کراچی کے شیعہ ڈاکٹروں کو جان لیوا حملوں کا خوف
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) ڈاکٹر رضا اپنے کلینک میں اگلے مریض کا انتظار کررہے تھے کہ دو نوجوان ان کے کمرے میں داخل ہوئے، اپنے بیگ سے پستول نکالے اور ان پر چھ گولیاں فائر کردیں۔
قاتل تو انہیں مرنے کے لے چھوڑ گئے تھے تاہم بری طرح زخمی ہونے کے باوجود ڈاکٹر رضا کی جان بچا لی گئی۔
ڈاکٹر رضا کی حفاظت کے نکتہ نظر کے تحت ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے، ان درجنوں ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں، جنہیں حالیہ برسوں کے دوران عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
درحقیقت سینئر طبی ماہرین میں خوف پھیلا کر پاکستان کے پسماندہ طبی نظام پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
ڈاکٹر رضا پر چند مہینے قبل کراچی کے جنوبی حصے میں حملہ ہوا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اپنے چہرے کو ڈھکنے کی کوشش کی، یوں میرے بازوؤں اور انگلیوں پر گولیاں لگیں۔‘‘
انہوں نے رائٹرز کو بتایا ’’ایک گولی میری انگلی میں انگوٹھی کے پتھر سے ٹکرائی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ دوسری صورت میں یہ گولی ان کے سر میں لگ سکتی تھی۔
ڈاکٹر رضا کا کراچی کے ایک ہسپتال میں ابتدائی علاج کیا گیا، اس کے بعد وہ اور ان کا خاندان روپوش ہوگیا۔ جب یہ احساس ہوا کہ ان کے ہاتھوں کے افعال کی مکمل بحالی کے لیے خصوصی علاج کی ضرورت ہے تو انہوں نے مزید سرجری کے لیے آسٹریلیا کا سفر کیا۔
جب انہوں نے اپنے دوستوں کو فون کرکے بتایا کہ وہ اور ان کا خاندان بحفاظت پہنچ گئے ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے ایک اور ساتھی کو قتل کردیا گیا ہے۔
پولیس کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں 26 ڈاکٹروں کو قتل کیا گیا تھا، اور یہ تعداد 2010ء کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی۔
شہید ہونے والے ان ڈاکٹروں میں سے زیادہ تر کا تعلق کراچی سے تھا، دو کروڑ افراد پر مشتمل یہ شہر پاکستان کا تجارتی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ اس شہر میں عسکریت پسندوں کا تشدد اور جرائم عام سی بات ہے۔
جن لوگوں پر حملے ہوئے ڈاکٹر رضا سمیت ان کی ایک بڑی تعداد کا تعلق پاکستان کی اقلیت شیعہ برادری سے ہے۔ سنی اکثریت کے اس ملک میں فرقہ وارانہ تشدد میں انہیں متواتر نشانہ بنایا جارہا ہے۔
کراچی کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے ایک افسر خرم وارث نے ایک وہابی، دیوبندی عسکریت پسند گروپ جو پاکستان کے شیعہ مسلمانوں پر حملہ کرتا ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’لشکر جھنگوی کے کارکنان نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا تھا کہ وہ شیعہ ڈاکٹروں پر حملے کرتے ہیں۔‘‘
سینئر ڈاکٹر مقابلتاً مالدار ہیں، ان کی یہ خصوصیت اغوا برائے تاوان کے لیے توجہ کا مرکز بن گئی ہے، جبکہ سیکیورٹی حکام کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے لیے یوں بھی ڈاکٹر آسان ہدف ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ معاشرے کے قابلِ احترام رکن ہیں اور آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں۔