حمید گل، شکر گڑھ کا جاگیر دار جہادی جرنیل
تحریر: مجاہد حسین
جون 95ء کی ایک دوپہر میں پیپلزپارٹی کے ایک ممبر قومی اسمبلی نثار احمد پنوں کا انٹرویو کرنے لاہور کے مضافاتی علاقے شاہدرہ جارہا تھا جن پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ایک نوجوان لڑکی کو محکمہ تعلیم میں بھرتی کروانے کا جھانسہ سے کر بے آبرو کردیا تھا، بعد ازاں مذکورہ لڑکی ایک تحریر میں تمام واقعہ درج کرکے چھت سے لگے پنکھے سے جھول گئی تھی۔ مجھے بھاٹی گیٹ سے ایک چھوٹی مسافر ویگن میں چند ایسی عمر رسیدہ خواتین سے بات کرنے کا موقع ملا جو لاہور کی کسی عدالت میں زمینوں کے ایک قدیمی جھگڑے میں اپنی ملکیت کی گواہیاں دے کر واپس اپنی عارضی رہائش گاہ گورائیہ پارک شاہدرہ جارہی تھیں۔گورداسپوری لہجے میں اِن تھکی ہاری خواتین کی گفتگو میرے لیے بہت کشش کی حامل تھی۔چناں چہ کوشش کرکے میں نے اِنہیں بتایا کہ میں ایک اخباری رپورٹر ہوں اور میں اِن کی اس داستان کو اخبار میں شائع کرسکتا ہوں ۔یہ ایک طرح سے لالچ دینے کی کوشش تھی کیوں کہ میں اُن کے ساتھ مخاطب ہوکر ایسے گورداسپوری الفاظ سننا چاہتا تھا جن کے شروع میں اگر ’’و‘‘ ہو تو گورداسپوری لوگ فطری طور پر اس کی ادائیگی ’’ب‘‘ کے طور پر کرتے ہیں۔ ٹھیک طور پر اس کی وضاحت نہیں کرسکتا کہ ایسا کیوں کرتا ہوں لیکن آج بھی میری حالت اس حوالے سے ایسی ہی ہے۔‘
’بیریا(پنجابی میں ویر)ساہنوں گل حمیدے نے لُٹ لیا اے‘‘(بھائی۔ ہمیں گل حمید نے لُوٹ لیا ہے)مجھے کچھ اندازہ نہ ہوا کہ کس شخص کے بارے میں یہ خواتین بات کررہی ہیں۔میرے چہرے پر تعجب کو محسوس کرتے ہوئے اُنہوں نے اپنے مجرم کی مزید وضاحت کرنا چاہی۔’’ چھوٹیا بیریا۔گل حمیدا پھوج داجرنیل سی اوس نے ساڈیاں زمیناں تکو تکی کھولیاں تے اسی بے گھر ہوگئے‘‘(چھوٹے بھائی۔ حمید گل فوج کا ایک جنرل تھا جس نے زبردستی ہماری زمینوں پر قبضہ کرلیا اور ہم لوگ بے گھر ہوگئے)مجھے نثار پنوں بھول گیا اورچیف ایڈیٹر نجم سیٹھی کی کائیاں شکل میری آنکھوں کے سامنے ہوا میں تیرنے لگی جو اِن دنوں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کے عزائم کے بارے میں بہت زیادہ لکھ رہا تھا اور اُس کا خیال تھا کہ حمید گل پاکستان میں جہاد کی علامت ہے اور اتنا زیادہ طاقت ور ہے کہ کسی نہ کسی دن اس کا سابق ادارہ پاکستان فوج اس کو اقتدار میں لے آئے گا۔
جنرل حمید گل 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں کیپٹن کے طور پر فوج کے سرحدی خفیہ ادارے FIUفیڈرل انویسٹی گیشن یونٹ کا شکرگڑھ میں انچارج تھا جب اس نے بھارت میں رہ جانے والے ضلع گورداس پور اور اس کے گردو نواح کے مسلمان مہاجروں کی پاکستان میں الاٹ شدہ زمینوں پر اپنے اثرو روسوخ کے بل بوتے قبضہ کرلیا۔سمجھدار حمید گل نے اس وسیع و عریض رقبے کی ملکیت کے کاغذات میں اپنا نام درج نہ کروایا اور آدھی زمین اپنی زوجہ شہناز گل کے نام کردی اور ملکیت کے کاغذات میں شہناز گل کو اپنی زوجہ ظاہر نہ کیا بلکہ شوہر کی جگہ اس کے والد اکبر خان کا نام لکھوادیا۔ باقی ماندہ آدھی زمین اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ گل اور عمر گل کے نام کروادی۔مقامی متاثرہ لوگوں کے ساتھ حمید گل کی ایک مسلح جھڑپ بھی ہوئی جس میں اس نے اپنے سروس ریوالور سے فائرنگ کرکے حملہ آوروں کو منتشر کردیا اور بعد میں ان کے خلاف مقامی پولیس اسٹیشن شاہ غریب میں مقدمہ درج کروادیا۔غریب دیہاتی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے اور حوالاتوں میں قید کردئیے گئے۔زمین کے مقدمات دیوانی عدالتوں میں پہنچے اور پھر حمید گل کا قبضہ مستقل ملکیت کی شکل اختیار کرگیا۔حمید گل کے متاثرہ تینوں دیہات اولیا پور، آدھا اور بھوپا کے متاثرین اب لاہور کے نواحی علاقے شاہدرہ کے گورائیہ پارک میں رہائش پذیر ہیں اور ریاست کا عدالتی نظام اِنہیں یکسر بھول چکا ہے۔
پاکستان کے جہادی سپوت اور جہادی قوتوں کے لیے مرکز کی حیثیت رکھنے والے جنرل حمید گل کی ملکیتی تقریباً پانچ سو ایکٹر اراضی دریائے راوی کے کنارے پاک بھارت سرحد کا تعین کرتی ہے کیوں کہ دریا کے بہاو کے ساتھ ساتھ شکر گڑھ میں دونوں ملکوں کی سرحد بھی سرکتی رہتی ہے۔ پاکستان میں جہاد کے معاشی فیوض وبرکات کی یہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے اس کے علاوہ سینکڑوں ایسی کہانیاں اِدھر اُدھر گردش کرتی رہتی ہیں جو جہاد کے بطن سے پھوٹیں اور جن کی جزئیات پاکستان کے موجودہ نظام،سماج اور کلچر کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ جنرل حمید گل مرحوم(جنرل صاحب پچھلے دنوں انتقال کرگئے ہیں)اور بارڈر ایریا ایکٹ کمیٹی کے ایک عہدیدار کرنل ہاشم خان نے فیصلہ کیا کہ جہاں اِنہیں پاک فوج کے کمیشنڈ آفیسر ہونے کے ناطے پچاس ایکڑ(دو مربع) اراضی الاٹ ہوئی ہے وہیں مزید زمین حاصل کرکے اس الاٹ منٹ کا حقیقی فائدہ اُٹھایا جائے۔لہذا دونوں مذکورہ فوجی عہدیداروں نے اس مقصد کے لیے ضلع سیالکوٹ(بعد میں ضلع نارووال) کی تحصیل شکرگڑھ جہاں اِنہیں فوجی قوائد کے مطابق بارڈر ایریا ایکٹ کمیٹی کی ملکیتی زمین الاٹ ہوئی تھی، وہاں مقامی محکمہ مال کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر بھارت سے آئے ایک کلیم میں جعلسازی کرکے سینکڑوں ایکڑ اراضی حاصل کرلی اور تحصیل شکر گڑھ کے تین دیہات موضوع آدا، بھوپا اور اولیا پور کے سینکڑوں غریب کاشت کاروں کو وہاں سے بے دخل کردیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ ایک مشکل کام تھا اور مقامی اہلکاروں میں سے کوئی بھی اس با
ت پر تیار نہیں تھا کہ وہ فوجی عہدیداروں کے خلاف زبان کھول کر خطرات مول لے۔
دوسری طرف میں اپنے اخبار کے چیف ایڈیٹر نجم سیٹھی اور ایڈیٹر خالد احمد سے یہ وعدہ کرچکا تھا کہ جہاں تک ممکن ہوسکا تمام ریکارڈ حاصل کرکے اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کروں گا۔گورائیہ پارک سے حاصل شدہ معلومات کی بنا پر میں نے فیصلہ کیا کہ شکرگڑھ جانا ضروری ہے تاکہ مدعیان سے حاصل شدہ معلومات کی تصدیق کرسکوں اور اگر اس دوران میں کسی متعلقہ پٹواری کو مل کر محکمہ مال سے اصل ریکارڈ حاصل کروں کیوں کہ مجھے اس بات کا اندزہ تھا کہ جنرل حمیدگل پاکستان میں کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اگر میری رپورٹ میں کوئی سقم ہوا تو پھر خیر نہیں۔گورائیہ پارک میں مجھے اس مقدمے کے مدعیان کی طرف سے صرف ایک درخواست فراہم کی گئی جس میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف(موجودہ وزیراعظم) سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ طاقت ور سابق فوجی عہدیداروں حمید گل اور کرنل ہاشم خان سے اِن کی زمین واگزار کروائیں۔یہ درخواست وزیراعلیٰ ہاوس میں موجود لاتعداد ردی کی ٹوکریوں میں سے کسی ایک میں ڈال دی گئی اور بیچارے غریب کاشتکار پلو جھاڑ کر بیٹھ گئے۔
وزیراعلیٰ کو بھیجی گئی درخواست کے مندرجات نے میری ابتدائی مدد کی اور میں اگلے دن موٹر سائیکل پر شکرگڑھ کی طرف چل پڑا۔طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد میں شام کو چھوٹے سے شہر نما قصبے شکرگڑھ میں تھا جہاں اُس وقت کوئی بھی ہوٹل نہیں تھا جہاں قیام کیا جاسکے۔زمانہ طالب علمی کے دوران ہاسٹلوں میں گزرے کئی سالوں کے تجربات کی روشنی میں میں نے یہ طے کیا کہ گورنمٹ ڈگری کالج شکرگڑھ کے ہاسٹل میں قیام کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ابھی ہاسٹل میں داخل ہوا ہی تھا کہ ہاسٹل وراڈن نے مجھے دیکھتے ہی فوری طور پر وہاں سے نکل جانے کا حکم دیدیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مذکورہ وارڈن صاحب مرے کالج سیالکوٹ میں میرے کلاس فیلو رہ چکے تھے اور جمعیت طلبہ اسلام کے سرگرم کارکن تھے، مرے کالج سیالکوٹ میں میرا تعارف ایک آوارہ گرد اور این ایس ایف کے حامی کے طور پر تھا، جو بہت سے قبول عام اعتقادات پر یقین نہیں رکھتا تھا۔میں نے اُن کے ساتھ کسی بھی قسم کی گفتگونہ کرنے کا فیصلہ کیاکیوں اس صورت میں پٹائی ہونے کا زیادہ امکان تھا اور چپکے سے ہوسٹل سے باہر نکل گیا۔ آدھی رات کو میں نے پٹواری تلاش کرنے کا فیصلہ کیا اور کچہری کے ساتھ واقع بستی میں لوگوں سے کسی پٹواری کا پوچھنے لگا۔جلد ہی مجھے ایک ریٹائرڈ پٹواری کی رہائش گاہ کا پتہ مل گیا اور میں کچھ دیر کے بعد پٹواری صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔تپ دق کے مریض اس پٹواری نے مجھے انتہائی اہم معلومات فراہم کیں اور ساتھ ہی اپنے گھر میں رات گزارنے کی اجازت بھی دیدی۔اگلا دن بہت بھرپور گزرا، میں نے نہ صرف متعلقہ پٹواریوں کے انٹرویوز کیے بلکہ تحصیل ہیڈکوارٹر میں اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں موجود خصوصی رجسٹر۷۲ آر ایل سے نقول حاصل کیں، جن کے بارے میں مجھے بعد میں بتایا گیا کہ مذکورہ رجسٹر۷۲ آر ایل سے نقل حاصل کرنا خلاف قانون ہے اور کسی اسسٹنٹ کمشنر کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اس رجسٹر کو کسی غیر متعلقہ شخص کے سامنے پیش کرے۔اسسٹنٹ کمشنر اس رجسٹر کو صرف کسی عدالت میں طلبی کے وقت وہاں سے لیجانے کا مجاز ہے۔بہرحال نہ صرف وہ رجسٹر مجھے دکھایا گیا بلکہ اُس سے متعلقہ نقول حاصل کرنے میں بھی کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جنرل حمید گل کس طرح چار سو پچھتر غریب کاشتکاروں کی زمین کا مالک بنا، یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔
مہر بی بی نام کی ایک بیوہ جو ریاستی مہاجر کے طور پر گورداس پور سے پاکستان وارد ہوئی اپنے ساتھ ایک معمولی سا زمین کا کلیم بھی لائی۔مہر بی بی یہ کلیم داخل دفتر کرکے مقفود الخبر ہوگئی اور شکر گڑھ میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے اور اس کے ساتھ کیا واقعہ رونما ہوا۔مہر بی بی کا کلیم جس کا ریکارڈ انیس سو بیالیس کی ضلع گورداس پور میں ہونے والی چک بندی سے ثابت ہوتا ہے محض ایک کنال اور بارہ مرلے کا تھا۔شکر گڑھ کے ایک معروف پٹواری عبدالحمید آف مورلی نے اس کلیم کو نائب تحصیل دار شکرگڑھ سے مل کر 2666کنال(تیرہ مربع سات ایکڑ) میں تبدیل کرلیا۔بعد میں اس کلیم کو موضع آدھا اور موضع اولیا میں منتقل کردیا گیاْ۔بعد میں جب حمید گل شکرگڑھ میں تعینات ہوئے تو اُنہوں نے اپنی زوجہ شہناز بیگم قوم پٹھان یوسف زئی ساکن سرگودھا کے نام پرمذکورہ بالا دونوں دیہات میں سے 2447کنال آٹھ مرلہ زمین گمشدہ مہر بی بی سے خرید لی۔قریبی گاوں اولیا میں بھی حمید گل نے 218کنال زمین خرید لی اور اپنے نام کروالی، واضح رہے کہ مہر بی بی کبھی بھی اس سودے کو قانونی شکل دینے کے لیے کسی عدالت میں پیش نہ ہوسکی جبکہ محکمہ مال کا عملہ تمام تر کھتونیاں اور کاغذات زمین لے کر حمید گل کے دفتر پہنچ جاتا اور وہیں ساری’’کارروائی‘‘ مکمل ہوجاتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل حمید گل نے زمین کی ملکیت کے کاغذات میں محترمہ شہناز بیگم کو اپنی زوجہ ظاہر نہ کیا بلکہ اِن کاغذات میں آنسہ شہناز بیگم لکھا گیا جب کہ دوسری طرف جنرل حمید گل نے اپنے دونوں صاحبزادوں عبداللہ گل اور عمر گل کے نام پرموضع بھوپا میں415کنال اراضی خریدی، زمین کی ملکیت کی رجسٹری دونوں بھائیوں کے نام پر ہوئی اور دونوں کو اسی گاوں موضع بھوپا کا رہائشی ظاہر کیا گیا ہے۔حمید گل نے یہ تمام اہتمام اس لیے کیا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوران ملازمت اِن کے خاندان کے نام پر ات
نی زیادہ زرعی اراضی کی ملکیت کو ثابت کیا جاسکے۔ کسی عدالت نے ان 475متاثرین حمید گل کو انصاف فراہم نہ کیا اور جب دریائے راوی کا بہاو مذکورہ دیہات کی طرف ہوا تو یہ بیچارے شکرگڑھ کو چھوڑ کر لاہور اور بہاول پور وغیرہ میں منتقل ہوگئے اور محنت مزدوری کرنے لگے۔اب ان کے مقدمات ردی کی ٹوکری میں ڈال دئیے گئے ہیں اور عرصہ ہوا یہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ پاکستان میں جنرل حمید گل یا اُن کے لواحقین سے اپنی ملکیتی زمین واپس حاصل کرنا ممکن نہیں۔
زمین کی جعل سازی کے ذریعے حمید گل اور اُن کے خاندان کو منتقلی کے بارے میں جب انیس پچانوے میں میں یہ تمام حقائق ہفت روزہ آج کل میں شائع کیے تو مجھے حمید گل کے وکیل جو بعد میں سپریم کورٹ بار کے صدر بھی بنے اور آج کل تحریک انصاف میں شامل ہیں، کی طرف سے ہتک عزت کا نوٹس موصول ہوا۔ میں نے پہلی ہی پیشی پر تمام ریکارڈ عدالت کے روبرو رکھ دیا، جس کے بعد حمید گل نے اپنا مقدمہ واپس لے لیا اور بعض دوستوں کے ذریعے مجھ پر دباو ڈالنے لگے کہ میں اس رپورٹ( جو میں نے اپنی کتاب۔ پاکستان لوٹنے والے میں بھی شامل کردی تھی)سے دستبردار ہوجاوں اور اس کو کتاب سے بھی نکال دوں۔میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا لہذا میں نے انکار کردیا جس کے بعد مجھے دھمکیوں وغیرہ سے بھی پالا پڑا لیکن میں اس رپورٹ کے مندرجات کی صداقت پر اڑا رہا۔کیوں کہ میں وہ تمام ریکارڈ نہ صرف شائع کردیا تھا بلکہ اس کو عدالت میں بھی پیش کردیا تھا۔