مضامین

گلگت، انتقامی سیاست کا شاخصانہ ۔۔ بلا جواز گرفتاریاں

تحریر: علی ناصر الحسینی

مارچ کے اواخر میں سعودیہ نے یمن کے بے گناہ مسلمانوں پر فضائی حملہ کیا اور یمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یہ حملے اس قدر شدت سے ہوئے کہ دنیا بھر میں ان کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا، اس حوالے سے پاکستان کے کئی ایک شہروں میں بھی ان حملوں اور ظلم کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، جو آج بھی جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سعودیہ کا دوست ملک ہے، جہاں ہمارے مقدسات بھی ہیں اور ان کی حفاظت ہم اپنے دین و ایمان کا جزو سمجھتے ہیں، مگر یمن بھی کوئی کافر ملک نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی ایسا جرم ہے، جس کی سزا اسے بربادی و تاراجی کی صورت دی جائے۔ لہذا اس ظلم کے خلاف کھڑے ہونا اور سعودیہ کے ساتھ ملکر یمن کی تباہی میں حصہ لینا اہل پاکستان کو قطعاً قبول نہیں تھا۔ اہل پاکستان نے سعودی درخواست کہ پاکستانی افواج اس اتحاد کا حصہ بنیں، جس کے ذریعے یمن پر آگ و بارود کی بارش کی جا رہی ہے، کو رد کر دیا۔ ایسا ممکن نہیں تھا، پاکستان کی عوامی نمائندہ پارلیمنٹ نے اس کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا۔

ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج کرنا کسی بھی طرح دستوری و آئینی یا قانونی طور پر غلط نہیں، مگر گلگت میں اسی احتجاج جو دراصل پاکستان کی قومی متفقہ پالیسی سے ہم آہنگ بات ہے، کرنے والوں پر انتہائی ظالمانہ و متعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ناقابل معافی جرم بنا دیا گیا۔ پورے ملک کی طرح جب گلگت کے ایریا دینیور میں احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت مجلس وحدت مسلمین کے مقامی و صوبائی قائدین علامہ نیر عباس مصطفوی، علامہ بلال سمائری، ڈویژنل صدر جمال حیدر، سابق مرکزی صدر عارف قنبری، شیخ شہادت، غلام عباس، مطاہر عباس وغیرہ نے کی، اس ریلی کے شرکاء اور قائدین پر دہشت گردی کی دفعات اور نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر پرچہ کاٹ لیا گیا۔ قارئین جانتے ہیں کہ یہ وہ دن تھے، جب گلگت بلتستان میں الیکشن کمپین چل رہی تھی اور مسلم لیگ نون جیسی حکمران پارٹی کے بغل بچے نگران حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے، ان کو مجلس وحدت مسلمین سے ویسے ہی چڑ ہے، اس لئے کہ الیکشن میں مجلس وحدت نے ہی انہیں ٹف ٹائم دیا ہے، جس کو حیلوں بہانوں سے دبانا اس کا اولین فریضہ قرار پایا ہے۔

اس ایف آئی آر کے تحت سب سے پہلے عارف قنبری کی گرفتاری ہوئی، جو سات اپریل کو گرفتار ہوئے اور چار جولائی کو ضمانت پر رہا ہوئے، یوں انہیں تین ماہ تک مسلسل اسیر رکھا گیا، اسی دوران الیکشن مہم بھی جاری رہی، جس میں مطاہر عباس حلقہ نمبر دو سے امیدوار بھی تھے، جبکہ مولانا نیر مصطفوی بھی مجلس وحدت کی طرف سے ایک حلقہ سے امیدوار تھے، الیکشن میں جسطرح نون لیگ نے اکثریت حاصل کی، اس کا تذکرہ زبان زد عام و خاص ہے، وہ ہمارا موضوع نہیں۔ بس اس اکثریت کے باعث نون لیگ ایک کٹڑ شیعہ مخالف حافظ حفیظ الرحمان کو وزیراعلٰی بنا کر خطے میں اپنی انتقامی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ نون لیگی نئی حکومت قائم ہونے کے بعد اس انتہائی متعصبانہ اور قانون کی دھجیاں بکھیرتی ایف آئی آر کے تحت مزید قائدین کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ڈویژنل صدر جمال حیدر، مطاہر عباس، شیخ شہادت کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اور دیگر لوگوں کی گرفتاری کیلئے ہراساں کیا جا رہا ہے۔

گرفتاریوں کا یہ سلسلہ مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والوں کیلئے کوئی انہونی بات نہیں، جس سے ہم پریشان ہوجائیں گے اور راستے سے ہٹ جائیں گے، یا راستہ تبدیل کر لیں گے، یہ حکمرانوں کی بھول ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی حسینی کو، مکتب جعفری کے پیرو کو، امام خمینی کے دلیروں کو جھوٹے پرچوں یا مقدمات، گرفتاریوِں، تشدد اور حتٰی سولیوں کے ذریعے راستے سے ہٹا سکے گی۔ یہ کربلا کے پیروکاروں کیلئے سعادت و خوشبختی ہے کہ انہیں کربلائی سنتیں ادا کرنے کا موقع نصیب ہو۔ ہاں ان گرفتاریوں سے ایک بات دوبارہ کھل کے سامنے آگئی ہے کہ نون لیگ پاکستان کی طرح اس حساس خطے میں بھی اپنی مخصوص انتقامی سیاست کر رہی ہے، جس کا واضح ثبوت یہ جھوٹے و متعصبانہ مقدمات اور گرفتاریاں ہیں۔ آپ قانون کی حکمرانی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ریلی یعنی وقوعہ دینیور میں ہوا تھا اور ایف آئی آر گلگت سٹی میں درج کی گئی ہے، جو خود قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ یہ گرفتاریاں ان لوگوں کیلئے بھی آنکھیں کھولنے کے مترادف ہیں جو نون لیگ سے اس خطے کے حوالے سے خیر کی توقعات رکھتے ہیں، ان اقدامات سے اس خطے کی مستقبل کی سیاست کا منظر نامہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔

نون لیگ کی اس پالیسی کا نقصان خود اسے ہی ہوگا، ابھی آغاز سفر ہے، جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اقتدار کی مسند سنبھالے ہوئے، ان ایام آغاز میں تو ہر ایک کیلئے خیرسگالی کے سگنل جانے چاہیئے تھے، مگر جس طرح ایک بچھو کا کام ڈنک مارنا ہوتا ہے، ایسے ہی نون لیگ مکتب تشیع کے پیروان کو اپنی انتقامی سیاست سے پریشرائز رکھنا چاہتی ہے، جو سراسر غلط فہمی اور عقل سے عاری مشیران کے ڈبونے والے مشوروں کا نتیجہ محسوس ہوتا ہے۔ آئی ایس او پاکستان ملک گیر طلباء تنظیم ہے، اس کے قائدین نے مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ ملکر مرحلہ وائز ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے، لاہور، سکردو اور دیگر کئی شہروں میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا گیا ہے کہ بے گناہ اسیران کی رہائی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

آج جمعہ کے دن کئی مقامات
پر مظاہرے بھی ہو رہے ہیں، احتجاج کا یہ سلسلہ آگے بڑھے گا تو خطے میں اس حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوگا، جن کو برداشت کرنا مشکل ہوگا، احتجاج کے اس سلسلے کو اگر ملک گیر سطح پر بڑھا دیا گیا تو کراچی سے لیکر خیبر تک کالجز و یونیورسٹیز کے طالبعلموں کے ساتھ ملت تشیع بھی کاندھے سے کاندھا ملا کے کھڑی ہو جائے گی، جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا، نون لیگ کی ان متعصبانہ پالیسیوں کی مذمت خطے کا ہر ایک شخص کر رہا ہے، آپ اندازہ لگائیں کہ تکفیری گروہ کے اراکین نے دن دیہاڑے اسلام آباد جو دارالحکومت ہے، میں کھڑے ہو کر سپیکر پر کھلے عام دھمکیاں دیں، مگر ان پر قومی ایکشن پلان کا کوئی اثر نہیں ہوا، جبکہ ایک ایسا خطہ جہاں آئین سے محرومی کو سڑسٹھ برس ہوگئے ہیں، وہاں مظلوموں کی حمایت میں نکالے گئے جلوس کے شرکاء کو جیلوں میں پھینکا جا رہا ہے، ہم اس بات کو یہیں ختم کرتے ہیں کہ ہوش اور عقل کے ناخن لینے چاہیئے اور یہ کہ
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button