مضامین

حرمین شریفین پر حملہ کرنیوالے کدھر گئے؟

تحریر: سید اسد عباس تقوی

اس سال مارچ کے مہینے میں پاکستان اور عالم اسلام میں اچانک شور اٹھا کہ یمن کا ایک گروہ حرمین شریفین پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور اس حملے کو روکنے کے لئے عالم اسلام سے افواج درکار ہیں۔ ہم بھی بڑے زور شور سے اس شور شرابے کا حصہ بنے اور اعلانات کئے گئے کہ حرمین شریفین پر کسی بھی حملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی و مذہبی قائدین نے اس حوالے سے کافی واشگاف اعلانات کئے۔ ہم فوجیں بھیجیں گے، حرمین شریفین پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ملک میں متعدد دفاع حرمین کانفرنسیں اور مظاہرے ہوئے۔ تاہم کسی نے یہ سوال نہ کیا کہ آخر یہ حملہ کر کون رہا ہے؟ پتہ کیسے چلا کہ حملہ ہونے والا ہے؟ سعودیہ نے کہہ دیا کہ حرمین پر حملہ ہونے والا ہے تو ہم نے بھی کہہ دیا کہ ہاں حملہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہماری اجتماعی دانش کام آئی اور پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ ہم کسی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، ورنہ جتنا شور و غوغا بلند ہوا تھا، توقع یہی تھی کہ ہمارے سجیلے جوان جلد ہی یمن کی سرحدوں پر پہنچنے والے ہیں۔ ہمارے اس فیصلے پر بہت سے دھمکی آمیز بیانات بھی سامنے آئے، لیکن بھلا ہو جمہوریت کا جس نے ہمیں بال بال بچا لیا۔ اگر ملک میں آمریت ہوتی تو ہم وہی کر بیٹھتے جو افغان جہاد کے وقت ہم نے کیا تھا۔

چلیں اب چونکہ تھوڑا سا شور و غوغا تھم چکا ہے تو آئیں دیکھیں کہ اصل واقعہ کیا تھا اور اس وقت کیا صورتحال ہے؟ یمن پر سعودی فضائیہ کے حملے اس وقت بھی جاری ہیں۔ آج یعنی مورخہ 22 جون 2015ء کو بھی سعودی فضائیہ نے یمن کے شہری علاقوں صعدہ اور تعز پر حملہ کیا ہے، جس میں متعدد روزہ دار جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔ یہ حملے 26 مارچ سے آج تک بدستور جاری ہیں۔ ابتدائی طور پر تو طوفان آیا، تاہم چالیس دن بعد سمجھ آئی کہ اس طوفان سے کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل ہونے والا نہیں تو خود ہی طوفان کو روک دیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طوفان رکا نہیں ہے بلکہ آج بھی یمن کی شہری آبادیوں پر حملے ہوتے ہیں۔ حوثی جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ حرمین شریفین پر قبضے کا ارادہ رکھتے ہیں، آج بھی یمن کے شمال سے جنوب تک آباد علاقوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔

انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹوں کے مطابق اب تک یمن میں سعودی فضائی حملوں سے شہید ہونے والے بے گناہ مسلمانوں کی تعداد چار ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ ہزاروں افراد زخمی ہیں۔ لاکھوں افراد ملک سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ملک کے اندر موجود پناہ گزینوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فضائی حملوں میں ممنوع ہتھیار یعنی کلسٹر بمبوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ محاصرے کا شکار اڑھائی کروڑ کے قریب آبادی کا یہ ملک وسائل کی شدید کمی کا شکار ہے۔ اشیائے ضرورت، ادویات جو اس ملک میں باہر سے برآمد کی جاتی ہیں، بہت کم مقدار میں ملک میں پہنچ رہی ہیں۔ توانائی کے ذرائع پر حوثیوں کا کنٹرول نہیں ہے، جس کے سبب ملک میں توانائی کا شدید بحران ہے۔

یہ وہ ملک ہے جو جنگ کے آغاز سے قبل ہی اپنی پسماندگی کی نچلی حدوں کو چھو رہا تھا۔ یمنی عوام اسی پسماندگی سے چھٹکارا پانے کے لئے سڑکوں پر آئے تھے۔ وہ علی عبداللہ صالح کی کرپشن سے تنگ تھے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق یمن کی آبادی کا اکسٹھ فیصد حصہ انسانی امداد کا محتاج ہے۔ ملک کی آدھی آبادی کو صاف پانی دستیاب نہیں۔ گذشتہ ایک دہائی سے جاری مختلف جنگوں کے سبب ہزاروں افراد پہلے ہی پناہ گزین کیمپوں میں موجود تھے۔ یمن میں بچوں میں غذائی قلت کا تناسب دنیا میں سب سے کم ترین درجے پر ہے۔ ذرا ٹھہریئے اور نقشے پر ذرا یمن کا محل وقوع دیکھیئے۔ یہ خطہ سرزمین حجاز کے جنوب میں واقعہ ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ یہاں کے شیوخ ٹھوڑیوں تک دولت کے انبار میں دبے ہوئے ہیں۔ سعودیہ، قطر، کویت، امارات سے مال پوری دنیا میں جا رہا ہے، لیکن ان کی بالکل ناک کے نیچے ایک ملک کے باسی موت اور زندگی کی کشمکش سے دوچار ہیں۔

تقریباً گذشتہ ایک دہائی سے ہلال احمر اس ملک کی ایک بڑی آبادی کو امداد مہیا کر رہی ہے، جو حالیہ حملوں کے دوران میں بند ہوگئی۔ سکولوں، ہسپتالوں، ائیر پورٹس، فیکٹریوں، کھیتوں اور پاور پلانٹس پر حملوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ بنیادی وسائل زندگی کی دستیابی معدوم ہے، جو چیزیں دستیاب ہیں ان کی قیمتیں چار گنا بڑھ چکی ہیں۔ تیل کی عدم دستیابی کے سبب پانی کے پمپس بند ہیں۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں اور بینک نہیں کھل رہے، جس کے سبب یمن کے باسیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ ادویات کی اس قدر کمی ہے کہ ہلال احمر کو اس کمی کو پورا کرنے کے لئے مسائل کا سامنا ہے۔ اب تک اقوام متحدہ کی اعلان شدہ امدادی رقم میں سے فقط نو فیصد رقم جمع کی جاسکی ہے۔ رمضان المبارک جو پوری دنیا میں برکات اور امن کی نوید بن کر آتا ہے، کی آمد بھی یمن کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سکون کا پیغام نہیں لائی۔ حال ہی میں ہونے والے جنیوا مذاکرات میں ابتدا تو اعلان کیا گیا کہ ماہ رمضان کے احترام میں جنگ بندی کی جائے گی، تاہم جنیوا مذاکرات کی ناکامی کے فوراً بعد حملوں کا آغاز ہوگیا۔ ہلال احمر کے ڈائریکٹر اور یمن کے ہیڈ کے بقول یمن کو بے انتہا انسانی امداد کی ضرورت ہے اور امداد کا سلسلہ جو اگر شروع ہوجاتا ہے تو فقط ایک ابتدا سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔

اب اس کیفیت سے دوچار ملک، جس کے اسلحہ کے بڑے ذخائر کو پہلے ہی تباہ کیا جاچکا ہے، اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حرمین یا کسی اور ملک پر حملہ آور ہوں گے، پراپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں ہے، جبکہ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ یمن کے باسی دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے مسلمانوں کی مانند بلاد حرمین بالخصوص مقامات مقدسہ کی حرمت کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یمن اوائل اسلام سے ہی اہل بیت رسول ؐ اور صحابہ کرام ؐ کے عاشقوں کی سرزمین ہے۔ حوثیوں کے بقول حرمین ہمارے لئے اتنے ہی مقدس ہیں جتنے کسی بھی دوسرے مسلمان کے لئے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ جس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ حرمین پر حملے اور دفاع حرمین کا جھوٹ چند دن بھی اپنا وجود باقی نہ رکھ سکا، تاہم اس جھوٹ کے بل بوتے پر ایک مظلوم اسلامی مملکت کے غریب اور پس ماندہ باسیوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کر دیا گیا۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ ان مظلوموں کی مظلومیت کو پراپیگنڈہ کے ذریعے چھپا کر انہیں جارح اور حملہ آور ثابت کیا گیا اور وہ جو حقیقی حملہ آور ہے، اس تقدس مآب کا درجہ دے دیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button