انسان اور انسانیت سے غافل روزہ داری
تحریر: ثاقب اکبر
یہ کیا ہوا؟ اتنا غصہ! لوگ روزہ رکھ کر غصیلے کیوں ہو جاتے ہیں، ایک دوسرے کو دھکا دے کر کیوں گزر جانا چاہتے ہیں؟ جوں جوں افطاری کا وقت قریب آتا ہے یوں لگتا ہے کہ بہت سے روزہ داروں کا غصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ روزے کی کیا تاثیر ہے؟ ہر گاڑی والا دوسرے سے آگے بڑھ جانے اور دوسرا راستہ نہ دینے کے درپے کیوں ہو جاتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ روزے کا اثر ہے کیونکہ غصے والے آدمی کو دیکھ کر دوسرے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اسے روزہ زیادہ لگ رہا ہے۔ یہ بازاروں میں رمضان شریف کے آتے ہی ہر چیز کو آگ کیوں لگ گئی ہے۔ ہر چیز کے بھاؤ آسمان سے کیوں باتیں کرنے لگے ہیں۔ وہی ملک ہے، وہی لوگ ہیں، وہی اس کے باغات اور کھیت ہیں اور وہی ان کی پیداوار ہے۔ روزوں کے آتے ہی قیمتیں سیڑھیوں پر چڑھنے کے بجائے راکٹ پر کیوں سوار ہوجاتی ہیں۔ کیا ہمیں معلوم ہے کہ روزوں میں اس ملک کے غریب ترین طبقے کی حالت اور بھی ناگفتہ بہ ہوجاتی ہے اور ان کے گھر میں فقر و فاقہ کا عالم پہلے سے بھی زیادہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف یہ معلوم کرکے عجیب حیرت ہوتی ہے کہ روزوں کے مہینے میں مجموعی طور پر اناج، پھل، سبزیاں اور گوشت عام حالات کی نسبت کہیں زیادہ کھایا جاتا ہے۔ روزے ابھی آ نہیں چکتے کہ سرمایہ دار ہر چیز کی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں۔ چیزوں کو روک لیتے ہیں اور پھر نہایت ظالمانہ قیمتوں پر انھیں فروخت کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سارے لوگ جو عام حالات میں نماز نہیں پڑھتے، روزوں میں نمازیں پڑھنے لگتے ہیں۔ تراویح جیسی مشکل اور طویل عبادت میں بھی لوگ بڑی تعداد میں شریک نظر آتے ہیں۔ مسجدوں کی رونقوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی خبریں بھی پہلے سے زیادہ سنائی دینے لگتی ہیں۔ یہ سب سچ ہے اور دلکش بھی، لیکن جو سطور بالا میں حقائق بیان کیے گئے ہیں:
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
ہم کسی سرکاری ادارے میں ایک زمانے میں کام کرتے تھے۔ روزوں کا مہینہ آیا تو ایک بزرگ دوست نے آواز دی، ہم ان کی خدمت میں پہنچے، ان کے چہرے پر جو سنجیدگی تھی اس سے اندازہ کیا کہ روزوں کے مہینے میں کوئی نہایت اہم بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہم ابھی نوجوان تھے اور وہ ہمارے نزدیک ایک بزرگ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ہمیں قریب بیٹھا کر یوں گویا ہوئے:
ثاقب صاحب! اللہ تعالٰی کے احکام میں کتنی حکمت ہے!
ہم نے عرض کیا: آپ سچ فرماتے ہیں۔
وہ مزید گویا ہوئے: اب آپ تراویح ہی کو لے لیں۔ اگر تراویح کی نماز نہ ہوتی تو کتنی مشکل ہو جاتی۔
ہم نے تجسس سے پوچھا: وہ کیسے؟
وہ کہنے لگے: ثاقب صاحب! دیکھیں اگر تراویح نہ ہوتی تو روزوں میں کھانا ہضم ہونے کی بہت مشکل ہوجاتی۔ آدمی سارے دن کا بھوکا ہوتا ہے، اس لئے افطاری کے موقع پر کچھ زیادہ کھا لیتا ہے۔ ’’سارے‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے اسے کھینچ کر انھوں نے تین چار گنا لمبا کر دیا۔ بات جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا: پھر سحری کے وقت بھی آدمی کو زیادہ کھانا پڑتا ہے چونکہ اسے ’’سارا‘‘ دن بھوکا رہنا ہوتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اگر یہ بیچ میں تراویح نہ ہوتی تو کتنی مشکل ہوتی۔ میں ان کی خدمت میں کیا عرض کرتا، مسکراتے ہوئے صرف اتنا کہہ سکا: آپ نے خوب حکمت تلاش کی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ ہم نے اللہ کے سارے احکام میں سے ایسی ہی حکمتیں تلاش کر رکھی ہیں، جنھیں کوئی عقل و دانش رکھنے والا انسان حکمت نہ کہہ سکے۔ ہمارے معاشرے میں یوں لگتا ہے جیسے ہم نے ایسی ہی حکمتوں کے سہارے زندگی کا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ جس کے نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ بھگت رہے ہیں۔ راقم کو اس موقع پر یہ کہنے کی اجازت دیجیے:
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
اگر 20 کروڑ عوام میں سے ایک چوتھائی بھی روزہ رکھتے ہوں اور ایک وقت کا کھانا نہ کھاتے ہوں تو قیمتوں کو کم ہونا چاہیے یا زیادہ؟ اگر انسان تین وقت کے بجائے دو وقت کھانا کھانے لگے تو اس کا وزن گھٹنا چاہیے یا بڑھنا چاہیے۔ وہ روزہ جو اس لئے فرض کیا گیا، تاکہ ہم بھوک اور پیاس کا مزہ چکھ سکیں اور ہمیں اپنے ارد گرد موجود بھوکوں اور پیاسوں کے درد کا احساس ہوسکے، اس نے ہمارے اندر رحم دلی کیوں نہیں پیدا کی، ہمارا غصہ کیوں زیادہ ہوگیا ہے؟ قرآن حکیم تو کہتا ہے کہ روزے کا مقصد انسانوں کو تقویٰ شعار بنانا ہے، پھر مسلمان تاجر دوکاندار اور سرمایہ دار قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کرکے محروم و مجبور انسانوں پر ظلم و ستم میں اضافہ کیوں کر دیتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے والوں پر ہی کیا بس ہے، کپڑوں اور جوتوں کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ عید پر غریبوں کو مزید بے لباس اور پابرہنہ کرنے کی تدبیر نہیں تو اور کیا ہے؟
اگر ہم اپنی ٹی وی سکرینوں پر ایک نظر ڈالیں اور روزوں کے مہینوں میں نئے سے نئے شروع ہونے والے پروگراموں کی ماہیت کی جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ تمام سرمایہ داروں اور تاجروں نے اپنی پیداوار کے لئے ایک اشتہاری مہم شروع کر رکھی ہے۔ سب سے زیادہ اشتہار کھانے پینے کی چیزوں کے دکھائے جا رہے ہیں۔ انسانی نفوس میں اشتہا کو طرح طرح سے بڑھاوا دیا جا رہا ہے، ایسے دستر خوان سجا کر دکھائے جا رہے ہیں کہ جن کا غریب خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، ان کی غربت کا مذاق اڑانے کا اس سے زیادہ دردناک طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
یہ نہ دیکھیے کہ چند ہزار لوگوں کو دسترخوانوں پر بٹھا کر کھانا کھاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے بلکہ یہ دیکھیے کہ اس ملک کے چار کروڑ سے زیادہ عوام جو خط افلاس سے نیچے اور اکثر بہت نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اس نمائش کا ان کے دل پر کیا اثر ہوگا۔
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو