مسئلہ فلسطین، امام خامنہ ای کی نظر میں
تحریر: ڈاکٹر حسین آجرلو
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 4 جون 2015ء کو امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"جہاں بھی ظلم ہو گا وہاں دو گروہ پائے جائیں گے: ظالم اور مظلوم۔ ہم مظلوم کے ساتھی ہیں اور ظالم افراد کے مخالف ہیں۔ یہ وہ موقف ہے جو امام خمینی رح بہت واضح طور پر اپناتے تھے اور یہ ہماری اصلی پالیسیوں میں سے ایک ہے۔ آج اسی وجہ سے مسئلہ فلسطین ہمارے لئے ایک اہم اور اصلی مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ سب اس حقیقت کو جان لیں۔ مسئلہ فلسطین ہر گز اسلامی جمہوری نظام کے ایجنڈے سے خارج نہیں ہو گا۔ مسئلہ فلسطین ایک واجب اور لازمی اسلامی جدوجہد کا میدان ہے۔ کوئی واقعہ ہمیں مسئلہ فلسطین سے علیحدہ نہیں کر سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ فلسطین کے محاذ پر کچھ ایسے افراد بھی موجود ہوں جو اپنے شرعی فرائض بخوبی انجام نہ دے رہے ہوں۔ ان کا مسئلہ الگ ہے۔ فلسطینی عوام، فلسطینی قوم اور فلسطینی مجاہدین کو ہماری مکمل حمایت اور مدد حاصل رہے گی”۔
ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کے بیانات کی روشنی میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عالم اسلام کو درپیش تمامتر شدید خطرات کے باوجود مسئلہ فلسطین کو اسلامی جمہوریہ ایران اور عالم اسلام کا پہلے درجے کا ایشو برقرار رہنا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق صہیونزم اور اس کے نمائندہ ملک اسرائیل کی نظریاتی توسیع پسندی سے ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر کی جانب سے اسرائیل کی شدید مخالفت کی اصلی وجہ صہیونزم کی نظریاتی بنیادوں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای صہیونزم کو اپنے انحراف کی وجہ سے ایسے مسائل اور بحرانوں کی حقیقی وجہ قرار دیتے ہیں جن کے باعث عالم اسلام شدید مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ مشکلات تکفیری دہشت گرد گروہوں، خونی پراکسی جنگوں اور اسلامی ممالک میں بیرونی مداخلت کی صورت میں قابل مشاہدہ ہیں۔
امام خامنہ ای کی نظر میں صہیونزم کی تحریک خاص قسم کی بحرانی صورتحال میں معرض وجود میں آئی جو دوسری قوموں، نسلوں اور ممالک کے بارے میں ایک خاص نظریے کی حامل ہے اور عقلی اور الہی نظریاتی بنیادوں سے بالکل بے بہرہ ہے۔ آج عالم اسلام ایک انتہائی پیچیدہ تحریک سے روبرو ہے جو اوہام سے بھری اپنی دنیا میں گم ہو کر اپنے نظریاتی مفادات کے حصول میں کوشاں ہے۔ یہ امر عالم بشریت کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ لہذا ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے ہمیشہ سے اس خطرے کا احساس کرتے ہوئے نہ صرف فلسطینی عوام اور عرب دنیا بلکہ تمام عالم اسلام کو خبردار کیا ہے۔ امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں:
"مسئلہ فلسطین اسلامی ممالک کے مشترکہ ایشوز میں پہلے درجے کا ایشو ہے۔ ایک تو یہ کہ ایک مسلمان ملک پر ناجائز قبضہ جمایا گیا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے اجنبی مہاجروں کی جانب سے غصب کیا گیا ہے اور وہاں ایک جعلی اور مصنوعی ریاست تشکیل دی گئی ہے، دوسرا یہ کہ اس ناجائز قبضے کے دوران انسانی تاریخ کا بدترین قتل عام اور ظلم و بربریت انجام پایا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ تیسرا یہ کہ مقبوضہ فلسطین میں واقع قبلہ اول مسلمین اور دوسرے کئی مقدس مقامات نابودی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ چوتھا یہ کہ عالم اسلام کے حساس ترین حصے میں تشکیل پانے والی اس جعلی ریاست نے ہمیشہ سے عالمی استکباری قوتوں کیلئے ایک فوجی، سکیورٹی اور سیاسی اڈے کا کردار ادا کیا ہے اور مغربی استعماری طاقتوں نے جو اسلامی ممالک کے اتحاد اور ترقی کی شدید دشمن ہیں، نے اپنے اس اڈے کی مدد سے ہمیشہ عالم اسلام کی کمر میں خنجر گھونپا ہے۔ پانچواں یہ کہ عالمی صہیونزم، جو انسانی معاشرے کیلئے بڑا اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی خطرہ محسوب ہوتی ہے، اس جعلی ریاست کو پوری دنیا میں اپنے افکار و نظریات کی ترویج کیلئے استعمال کر رہی ہے”۔ [فلسطینی انتفاضہ کی حمایت میں کی گئی تقریر سے اقتباس، یکم اکتوبر 2011ء]۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بیانات کی روشنی میں مسئلہ فلسطین کا عالم اسلام کا اہم ترین اور پہلے درجے کا ایشو ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں:
1)۔ ظلم و ستم:
عصر حاضر میں امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی قیادت میں ایران میں انقلاب اسلامی کی صورت میں ایک بڑا واقعہ رونما ہوا جس نے دنیا پر گہرے اثرات ڈالے۔ اسلامی انقلاب عظیم اہداف کا مالک اور گہری الہی اقدار پر استوار تھا۔ ان اعلی انسانی و الہی اقدار میں آزادی پسندی، سیاسی اسلام، استعمار دشمنی اور ظلم دشمنی شامل ہیں۔ ایران میں کامیاب ہونے والے اسلامی انقلاب کا ایک اصلی نعرہ ملکی اور عالمی سطح پر موجود ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ جانا اور اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ملکی سطح پر ظلم و ستم کا خاتمہ صاحب اقتدار حلقوں کی جانب سے عوام کے حقوق کی لوٹ کھسوٹ کو روکنا اور عالمی سطح پر ظلم کا مقابلہ دیگر اقوام کے حقوق کو پامال کرنے والے ممالک کے ساتھ مقابلے کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اسی سلسلے میں مسئلہ فلسطین کے حل کی کوشش اور صہیونزم سے مقابلہ اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادی ترین پالیسیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ گذشتہ ایک صدی کے دوران مسئلہ فلسطین، ایک نسل پرست اور توسیع پسند صہیونی رژیم کی جانب سے مسلمان فلسطینی قوم و سرزمین پر بے پناہ ظلم و ستم کی علامت بن چکا ہے۔ اس صہیونی ظلم و ستم کے نتیجے میں اب تک کروڑوں فلسطینی مسلمان جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور
ہو چکے ہیں اور بڑی تعداد میں بیگناہ فلسطینی بچوں، خواتین اور بوڑھوں کا قتل عام کیا جا چکا ہے۔
اس بارے میں اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"مسلمانان عالم جب دیکھ رہے ہیں کہ سرزمین مقدس فلسطین میں کس طرح بیگناہ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور ہماری مقدس سرزمین کس طرح ظالم اور مجرم صہیونیوں کے ہاتھوں تباہ و برباد کی جا رہی ہے، تو ان پر اس سے زیادہ کوئی چیز واجب نہیں کہ وہ اپنی جان اور مال کے ذریعے فلسطین کی آزادی کیلئے جہاد کا راستہ اختیار کریں۔ تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس مقدس جہاد کی مدد کیلئے مالی اور اخلاقی حمایت کریں۔ خدا ان کا حامی اور مددگار ہے”۔
2)۔ توسیع پسندی:
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے پوری دنیا پر اپنا اثر و رسوخ پھیلانے اور دوسری اسلامی سرزمینوں پر قبضے کو اپنی بنیادی پالیسی بنا رکھا ہے۔ صہیونی رژیم کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لہذا ایسی اسلام دشمن رژیم کا مقابلہ کرنا ایک انتہائی اہم امر ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی حقیقی پالیسیوں کا حصہ بنا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ اور ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کو تمام سیاسی تحفظات سے بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کی خارجہ پالیسی کا اہم عنصر قرار دے رکھا ہے۔ آج عالمی صہیونزم نے اسلامی دنیا کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف شیطانی سازشیں کرنے میں مصروف ہے۔
3)۔ عالمی استکباری طاقتوں کی حمایت حاصل ہونا:
دنیا کے کسی بھی خطے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں کسی نہ کسی حد تک عالمی طاقتوں کے زیر اثر ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایک سیاسی کھلاڑی کے بارے میں ان عالمی طاقتوں کے نقطہ نظرات خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انہی نقطہ نظرات کی بنیاد پر عالمی طاقتیں ایک ملک یا سیاسی گروہ کی حمایت کرتی ہیں یا کسی ملک یا سیاسی گروہ کے خلاف محاذ آرائی اور سیاسی اور اقتصادی دباو کی پالیسی اختیار کرتی ہیں۔ ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای کی نظر میں دنیا کی بڑی استکباری طاقتوں نے صہیونزم اور اس کے نتیجے میں اسرائیل جیسی جعلی رژیم کی تشکیل میں انتہائی اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ سمیت ان بڑی طاقتوں نے ہمیشہ سے اسرائیل اور صہیونزم کی حمایت کی ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ طاقتیں صہیونزم کی خدمت میں مصروف ہیں۔ امام خامنہ ای اس ضمن میں فرماتے ہیں:
"ہم امریکی حکومت کو ایک ناقابل اعتماد حکومت جانتے ہیں۔ خود کو بڑا سمجھنے والی حکومت، نامعقول، غیر منطقی اور عہد شکن حکومت اور عالمی صہیونزم نیٹ ورک کے شدید قبضے اور اثر و رسوخ کا شکار حکومت جو صہیونزم کے ناجائز مفادات اور مطالبات کے تحفظ کی خاطر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے پر مجبور ہے اور اس کے سامنے سخت موقف اختیار نہیں کر سکتی”۔ [4 اکتوبر 2013ء]
4)۔ مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا فروغ:
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نظر میں توحیدی عقیدے اور اعلی انسانی اقدار کے فروغ پر مختلف اسلامی فرقوں کا اتحاد اور ان کے درمیان باہمی تعاون، مسلمانوں کے درمیان دوستی کی فضا قائم کرنے اور ہر قسم کی مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے انتہائی مطلوب اور پسندیدہ امر ہے، جبکہ ہر ایسا اقدام جس کا نتیجہ مسلمانوں کے درمیان منافرت اور فرقہ واریت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اسلام کیلئے ایک بڑا خطرہ محسوب ہوتا ہے۔ امام خامنہ ای کی نظر میں صہیونزم اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اپنے منحوس مقاصد کے حصول کیلئے عالم اسلام میں موجود مختلف مسالک اور اقوام کے درمیان مذہبی و قومی فرقہ واریت اور منافرت کو ہوا دینے میں مصروف ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں:
"آج کے انتہائی اہم اور ترجیح کے حامل مسائل میں سے ایک اتحاد بین المسلمین کا مسئلہ اور امت مسلمہ کے مختلف حصوں میں دوریاں پیدا کرنے والے عوامل کو دور کرنا ہے۔ استعماری سیاست کے نجس ہاتھوں نے گذشتہ کئی عشروں سے اپنے منحوس اہداف کی تکمیل کی خاطر مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کے فروغ کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنا رکھا ہے۔ مکار دشمن کا اصل مقصد مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر ان میں موجود مزاحمت اور جہاد کے جذبے کو غلط راستے پر ڈال کر اسلام کے حقیقی دشمنوں یعنی اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور عالمی استعماری قوتوں کے ایجنٹوں کو حفاظت فراہم کرنا ہے۔ مغربی ایشیائی ریاستوں میں تکفیری دہشت گرد گروہوں اور مشابہ دہشت گرد عناصر کی تشکیل ما مقصد بھی اسی خائنانہ سیاست کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ یہ ہم سب کیلئے وارننگ ہے تاکہ ہم آج اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو اپنے قومی اور بین الاقوامی فرائض میں سرفہرست قرار دیں”۔ [حاجیوں کے نام پیغام، 30 ستمبر 2014ء]۔
5)۔ ریاستی دہشت گردی:
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت دہشت گردی، مختلف ممالک کی قومی سلامتی اور بین الاقوامی امن کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہے۔ دہشت گردی اب تک مختلف ممالک کو شدید اور ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے دہشت گردی کے مفہوم کی ایک تعریف پر اتفاق نظر میں ناکامی کے باعث یہ مسئلہ عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات اور مقاصد کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ ہر ملک کی جانب سے اپنی قومی سکیورٹی اور مفاد
ات کی مختلف تعریف پیش کئے جانے کے سبب دہشت گردی جیسے خطرناک مسئلے کے خلاف دوغلی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں۔ بعض حکومتیں اپنے مفادات کے پیش نظر دہشت گردانہ اقدامات کو جائز دفاع قرار دیتے ہیں اور حتی دہشت گردی کو مکمل طور پر جائز اور قانونی اقدام شمار کرتے ہیں۔
دنیا کے مختلف حصوں میں انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کی اکثریت غیر حکومتی عناصر کی طرف سے عمل میں لائی جاتی ہے۔ لیکن بعض حکومتیں بھی اپنے سیاسی اہداف اور مفادات کے حصول کیلئے دہشت گردانہ اقدامات کا راستہ اپناتی ہیں۔ ایسے اقدامات کو "ریاستی دہشت گردی” کا نام دیا جاتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات ریاستی دہشت گردی کا واضح نمونہ ہیں۔ ریاستی دہشت گردی میں ایک ملک دہشت گرد عناصر کی سرپرستی اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں مالی امداد فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی عسکری تربیت بھی فراہم کرتا ہے۔
گذشتہ چند عشروں سے اسرائیلی حکومت کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور اسلامی ممالک کی اہم سیاسی، فوجی، سکیورٹی اور علمی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے صہیونی رژیم کو خطے میں موجود دہشت گردی اور بدامنی کا حقیقی عامل قرار دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
"ہم نے اپنے ملک میں اور نیز عراق، شام اور لبنان میں بھی دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار افراد اور گروہوں کی مدد کی ہے اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ اس خطے کے خطرناک ترین اور خبیث ترین دہشت گرد صہیونی حکام ہیں۔ ہمیں صہیونی حکام کا سامنا ہے اور ہم ان کے مخالف ہیں”۔ [اسلامی ممالک کے سفراء سے خطاب، 16 مئی 2015ء]۔
نتیجہ:
عالمی صہیونزم کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضے اور اسرائیل نامی غاصب صہیونی رژیم کی تشکیل کو توسیع پسندانہ عزائم کے اجراء کا پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل نے عرب اور اسلامی سرزمینوں پر قبضے، فوجی اقدامات اور عالم اسلام کے مختلف حصوں میں علمی اور سیاسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اپنے توسیع پسندانہ اقدامات کو جاری رکھا ہوا ہے۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ اور امام خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کا قائد ہونے کے ناطے ہمیشہ سے اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور اس بات پر تاکید کی ہے کہ اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات اس کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں اور عالم اسلام کو اسرائیل سے درپیش خطرات کے مقابلے میں ہوشیار رہنا چاہئے۔