشتگرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی کارروائیوں کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار کَیرسٹن کنِپ کے مطابق اس دوران جہادیوں کی ایک ایسی نسل تیار ہو چکی ہے، جو اور بھی زیادہ سفاک اور پرتشدد ہو سکتی ہے۔
ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار کَیرسٹن کنِپ اپنے تبصرے میں لکھتی ہیں کہ اگر بچوں کو مستقبل کے معمار کہا جاتا ہے تو عراق اور شام کا مستقبل تاریک ہو گا۔ ان کے بقول آئی ایس کی جانب سے یتیم خانوں اور دیگر مقامات سے بچوں کے اغوا کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ بعد ازاں ان بچوں کو دہشت گردی کے تربیتی مراکز میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ وہاں ننھے ذہنوں کو شدت پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہتھیار چلانا سکھایا جاتا ہے۔ کنِپ مزید لکھتی ہیں کہ ان مراکز میں موجود ’اساتذہ‘ ان بچوں کو نفسیاتی طور پر بے رحم اور ظالم بنانے پر توجہ دیتے ہیں۔ اس دوران پہلے انہیں دکھایا جاتا ہے کہ کسی کو قتل کس طرح کیا جاتا ہے اور پھر انہی سے یہ کام کرایا بھی جاتا ہے۔
ڈوئچے ویلے کی اس خاتون تبصرہ نگار کے مطابق ان بچوں کو اغوا کرنا اور ان کی نفسیات کو تباہ کرنا واضح کر دیتا ہے کہ دولت اسلامیہ میں کس طرح کے لوگ شامل ہیں۔ یہ انسانیت کو پیروں تلے روندنے والوں کی ایک ایسی جماعت ہے، جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی طرح کے ظالمانہ حربے استعمال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی۔
کَیرسٹن کنِپ لکھتی ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی ہمت اور حوصلے کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں۔ ایسی رپورٹیں بھی ہیں، جن کے مطابق بہت سے جنگجو لڑائی میں خود شریک ہونے کی بجائے عقل کے اندھے شدت پسندوں کو محاذ پر آگے کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بچے آتے ہیں، جنہیں ذہنی طور پر تباہ کیا جا چکا ہوتا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کی پیش قدمی میں عراقی افواج کا بھی قصور ہے۔ امریکا کی جانب سے اربوں ڈالر ان کی تربیت پر خرچ کرنے کے بعد بھی عراقی فوج سے کسی ناتواں مزاحمت کی امید نہیں کی جا رہی تھی اور پھر یہ کہا جانے لگا کہ مقامی دستے ہمت ہار چکے ہیں۔
کَیرسٹن کنِپ کے بقول دوسرے لفظوں میں اسلامک اسٹیٹ کے مسئلے پر سیاست کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ آئی ایس سیاست کی ناکامی کی وجہ سے وجود میں آئی تھی۔ یہ عسکریت پسند تنظیم عراق میں 2003ء میں امریکی مداخلت کے بعد ایک نئے آغاز کے دوران کی جانے والی زیادتیوں کے رد عمل میں قائم کی گئی تھی۔ کنِپ کہتی ہیں کہ اس مسئلے کا حل اور مستقبل میں ترقی کی کنجی بغداد کے پاس ہے، یعنی ملکی حکومت اور پارلیمان کے ہاتھوں میں۔ یہی لوگ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ عراقی بچوں کی آئندہ نسل کی بہتر تربیت کس طرح کی جا سکتی ہے۔