مضامین

حکومت اسلامی کے اردو ذرائع ابلاغ کی کارکردگی

تحریر: عرفان علی

آج عیدالفطر کا تیسرا روز ہے اور حسن اتفاق یہ ہے کہ اس وقت ایک نیوز چینل پر وقت دیکھ رہا ہوں تو 4:20 لکھا آرہا ہے۔ چار بیس کو ہندسوں میں لکھیں تو چار سو بیس جیسے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ایک ایرانی دوست اردو سیکھ رہے تھے تو انہیں بھی کہیں سے چار سو بیس کی سن گن مل چکی تھی, مزید اطمینان کے لئے وہ مجھ سے اس لفظ کے معنی پوچھنے لگے تو انہیں تسلی ہوگئی۔ شاید یہ تحریر بھی بعض افراد کی چار سو بیسیوں کے بارے میں لکھی گئی تصور کی جائے, لیکن یہاں مقصد چند تلخ حقائق بیان کرنا ہیں۔ ایک طویل عرصے سے یہ نکات میرے زیر مشاہدہ رہے ہیں۔ سبھی کو معلوم ہے کہ یہ میڈیا وار، پروپیگنڈا وار یعنی تبلیغاتی جنگ کا دور ہے۔ سبھی کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں اردو کا نمبر فارسی اور عربی سمیت بہت سی زبانوں سے بہت ہی اوپر آتا ہے۔ پہلے اسے دنیا کی چھٹی بڑی زبان کہا جاتا تھا، اب بعض ادارے اسے چوتھے نمبر کی بڑی زبان قرار دیتے ہیں۔ حکومت اسلامی ایران نے بھی اس زبان کی اہمیت کو سمجھا اور اس زبان میں بھی نشریات و تبلیغات کا سلسلہ شروع کیا۔

1990ء کے عشرے کے اوائل سے بندہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک انتہائی معیاری مجلہ ’’توحید‘‘ سازمان تبلیغات اسلامی جیسے عظیم الشان ادارے کے تحت شایع کیا جاتا تھا۔ علامہ مرتضٰی حسین صدر الافاضل مجلہ توحید اردو کے مدیر تھے، اردو ترجمہ کرنے والوں میں علامہ احتشام زیدی اور علامہ ولی الحسن رضوی صاحبان جیسے نامور علمائے دین تھے۔ یہ علمی جریدہ جب تک ایران سے شائع ہوا، ہمیں بذریعہ ڈاک مل جاتا تھا۔ بعد ازاں ایک وقت آیا کہ ایک خط کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ اب یہ جریدہ پاکستان سے شائع ہوگا اور اس خط میں ناظم آباد کراچی کا ایک پتہ تحریر تھا۔ کراچی میں مقیم 2 علمائے دین کو اس کی مسئولیت سونپی گئی، لیکن وہاں سے شائع شدہ ایک بھی مجلہ ہمیں موصول نہیں ہوا۔ ایک باخبر دوست نے آگاہ کیا کہ ان حضرات نے صرف ایک ہی شمارہ شائع کیا تھا اور اس کے بعد دوسرا شمارہ شائع نہیں ہوسکا۔ پھر ان میں سے ایک عالم دین نے افکار توحید کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار کا اجرا کر دیا۔ دوسرے عالم دین اس وقت جو اس وقت تحریک میں تھے، آج کل مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی عہدیدار ہیں۔

اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے کے شعبہ فرھنگی کے تحت ماہنامہ وحدت اسلامی شائع ہوا کرتا تھا، جو بند کر دیا گیا۔ بھارت میں ایرانی سفارتخانہ غالباً ’’ندائے اسلام‘‘ شائع کیا کرتا تھا۔ پاکستان و بھارت کے خانہ فرہنگ سے یہ رسالے باآسانی دستیاب تھے اور ممبران کو بذریعہ ڈاک بھی بھیجے جاتے تھے۔ پاکستان میں ایران کے سفیر جواد منصوری کی کتاب ’’شناخت استکبار‘‘ کا اردو ترجمہ شائع ہوا تھا، تو وہ کتاب بھی ہمیں بذریعہ ڈاک مل گئی تھی، (یہ الگ بات کہ اس وقت ’’تحریک‘‘ کے ضلعی عہدیدار نے ہماری نوعمری (نوجوانی) کا بہانہ بنا کر وہ کتاب خود رکھ لی تھی)۔ اور اس کے بعد ان ماہناموں کی اشاعت بند کردی گئی۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں اس وقت کی ایرانی حکومت کے بعض عہدیداروں کی حماقت کو دخل حاصل ہو اور انہوں نے اس کا بجٹ ختم کردیا ہو، لیکن آج ہم ان اداروں کی بات کریں گے کہ جن کا بجٹ بھی ہے اور جہاں شعبہ اردو کے ملازمین بھی ہیں، لیکن ان کی کارکردگی اس کے باوجود قابل اطمینان یا تسلی بخش نہیں ہوسکی۔

پوری دنیا میں دوستوں اور دشمنوں کی نظر ایران میں جس ایک ہستی کے قول و فعل پر ہوسکتی ہے، وہ ہیں امام خامنہ ای۔ ان کی دو ویب سائٹ ہیں، ایک لیڈر ڈاٹ آئی آر جو ولی فقیہ کے دفتر کی نگرانی میں ہے اور دوسری خامنہ ای ڈاٹ آئی آر جو دفتر حفظ نشر و آثار حضرت آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالٰی کے تحت ہے۔ یہاں فارسی ویب سائٹ تو بہت جلد اپ ڈیٹ کر دی جاتی ہیں، لیکن اردو ویب سائٹ کے لئے غیر اعلانیہ طویل انتظار فرمایئے کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ عیدالفطر کا خطبہ آج 20 جولائی تک پوسٹ نہیں ہوا بلکہ اردو میں ایک خبر کا ترجمہ کیا گیا ہے اور یہ بھی کتنے بجے پوسٹ ہوا ہے خود دیکھ لیں اور ایک ویب سائٹ نے 18 جولائی کی تاریخ تو ڈال دی ہے لیکن یہ ترجمہ انہوں نے بھی آج ہی اپ لوڈ کیا ہے۔ یہاں کون ہوسکتا ہے، سوائے پاکستان اور ہندستان کے ’’متدین‘‘، ’’نظریاتی‘‘، ’’انقلابی‘‘ و ’’روحانیوں‘‘ کے؟!

پوری دنیا میں اردو اخبارات ایرانی و بین الاقوامی خبروں کے لئے جہاں ’’بی بی سی،‘‘ ’’وائس آف امریکا ‘‘ اور ’’وائس آف جرمنی‘‘ کی مانیٹرنگ کی جاتی تھی تو وہیں مانیٹرنگ ڈیسک پر مامور صحافی کارکنان ’’ریڈیو تہران‘‘ کی بھی مانیٹرنگ کرتے تھے اور اگلے روز اخبارات میں ریڈیو تہران کے ذریعے حاصل خبر شائع ہوتی تھی۔ آج بھی عوام و خواص میں سے بہت سے اس ذریعہ سے خبریں سنتے ہیں اور آج انٹرنیٹ ویب سائٹ کا دور بھی ہے۔ ریڈیو تہران اردو نشریات کی ویب سائٹ urdu.irib.ir پر دیکھیں۔ اس کے پروگرام گشت و گذار کے صفحہ پر آخری پروگرام جو اپ لوڈ کیا گیا، اس کا عنوان ’’کامیاب ایٹمی پروگرام‘‘ ہے، یہ 15 جولائی کو ڈالا گیا اور یہ پروگروام بھی گشت و گذار نہیں ہے بلکہ اردو سحر ٹی وی کے پروگرام انداز جہاں کی آڈیو ہے۔ زاویہ نگاہ کا صفحہ دیکھیں، جہاں آج کا کالم کی سرخی کے تحت جو آخری کالم اپ لوڈ کیا گیا، اس پر 6 جولائی کی تاریخ لکھی ہے۔ انٹرویو کے صفحہ پر تو بہت ہی عظیم کارنامہ نظر آرہا ہے، یہاں آخری
انٹرویو جو اپ لوڈ کیا گیا وہ 14 مئی 2015ء کو کیا گیا تھا۔ ویل ڈن !!Good job۔ یہاں بھی مسئولیت کس کے ذمے ہوسکتی ہے، سوائے پاکستان اور ہندستان کے ’’متدین‘‘، ’’نظریاتی‘‘، ’’انقلابی‘‘ و ’’روحانیوں‘‘ کے؟!

پچھلے سال ہم بھی ایک الیکشن مانیٹرنگ پر گئے تھے۔ ہمارے وفد کی میزبانی کرنے والے ایک دوست کے ساتھ جو مہمانوں پر مشتمل وفد کے ’’قائد‘‘ نے کیا، وہ بھی ایک دلچسپ داستان تھی، لیکن اس پر آنکھوں دیکھا حال لکھنے والا صرف ایک ہی شخص تھا۔ جب سارے کام چور ہوجائیں، چار سو بیسی کرنے لگیں تو میرے جیسے نالائق کا چھوٹا سا کام بھی بڑا ہی نظر آنا تھا، میری رپورٹ پر دیگر کے بارے میں معلوم کیا گیا تو عرض کیا کہ حضور آپ کے سرپرستوں کی سرپرستی سے پہلے شاید یہ لوگ مخلصانہ کام کرتے ہوں، لیکن لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہم نے تو اس گروہ کو نہیں دیکھا، میرے جیسے لوگوں ہی کے ذریعے یہ کام انجام پاتے رہے تھے۔ یہ صاحبان سال 2002ء کے آخر میں متفق ہوئے کہ حالات حاضرہ پر ایک ماہنامہ کی ٹیم کا حصہ بنیں، سبھی پر تحریر لکھنے کی ذمے داری تھی، وہ میگزین آج بھی شائع ہو رہا ہے، لیکن موصوف نے 13 سالوں میں صرف ایک یا دو تحریر ہی ہدیہ کی تھی اور وہ بھی 6 ستمبر کے عنوان پر۔ بغیر کسی مالی سرپرستی کے، اسی میگزین کے لئے بندہ نے ملکی و بین الاقوامی ایشوز پر مستقل لکھا اور اتنا لکھا کہ علمائے دین بھی تعریف کیا کرتے تھے، جبکہ ان تحریروں پر میرا اصلی نام نہیں ہوا کرتا تھا اور بہت کم لوگوں کو لکھنے والے کے بارے میں علم تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ میزبان پشیمان تھا کہ قیامت میں اللہ کے حضور کیا جواب دے گا تو میں نے کہا پشیمان اسے ہونا چاہئے جس نے اپنا فرض پورا نہیں کیا، تمہارا کیا قصور۔

مزے کی بات یہ کہ آج تک بحیثیت صحافی و تجزیہ نگار مجھے کبھی امام خمینی کی برسی، انقلاب اسلامی کی سالگرہ سمیت کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری پروگرام میں مدعو نہیں کیا گیا۔ انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف اور اسلامی بیداری کے بارے میں لکھنے والے اور بولنے والے کو اس عنوان پر منعقدہ کسی بھی پروگرام میں مدعو نہیں کیا گیا۔ آج سے 12 تیرہ سال قبل اندرون سندھ کے تنظیمی دوستوں کے توسط سے قم سے فارغ التحصیل ایک روحانی سے بات ہوئی تو ان کی رائے تھی کہ بغیر سفارش کے وہاں بھی کوئی کام نہیں ہوتا اور جب بھی کوئی وہاں کے بارے میں منفی رائے ظاہر کرتا تھا، تو میں کبھی اس شخص سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتا تھا۔ آج بھی جب بہت سے شعبوں میں چار سو بیسی دیکھتا ہوں تو اس نسبتاً جوان عالم دین کی رائے یاد آتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ حکومت اسلامی کے متعلقہ حکام تک میری رائے پہنچتی ہے یا نہیں، لیکن میرا صرف ایک سوال ہے کہ شعبہ اردو کے ذرائع ابلاغ میں آج تک جتنے بھی افراد آئے، ان میں سے کتنے باقاعدہ صحافی تھے، جب انہیں بھرتی کیا گیا؟ اگر عالم دین بننے گئے تھے اور تبلیغاتی جنگ میں کچھ کرنے کا شوق تھا تو پھر اپنے وطن لوٹ کر یہ خدمت کیوں انجام نہیں دی!

(نوٹ: ایک بزرگ دوست (سینیئر) نے 17 جولائی کو فون پر تکلفاً پوچھا کہ میرے لائق کوئی خدمت! میں نے بھی دیر نہیں کی اپنی خواہش بتا دی تو فرمانے لگے کہ کوئی وہاں جانا چاہتا ہے تو اس کے 2 مقصد ہوسکتے ہیں، ایک خدمت اور دوسرا پیسہ اور ان دونوں حوالوں سے صورتحال یہ ہے کہ نہ تو پاکستان کی نسبت زیادہ خدمت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی اچھا معاوضہ ملتا ہے۔ یہاں بھی سوال یہ ہے کہ جب ایسا ہے، تب بھی یہ تھیوری وہاں مقیم افراد پر بھی لاگو ہوتی ہے تو وہ سارے کب زیادہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہمارے درمیان موجود ہوں گے؟ کچھ اور بھی دلچسپ باتیں ہوئیں، وہ پھر کبھی سہی)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button