پاکستان: جو انتہا پسند پہلے گوارا تھے، اب بالکل نہیں،ڈی ڈبلیو رپورٹ
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے اپنے ایک مفصل جائزے میں ملک اسحاق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ ملک کے سب سے مشہور عسکریت پسندوں میں سے ایک تھا لیکن گزشتہ ایک عشرے سے مقدمات کا سامنا کرنے کے باوجود اُسے اب تک ایک بار بھی سزا نہیں سنائی گئی تھی۔ پولیس کے ایک اہلکار چودھری اختر علی نے بتایا کہ ملک اسحاق نے 1997ء میں شیعہ مسلمانوں کے بارہ افراد کو قتل کر دیا تھا لیکن اس مقدمے کے گواہوں میں سے پانچ کو اُن کے تین رشتے داروں سمیت ہلاک کر دیا گیا، جس کے بعد اُس کے خلاف گواہ تلاش کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔ بتایا گیا ہے کہ ایک نے ہمت سے کام لے کر گواہی دے بھی دی لیکن بھری عدالت میں ملک اسحاق نے اُسے مخاطب کر کے کہا تھا، ’مُردے باتیں نہیں کر سکتے‘۔
شواہد نہ ہونے کی بناء پر ملک اسحاق کو بری کر دیا گیا اور وہ پھر سے اپنی شیعہ مخالف تنظیم لشکرِ جھنگوی میں جا پہنچا، جسے 1996ء میں قائم کرنے والوں میں وہ خود بھی شامل رہا تھا۔ اس کے بعد سے حکام کی جانب سے اُس کی سرگرمیوں میں زیادہ مداخلت نہیں کی گئی لیکن پھر گزشتہ مہینے اُسے، اُس کے دو بیٹوں اور دَس ساتھیوں سمیت پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ انتہا پسندوں کے خلاف پاکستانی کی تبدیل شُدہ پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق چند سال پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پولیس ملک اسحاق کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی، جس کے گروپ لشکرِ جھنگوی کے پنجاب میں مقامی طاقتور سیاستدانوں کے ساتھ گہرے روابط رہے ہیں:’’یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں عسکریت پسندی کے خلاف اب حکومتی سطح پر لائحہ عمل میں تبدیلی آئی ہے۔‘‘
لشکرِ جھنگوی کی ممتاز مذہبی گروپ اہل سنت والجماعت کے ساتھ گہری وابستگی ہے جبکہ اہل سنت والجماعت وہ گروپ ہے، جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت کر رہا ہے۔ تاہم ملک اسحاق کی ہلاکت ظاہر کرتی ہے کہ بالآخر انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کی راہ میں نہ تو لشکرِ جھنگوی کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا خوف حائل ہوا اور نہ ہی ملک کے حکمران طبقات کے ساتھ روابط اِن انتہا پسندوں کے کچھ کام آئے۔
انتہا پسندوں نے فوری طور پر دو خود کُش بمبار روانہ کیے، جنہوں نے حال ہی میں صوبہ پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو ایک حملے میں ہلاک کر دیا تاہم پولیس کے مطابق ایسی کارروائیاں ابھی اور بھی عمل میں آنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لشکرِ جھنگوی نے تیس حملہ آواروں پر مشتمل ایک ’ڈیتھ اسکواڈ‘ تیار کیا ہے۔
اسی دوران حکومت نے بھی انتہا پسندی کو فروغ دینے والے مدارس کے خلاف کارروائی تیز تر کر دی ہے۔ ملکی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مطابق پنجاب میں تیس مدرسے بند کیے جا رہے ہیں جبکہ جنوبی صوبے سندھ میں اڑتالیس دیگر مدرسوں کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔
تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں:’’ماضی میں حقانی نیٹ ورک، افغان طالبان اور لشکرِ طیبہ ایسے گروپوں کو اس لیے برداشت کیا جاتا رہا کہ یہ ملکی سکیورٹی فورسز کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے۔‘‘
انتہا پسندوں کے خلاف لائحہ عمل کی تبدیلی 2013ء کے اواخر میں جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد سے آئی ہے۔ خاص طور پر خطّے میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ابھرنے کے امکانات کے بعد ایسے
خطرات موجود ہیں کہ مختلف گروپ اس نئے شدت پسند گروہ کے ساتھ وابستہ ہو کر ملک کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
دریں اثناء عسکریت پسندوں کے خلاف وہ آپریشن بدستور بھرپور طریقے سے جاری ہے، جس میں پاکستانی فوج کے مطابق اب تک تین ہزار کے قریب شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔ رسول بخش رئیس کہتے ہیں:’’لشکرِ جھنگوی پہلا نشانہ تھا کیونکہ پاکستان کے روایتی دشمنوں افغانستان یا بھارت کے خلاف اس کی کوئی اسٹریٹیجک اہمیت نہیں تھی لیکن اب آپریشنز کا دائرہ پھیلا کر مزید گروپوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘