یوم القدس کا عالمی پیغام
تحریر: جاوید عباس رضوی
انقلاب اسلامی ایران کے ابتدائی مراحل میں ہی امام خمینی (رہ) نے اپنے موقف پر اٹل رہتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ سرزمین فلسطین میں اسرائیل کی تخلیق ایک عالمی اسلام دشمن منصوبے کی دین ہے اور امام (رہ) کا یہ نظریہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کیونکہ 1948ء سے قبل دنیا کے نقشے میں اسرائیل نام کا کوئی ملک دکھائی نہیں دیتا تھا، اور یہ ملک امریکہ و برطانیہ کے باہمی تال میل کے ذریعہ عالم وجود میں لایا گیا تھا، تاکہ وہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھیں، 1948ء سے آج تک برطانیہ اور اس کے بعد شیطان بزرگ امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کرکے روح اسلام فلسطین پر جبری و غیر قانونی قبضہ جمائے ہوئے ہیں، 1948ء سے ہی اسرائیل فلسطینی مسلمانوں، ان کی خواتین و بچوں کو قید میں طرح طرح کی صعوبتوں سے حراساں کرتا رہا ہے، آج کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب اسرائیل فوجی طاقت کے بل بوتے پر فلسطینی بستیوں کو تباہ کرکے مسلمانوں کو بے گھر نہ کرتا ہو۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد فروری 1979ء میں امام خمینی (رہ) نے ایک حکم صادر کیا کہ تہران کی جس عمارت میں اسرائیلی سفارت خانہ تھا، اسی میں آزادی طلب فلسطینی تنظیم کا آفس قائم کیا جائے، اور اس کے بعد آپ نے دنیا اسلام کو مسئلہ فلسطین کی طرف توجہ دلانا شروع کی، امام خمینی (رہ) نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس کے طور پر منانے کی اپیل کی، جس کے نتیجے میں آج دنیا کے گوشے گوشے سے امریکہ، اسرائیل، صہیونیت، استکبار و استعمار مردہ باد کی آوازیں بلند ہوتی ہیں، آج ہر باشعور مسلمان یہ کہتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور بیت المقدس فقط عربوں کا مسئلہ نہیں ہے، بیت المقدس کی آزادی صرف فلسطینوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کا ایک اہم و بنیادی مسئلہ ہے کہ جس کو ظلم و جبر سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ استعمار و استکبار نے چاہا تھا کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ذریعے اسرائیل کے سامنے عالم اسلام کی گردنیں جھکوا دیں، لیکن امام خمینی (رہ) نے اس وقت اعلان کیا کہ یہ ایک شرمناک معاہدہ ہے اور اس کا قیام صرف اسلام کے خلاف سازش کے تحت ہوا ہے، اور آپ نے اس ہتھکنڈے سے مسلمانوں کو دور رہنے کی ترغیب دلائی، چنانچہ اس معاہدہ کے نتیجے میں مسلمانوں کا قتل عام ہونا شروع ہوگیا، آج کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن استعماری طاقتیں مسلمانوں کو ظلم و ستم کے شکنجے کا شکار نہیں بناتیں، آج جہاں کہیں بھی ظلم و تشدد ہو رہا ہے، وہ مسلمانوں کے امریکہ و اسرائیل سے خفیہ تعلقات کے نتیجے میں ہی ہو رہا ہے۔
اگر نام نہاد اسلامی ممالک ان شیطانی قوتوں سے اپنے تمام تر تعلق ترک کرتے تو دنیائے اسلام کی یہ حالت نہ ہوتی، یہ شیطانی قوتیں مسلم نسل کشی پر نہ اتر آتیں، برما میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام نہ ہوتا، مقبوضہ علاقہ جات ان کے قبضے میں نہ ہوتے، قبلہ اول پنجہ استبداد میں نہ ہوتا، آج ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ جب اسرائیل فوجی فلسطینی عوام کو گولیوں کا نشانہ نہ بناتے ہوں، مظلوم فلسطینی عوام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، لیکن نام نہاد اسلامی ممالک کے ٹھیکیداروں کو اب بھی اپنی غلطی کا احساس نہیں ہو رہا ہے اور اب بھی وہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، اگر یہ بیدار ہوئے ہوتے تو قبلہ اول کی آزادی دور نہ ہوتی، لیکن اب وہ دن دور نہیں ہے کہ جب ان ٹھیکیداروں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو صدام، قذافی یا حسنی مبارک کے ساتھ انجام پایا۔
فلسطین عالم اسلام کے لئے آنکھ کی حیثیت رکھتا ہے، فلسطین مسلمانوں کے لئے شہ رگ جاں کے مثل ہے، فلسطین وہ مبارک سرزمین ہے جس کی جانب رخ فرما کر رسول اکرم (ص) نے اپنے اصحاب و انصار کے ہمراہ نمازیں ادا کی ہیں، یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے نبی کریم (ص) نے سفر معراج انجام دیا، فلسطین کی آزادی تک مسلمانوں کو اسلام ناب حاصل نہیں ہوگا، جب تک مقبوضہ فلسطین کی آزادی عمل میں نہیں لائی جاتی تب تک اسلامی ممالک کی سرحدیں محفوظ ہرگز نہیں ہیں، فلسطین کی رہائی تک مسلمانوں کا لہو یوں ہی بہتا رہے گا، بیت المقدس کی آزادی تک ہمارے مقدسات کی توہین ہوتی رہے گی، ہماری عزتیں تار تار ہوتی رہیں گی، غرض یہ کہ ہمیں باعزت جینے کے لئے قبلہ اول کو آزاد کرانا ہوگا، اگر عالم اسلام امن و امان کا خواہش مند ہے تو انہیں فوراً فلسطین کی آزادی کے لئے صف بستہ ہونا ہوگا۔
یوم القدس کی اہمیت و افادیت کو جاننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز و روزہ کی اہمیت کی واقفیت حاصل کرنا ہے، خانہ خدا اگر عبادات کے لئے ضروری ہے تو بیت المقدس شعور کی بیداری کے لئے لازم ہے، یوم القدس مستکبرین کے خلاف مستضعفین کا دن ہے، یوم القدس ظلم و ستم کے خلاف دبی اور کچلی ہوئی قوموں کی صدائے احتجاج کا دن ہے، یوم القدس حق شناس اور موقع پرستوں کے درمیان فرق کرنے کا دن ہے، یوم القدس قیام کا دن ہے، یوم القدس بیداری اسلامی کا دن ہے، یوم القدس شیطانی قوتوں کو الٹی میٹم دینے کا دن ہے، یوم القدس تمام مقبوضہ علاقہ جات کی آزادی کا دن ہے، یوم القدس منافقوں کے چہروں سے پردہ ہٹانے کا دن ہے اور مستضفین عالم کے سرخرو ہونے کا دن ہے، یوم القدس بیت المقدس کی رہائی کا دن ہے، یوم القدس فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن ہے اور ان کے ساتھ میدان قتال میں شامل ہونے کا دن ہے، یوم القدس اسلام کے احیاء نو کا دن ہے، یوم القدس یوم اسلام ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی عصمتیں لٹ رہی ہیں، مسلم نسل کشی ہر چہار سمت جاری ہے، شیطانی قوتوں کے قید خانے مسلم نوجوانوں اور خواتین سے بھرے ہوئے ہیں، برما، بحرین، شام، فلسطین و کشمیر میں سامراجی طاقتیں مسلمانوں کی قتل و غارت کو فروغ دے رہی ہیں، دنیا بھر میں مسلمانوں کے مقدسات غیر محفوظ ہیں، قرآن کریم کی بے حرمتی عام ہوگئی ہے، لیکن ان سب چیزوں کے باوجود مسلمان لاتعلق بیٹھا ہوا ہے اور اس کو دو رکعت نماز غفلت سے ہی فراغت نہیں ملتی، ایسے مسلمان اگر حج پر بھی چلے جائیں تو پھر بھی فلسطین کے بارے میں بات کرنا وہ حرام جانتے ہیں، حج کے موقع پر جب حجاج کرام سے فلسطین کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض حجاج تو فلسطین نام سے ہی واقف نہیں ہوتے اور جنہیں نام سے آشنائی ہوتی ہے، وہ فلسطین کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے، اس بات نہ کرنے کی وجہ یا تو دشمن کا ڈر ہے یہ پھر ملاوں کی لوریوں کا اثر۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسے علاقوں میں جائیں جہاں پر غافل، خوف زدہ، لاتعلق اور بے شعور مسلمان رہ رہے ہیں، اور انہیں عالم اسلام کے حالات کی جانکاری دیں، ان کے سامنے مسلمانوں کی حالت زار بیاں کریں اور انہیں بتائیں کہ اگر تمہارا مسلمان بھائی مدد کے لئے پکار رہا ہے اور تم چپ سادھ کر بیٹھے رہو تو یہ نمازیں کام نہ آئیں گی، انہیں اطلاع دیں کہ اگر بیت المقدس سے دوری اختیار کرلی جائے تو خانہ خدا کے طواف سے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں، مبلغین و ذاکرین پر لازم ہے کہ وہ برسوں کی خاموشی کو توڑتے ہوئے اپنے خطبات میں بیت المقدس کی رہائی کے لئے عوام کو آمادہ کریں۔ قلم کاروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں اور استعمار و استکبار کے خلاف اپنے قلم کو جنبش دیں، میڈیا سے وابستہ افراد پر ضروری ہے کہ وہ اپنی روایتی روش بدل کر یوم القدس کے پروگراموں کو کوریج دے کر قبلہ اول کی آزادی میں اپنا رول نبھائیں، اگر معاشرے کے ہر ایک فرد نے اپنی ذمہ داری نبھائی تو وہ دن دور نہیں ہوگا کہ جب فلسطیبن کی آزادی کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ انشاءاللہ!