حضرت خدیجہ (ع) اور مقامِ نسواں
تحریر: ثاقب اکبر
10 رمضان المبارک 10 بعثت کو تقریباً پچیس برس کی طویل رفاقت کے بعد ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑ وفات پا گئیں۔ ان کی جدائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک ہی برس میں دوسرا بہت بڑا سانحہ تھی۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے محسن رسالت، مربئ رسول، امینِ محمدؐ، عم پیغمبر، حضرت ابو طالبؑ کی رحلتِ جاں سوز واقع ہوچکی تھی۔ اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ دونوں سانحات اتنے بڑے تھے کہ آپؐ نے اس برس کو ’’عام الحزن‘‘ یعنی غم کا سال قرار دے دیا۔ دور جاہلیت میں بھی اپنی پاک دامنی، عفت اور طہارت نفس کی وجہ سے ’’طاہرہ‘‘ کہلانے والی جانثار شریک حیات کی جدائی ایک بہت بڑا واقعہ تھی۔ انھیں آنحضورؐ نے انہی کی وصیت کے مطابق اس پیرہن میں کفن دیا جو غار حرا میں پہلی وحی کے نزول کے وقت آپؐ نے پہن رکھا تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے ایک روایت میں ہے کہ کوئی دن نہ جاتا تھا کہ آنحضرتؐ خدیجہؑ کو یاد نہ کرتے۔ آپ فرمایا کرتے:
"وہ مجھ پر ایمان لائیں جب باقی انکار کر رہے تھے۔ انھوں نے میری تصدیق کی جب دوسرے تکذیب کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنا مال مجھ پر نثار کر دیا جب دوسرے محروم کر رہے تھے۔ اللہ نے ان سے مجھے اولاد عطا کی۔”
آپؐ فرمایا کرتے:
"اللہ نے مجھے خدیجہ سے بہتر شریک حیات عطا نہیں کی۔”
جبریل اُن کے لئے اللہ کا سلام لائے اور انھیں بہشت میں نہایت خوبصورت موتیوں سے جڑے ہوئے گھر کی بشارت دی۔ آنحضرتؐ نے انھیں جنت میں اپنی رفاقت کی خوشخبری دی۔ آپؐ نے انھیں دنیا کی چار بہترین خواتین میں سے ایک قرار دیا۔
یہ سب باتیں ان کی روحانی عظمت اور مقام والا کی حکایت کرتی ہیں۔ البتہ آپ ہی کی زندگی سے خواتین کی عظمت، وقار اور حیثیت کے مجموعی طور پر بہت سے پہلو آشکار ہوتے ہیں۔ آپ کے وجود ذی جود سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی نظر میں عورت کو کیا مقام حاصل ہے۔ عصر حاضر میں خواتین کے حقوق اور مقام نسواں کا بہت غلغلہ ہے۔ حقوق نسواں کی جدوجہد واقعاً مقام نسواں کی بحالی کے لئے ہو تو اسے خوش آمدید بھی کہنا چاہیے، لیکن اس میں شک نہیں کے اسلام مقام نسواں کے بڑے علم بردار کی حیثیت سے سامنے آیا اور اس نے حقوق نسواں کی ایک عظیم عالم گیر تحریک برپا کی۔ جس کے اثرات بعدازاں تمام قوموں اور تہذیبوں پر نمودار ہوئے۔ تاریخ کی جستجو کرنے والے محققین نے اس سلسلے میں تمام تہذیبوں کی تاریخ کا گہرا اور تقابلی مطالعہ کرکے جن حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، وہ ہمارے دعوے کی دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ اس مختصر سی تحریر میں، ہم حضرت خدیجہؑ کی زندگی سے ماخوذ چند پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حضرت خدیجہؑ ایک مالدار خاتون تھیں۔ آپ کو ملیکۃ العرب اور ملیکۃ التجار کہا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے عرب معاشرے میں آپ کی حیثیت منفرد تھی۔ یہ سلسلۂ تجارت اور مال و دولت آپ کو اپنے والد خویلد سے ورثے میں ملا تھے، جسے آپ نے اپنی ذہانت، محنت، دیانت اور کوشش سے ترقی دی۔ پھر ایک موقع آیا جب آپ کا کاروان تجارت ایک طرف اور تمام مکہ والوں کا کاروان تجارت ایک طرف ہوتا تھا۔ اتنا بڑا سلسلۂ تجارت گھر میں بیٹھے آپ اپنے کارندوں اور نمائندوں کے ذریعے چلا رہی تھیں۔ پھر ایک مرتبہ آپ ایک امین اور لائق نمائندے کی تلاش میں تھیں، تو نظر انتخاب جواں سال محمد ابن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جا پڑی۔ آنحضرتؐ جن کی بعثت کا اعلان اگرچہ چالیس سال کی عمر میں ہوا، لیکن آپؐ شروع ہی سے روح القدس کی نگرانی میں یوں زندگی گزار رہے تھے کہ زبان زبان پر آپ کے لئے صادق و امین کے پرستائش الفاظ تھے۔ اسی لئے آپؐ کی اعلان بعثت سے پہلے کی زندگی کو بھی مسلمان اپنے لئے باعث ہدایت جانتے تھے۔ آپؐ نے حضرت خدیجہ ؑ کی یہ پیش کش قبول فرما لی اور ان کے مامور کی حیثیت سے ان کا کاروان تجارت لے گئے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں ایک خاتون تجارت کرسکتی ہے۔ انتظامی ذمہ داری قبول کرسکتی ہے، مردوں کو اپنے ماتحت ملازم رکھ سکتی ہے۔ اپنے مال کی خود مالکہ ہوسکتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آنحضرتؐ سے شادی کے بعد بھی حضرت خدیجہؑ کو اپنے مال پر پورا اختیار حاصل رہا اور انھوں نے اپنی آزاد مرضی سے وہ مال جہاں چاہا خرچ کیا۔ اگرچہ انھوں نے اپنا سب کچھ آنحضرتؐ کے قدموں پر نثار کر دیا، لیکن یہ سب کچھ انھوں نے خوش دلی بلکہ وفود شوق سے اور آنحضرتؐ کو راضی کرکے خرچ کیا۔
حضرت خدیجہؑ نے آنحضرتؐ کو شادی کا پیغام خود اپنی طرف سے بھیجا، جسے آنحضرتؐ نے اپنے چچا حضرت ابو طالبؑ کے ذریعے بڑے پروقار طریقے سے قبول فرما لیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اس امر میں کوئی ممانعت نہیں کہ کوئی عورت رشتہ ازدواج کے لئے اپنے ساتھی کا خود انتخاب کرے، بلکہ خود اپنی طرف سے سلسلہ جنبانی کا آغاز کرے۔ آج مسلمانوں کے گھروں میں بھی اگر کوئی خاتون یا بیٹی شرافت و نیکی کے ساتھ کسی کو پسند کرنے لگے اور اس سلسلے میں اپنے ماں باپ یا سرپرست کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کرے تو اسے بھی سنت خدیجہ الکبریؑ ہی سمجھنا چاہیے اور اگر اس خواہش کے راستے میں کوئی شرعی یا قانونی عذر نہ ہو تو ماں باپ یا سرپرست کو چاہیے کہ حضرت ابو طالبؑ کی طرح خوش اسلوبی سے معاملے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور دست تعاون آگے بڑھائے۔ اس امر کو تمام مسلمان علماء
تسلیم کرتے ہیں کہ عورت یا لڑکی کی آزاد مرضی کے بغیر اور زبردستی نکاح جائز نہیں۔ مزید برآں مسلمانوں میں نکاح کے جو صیغے رائج ہیں، ان میں بھی عورت کی طرف سے پہلے نکاح کی تجویز پیش کی جاتی ہے، یا وہ عقد و نکاح کی پیش کش کرتی ہے اور مرد اسے قبول کرنے کا اعلان کرتا ہے اور یہ سب ایجاب و قبول سرعام ہوتا ہے۔ اسی کو جائز نکاح کہتے ہیں، ورنہ چھپ چھپا کے یارانے لگانے سے تو اسلام نے منع کیا ہے۔ اس طریقے کو اگر حضرت خدیجہ الکبریؑ کی یادگار یا نقش پا قرار دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے احباب جانتے ہیں کہ طہارت و تجارت میں شہرت رکھنے والی باعظمت خاتون خدیجۃ الکبریٰ ؑ عالمہ و فاضلہ بھی تھیں۔ انھوں نے ماقبل کے صحف آسمانی کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ اپنی آزاد اندیشی کی وجہ سے ہی انھوں نے کبھی بت پرستی نہیں کی۔ وہ کائنات کے رب کی معرفت حاصل کرچکی تھیں۔ اسی وجہ سے انھوں نے قریش مکہ کے بڑے بڑے بت پرست سرداروں کی خواستگاری کو مسترد کر دیا تھا۔ ان نامور سرداروں میں ابو سفیان اور ابو جہل بھی شامل تھے۔ بعید نہیں کہ بعدازاں آنحضرتؐ سے شدید دشمنی میں ایک عنصر اس رقابت کا بھی شامل ہو اور انھیں ایک عظیم قریشی خاتون کی طرف سے مسترد کئے جانے کا قلق عمر بھر ستاتا رہا ہو۔ تاہم حضرت خدیجہ ؑ کی زندگی کے اس پہلو سے یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ معاشرے یا آباء کی اندھی تقلید خواتین کو بھی نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں حریت فکر کو اختیار کرنا چاہیے اور مذہب و عقیدہ اپنی آزاد رائے سے اختیار کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں کسب علم و فضل کے دروازے مرد و زن دونوں کے لئے کھلے ہیں۔ خواتین کی تعلیم کے مخالف اندھے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو یہ جاننا چاہیے کہ آنحضرتؐ نے اپنے لئے جس پہلی جیون ساتھی کو اختیار کیا، وہ ایک عالمہ و فاضلہ خاتون تھیں۔ بعثت کے بعد نازل ہونے والے قرآن مجید نے بھی اہل علم کا فضل بیان کیا ہے تو وہ مرد و زن دونوں کے لئے۔ جنت میں بلند مقامات کے حصول کی دعوت اللہ نے مردوزن کو بلا امتیاز دی ہے۔ اس طرح قرآن مجید نے آباء اور سماج کی اندھی تقلید کی جو مذمت کی ہے، وہ حضرت خدیجہ کی اصابت رائے اور صحت عمل کے لئے ایک خراج تحسین کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ قرآن ہی ہے جس نے کہا ہے کہ کیا علم والے اور بے علم آپس میں برابر ہیں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے مرد و زن کے مابین کوئی خط امتیاز نہیں کھینچا۔
حضرت خدیجہ الکبریؑ ایک شاعرہ بھی تھیں۔ ان کے بہت سے اشعار بھی صفحات تاریخ و کتب سیر میں محفوظ ہیں۔ یہ اشعار اعلٰی شعری صلاحیتوں کا نمونہ ہیں۔ ان میں آنحضرتؐ سے آپ کی والہانہ اور بے پناہ محبت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اس سے یہ سبق حاصل کیا جاسکتا ہے کہ شعر و ادب کی دنیا کے راستے بھی خواتین کے لئے کھلے ہیں اور اگر کوئی خاتون اپنے اشعار میں اپنے شوہر کے لئے الفت و محبت کا اظہار کرے تو اسلام کی نظر میں نہ فقط اس میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ایسا کرنا مستحسن اور لائق قدر ہے۔ دوسری طرف ایسی عظیم خاتون کے ساتھ آنحضرتؐ نے جیسی رفاقت رکھی اور جیسے عمر بھر ان کی یاد کو اپنے سینے سے لگائے رکھا، وہ بھی ہمارے لئے سبق آموز ہے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ حضرت خدیجہؑ کے لئے کوئی ایک ناپسندیدہ کلمہ بھی آنحضرتؐ پر بہت گراں گزرتا تھا۔ میاں بیوی کے مابین وفا انگیز محبت کی یہ خوبصورت مثال ہمیشہ تابندہ رہے گی۔