پاکستان میں داعش کے خطرناک سائے
مائرہ اقبال
پاکستان میں داعش کی حمایت میں وال چاکنگ سب سے پہلے کراچی میں ہوئی۔ 2014ء میں پشتون آبادی کے قریب سفید اور نیلے رنگ کے سپرے پینٹ کے ساتھ isis لکھا نظر آیا۔ ایک ماہ بعد نومبر میں ٹیکسلا میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے باہر چار جھنڈے بجلے کے کھمبوں پر آویزاں دیکھے گئے۔ اسی مہینے لاہور میں داعش کے پوسٹر چسپاں کرتا ایک شخص گرفتار ہوا اور گزشتہ ماہ کراچی میں اسمعیلی برادری کی بس پر داعش سے وابستہ جند اللہ کے خونریز حملے کے بعد جائے واردات سے اسلامک اسٹیٹ کا لٹریچر ملا۔
جنوری میں تحریک طالبان پاکستان کے سابق کمانڈر حافظ سعید خان اورکزئی کا ٹوئٹر پر آڈیو پیغام جاری ہوا جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ وہ پاکستان میں داعش کے خراساں چیپٹر کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں، تاہم اسکی دوسرے ذرائع سے تصدیق نہ ہو سکی۔ پاکستان کے شمال مغربی شہروں پشاور، بنوں اور قبائلی علاقوں میں بھی داعش کی حمایت کے اعلانات ہوئے لیکن اس کی کوئی ٹھوس شکل سامنے نہیں آئی۔ پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق خفیہ اداروں کے ایک اجلاس میں وال چاکنگ پر غور کیا گیا اور بتایا گیا کہ ملک میں داعش کے تقریبا 370 ارکان بروئے کار ہیں۔ اسکے باوجود پاکستانی سکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں داعش کا وجود تجریدی ہے، اسکے خطے میں آپریشنل لنکس نہیں ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کے حامل پاکستان میں داعش سے ہمدردی رکھنے والوں کا ابھار تشویشناک ہونا چاہیے کیونکہ اس ملک میں جہادیوں کی بھرتی کے لیے فضا سازگار ہے، لیکن حکومت کا سرکاری موقف یہ ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔ اگر یہ موقف درست ہو تو پھر ملک میں داعش کے وجود کا پروپیگنڈا طالبان کا آخری حربہ ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ بنوں میں آرمی کنٹونمنٹ کی دیواروں پر داعش کے حق میں نعرے دیکھنے والے صحافی طہ صدیقی کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان کئی ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں اور وہ اپنی طاقت کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اس سے مقامی لوگوں میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ طہ صدیقی کا خیال ہے کہ پشتون آبادی میں اردو زبان کے پیغامات کوئی پشتون نہیں لکھ سکتا۔
خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کی توجہ ملک میں داعش کے خطرے کی جانب متوجہ کرائی گئی تو انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا: ہماری فوری تشویش سرحد کی صورت حال اور افغانستان میں عسکریت سے نمٹنا ہے۔ انکے خیالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وسطی ایشیا میں خراسان کے نام سے اسلامی سلطنت قائم کرنے کے عزائم کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہیں۔ خراسان کی مجوزہ حدود بہت وسیع ہیں، جن میں افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے بھی شامل ہیں.
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2001ء سے شیعہ مسلک کے 2400 مسلمانوں کو مساجد اور امام بارگاہوں میں عبادت کے دوران قتل کیا جا چکا ہے۔ مجموعی طور پر 2000ء سے اب تک 4216 افراد فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر اور سکیورٹی امور کے تجزیہ کار محمد عامر رانا کے مطابق داعش ایک واضح خطرہ ہے اور اس سے جنگجو گروپوں کو تقویت پہنچی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہنگو، اورکزئی اور کرم ایجنسی میں ٹی ٹی پی کے کمانڈروں کی پوزیشن بہت مضبوط ہے اور وہ داعش کی طرز کے ظالمانہ حربے استعمال کرنے سے بھی نہیں کتراتتے، اس لیے سرکاری اداروں کو انکی بھرتیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ رانا عامر نے خبردار کیا کہ وہ طالبان فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے کر داعش سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ طالبان اور القاعدہ اپنے انتشار اور اندرونی دباؤ کی بنا پر زیادہ زور دار حملے شروع کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو طاقتور ظاہر کر سکیں۔ رانا عامر نے اپنی کتاب Militant: Development of a Jihadi Character in Pakistan میں لکھا ہے کہ عالمی جہادی فرنچائز نے زمین پر حقیقی طاقت کے اظہار کیلئے علاقوں کے کنٹرول کی اہمیت کو اجاگر کیا، جس سے خطے میں القاعدہ کے اثر کو ضعف پہنچا اور اس سے القاعدہ اور طالبان کے چیلنجوں میں اضافہ ہو گیا۔
لشکر جھنگوی بلوچستان شاخ کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف بر سر پیکار باغیوں کی مدد کیلئے اپنے جنگجو بھیجے اور وہ داعش کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ایک منحرف گروپ جند اللہ نے بھی داعش کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس گروپ نے تصدیق کی ہے کہ زبیر الکویتی کی سربراہی میں داعش کا تین رکنی وفد بلوچستان کا دورہ کر چکا ہے اور اس نے جماعت اسلامی سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔
26 نومبر 2014ء کو پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کی لال مسجد سے وابستہ ایک طالبہ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا، جس میں عراق اور شام میں برسرپیکار اسلامک سٹیٹ کے لیے اظہار ہمدردی کیا گیا۔ عربی زبان میں جاری اس پیغام میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم پاکستان میں ہر رات آپ کے لیے خصوصی دعا کرتے ہیں۔ پولیس کے ایک سینئر ریٹائرڈ افسر اور مصنف عمر شاہد حامد نے وال سٹریٹ جنرل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں جہادی میڈیا کافی فعال ہو گیا ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے داعش اور القاعدہ کے حق میں ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے ہلاکت خیز حملے کے بعد پاکستان میں
نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے دہشت گردوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے دن گنے جا چکے ہیں۔ اسی پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کو مقدمے چلانے کا اختیار دیا گیا۔ اسکے علاوہ بیس نکاتی ایجنڈا بھی طے ہوا جسکا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ تھا۔ اسکے بعض پہلوؤں پر نکتہ چینی بھی کی گئی۔ نیشنل سکیورٹی کے رپورٹر اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ناکامی کی تمام وجوہ کا تجزیہ کرنے والے صحافی اعظم خان نے ایک انٹرویو میں راقم الحروف کو بتایا کہ داعش سمیت تمام کالعدم تنظیموں کا لٹریچرہر جگہ دستیاب ہے جو صورت حال کو بگاڑنے میں کردار ادا کر رہا ہے۔
اعظم خان نے بتایا کہ ٹی ٹٰ پی کی ویب سائٹ بلاک نہیں کی گئی۔ اس گروپ نے حال ہی میں ایک موبائل اپلیکیشن بھی لانچ کی ہے جسکے ذریعے نوجوان حامیوں کا جوش و جذبہ بڑھایا جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا ایک نکتہ دہشت گردوں کے لٹریچر پر کریک ڈاؤن اور انکے کمیونیکیشن نیٹ ورک کو تباہ کرنا ہے لیکن حکومت ابھی تک اس ضمن میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان میں داعش کے کتنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ فعال ہیں کیونکہ انکی باقاعدہ مانیٹرنگ نہیں کی جا رہی اور نہ ہی یہ انسداد دہشت گردی ایجنڈے کی ترجیح معلوم ہوتی ہے۔ پشاور میں مقیم عسکریت کے ماہر صحافی جاوید عزیز نے راقم الحروف کو بتایا کہ حکومت چھوٹے خطرات کو ہنسی میں اڑا دیتی ہے۔ حکومتی عہدیدار صرف ان گروپوں کو دہشت گرد مانتے ہیں جب وہ خونریز حملے کرنے کے قابل ہو جائیں۔
داعش کے پھیلاؤ کی شہ سرخیاں تو بن رہی ہیں لیکن پاکستان کے جنگجو گروپ کھلے عام اسکے بانی ابوبکر البغدادی کے ساتھ وفاداری کا اعلان ہیں کرتے کیونکہ اسکا مطلب یہ ہوگا کہ وہ طالبان لیڈر ملا عمر سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں جو افغانستان میں اسلامی امارات قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے جنوبی ایشیا میں داعش کی موجودگی حقیقت کے بجائے ایک واہمہ ہے؛ البتہ اس سے چھوٹے گروپوں کو ازسرنو منظم ہونے کا موقع ضرور مل رہا ہے۔