مضامین

یورپ کی سرحدوں پر سسکتی انسانیت زندگی کی بھیک مانگنے لگی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبررساں ادارہ ) مشرق وسطیٰ میں جنگ کی تباہ کاریوں سے جانیں بچا کر یورپ کی جانب نکلنے والے ہزاروں افراد زندگی کی سختیوں کی بھینٹ چڑھ گئے، عالمی برادری کی بے حسی، یورپی حکومتوں کے سخت قوانین اور انسانی سمگلروں کے بے رحم شکنجوں میں جکڑے ہزاروں غریب الوطن یورپی ممالک کی سرحدوں پر بے یارو مددگار پڑے انسانیت سے زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ شام، عراق، افغانستان اور لیبیا سمیت مختلف ملکوں سے محفوظ زندگی کی تلاش میں نکلنے والوں کو سمندر کی بے رحم موجوں سے بچنے کے بعد انسانوں کی سخت دلی کا سامنا ہے۔

شام میں داعش کی تباہ کاریوں سے جان بچا کے بھاگ نکلنے والوں کو مہذب اور انسانی حقوق کی علمبردار دنیا کی بے رخی برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ یورپی حکومتیں اپنے موقف میں کوئی بڑی تبدیلی لانے سے گریزاں ہیں اور تارکین وطن کیلئے اپنی سرحدیں مکمل طور پر کھولنے سے کترا رہی ہیں، جس کی وجہ سے تارکین کی اذیتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ 2011ء سے شام میں داعش کی جارحیت سے اب تک دو لاکھ سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ سوا کروڑ سے زائد شہری بے گھر ہو کر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

یورپی ممالک میں پناہ چاہنے والوں میں اکثریت شامی مہاجرین کی ہے جن کی اکثریت سمندر کے راستے موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے یونان، مقدونیہ اور ہنگری جیسے یورپی ممالک میں پہنچی ہے لیکن انکی آہیں اور سسکیاں بھی سرحدوں کی بلند فصیلیں توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکیں تاہم دو روز قبل ترک ساحل پر اوندھے منہ پڑی 3 سالہ شامی بچے کی لاش نے جہاں دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہیں مفلوک الحال انسانوں کی فریادیں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے دل پر بھی اثر کر گئیں اور انہوں نے ہزاروں شامی مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دینے کے علاوہ تارکین کے مسئلے کے حل کیلئے 152 ملین ڈالر مالی امداد کا اعلان بھی کر دیا ہے ، اس رقم کا ایک تہائی حصہ ان شامی شہریوں کیلئے ہو گا جو بے گھر ہیں تاہم اپنے ملک کے اندر ہی ہیں۔

ادھر ہنگری میں حکومت کی جانب سے ٹرینوں کی بندش کے بعد ہزاروں تارکین وطن نے آسٹریا کی جانب پیدل مارچ شروع کر دیا ہے۔ تارکین وطن کو خوراک اور پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ دریں اثنا اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انٹونیو گٹریس نے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ 2 لاکھ سے زائد تارکین وطن کو اپنے ہاں جگہ دیں۔ دوسری جانب مصر کے ایک ارب پتی کاروباری شخص نجیب ساویرس نے اٹلی اور یونان سے کہا ہے کہ وہ ان سے ایک جزیرہ خریدنے کیلئے تیار ہے جہاں شامی پناہ گزینوں کو عارضی طور پر آباد کیا جائے گا اور انہیں رہائش، تعلیم، صحت اور نوکری جیسے سہولتیں بھی دی جائیں گی۔ ادھر شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث عراق، ترکی، لبنان جیسے ممالک میں پناہ لینے والے ہزاروں شامی خاندانوں کی عیسائیت قبول کرنے کی اطلاعات ہیں جبکہ سلواکیہ، پولینڈ اور چیک ری پبلک نے اعلان کیا ہے وہ صرف چند سو قدامت پسند شامی عیسائی خاندانوں کو ہی اپنے ممالک میں پناہ دیں گے جبکہ مسلمان شامی خاندانوں کیلئے انکے ہاں کوئی جگہ نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button