Uncategorized

شحاع خانزادہ پر خودکش حملہ کا مبینہ بمبار پنجاب یونیورسٹی کا گریجویٹ تھا

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبررساں ادارہ) امریکی جریدے "فارن پالیسی” کا کہنا ہے کہ ”پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو ختم کئے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ 1989ء کے بعد سے پانچ ہزار سے زائد پاکستانی فرقہ وارانہ حملوں میں اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں۔” جریدے نے اپنی تازہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ”خطرناک پہلو یہ ہے کہ فرقہ وارانہ بنیاد پرستی اب مدارس تک محدود نہیں بلکہ معروف تعلیمی اداروں تک پھیل گئی۔ عسکریت پسندی کا چیلنج کثیر جہتی ہے، اس لئے قبائلی علاقوں میں واحد فوجی آپریشن اسے ختم نہیں کرسکتا۔“ امریکی جریدہ لکھتا ہے کہ ”قومی ایکشن پلان پر عمل سے دہشت گردی کے واقعات میں تو کمی آئی ہے لیکن فرقہ وارانہ تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے چیلنج کا کوئی فوری حل نظر نہیں آتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے بغیر پاکستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔“ فارن پالیسی مزید لکھتا ہے کہ ”گذشتہ برس پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد حملے کے بعد بطور حکمت عملی "قومی ایکشن پلان کے 20 نکات پر عمل درآمد کی کوششیں تیز کیں، جس کے نتیجے میں حملوں میں نمایاں کمی ہوئی، تاہم پاکستان کو کئی دہائیوں سے عسکریت پسندی کا چیلنج درپیش ہے، جو کثیر جہتی ہے اور قبائلی علاقوں میں صرف فوجی آپریشن سے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا تا وقت یہ کہ فرقہ وارانہ عسکریت پسندی کے مسئلے کا کوئی دیرپا حل تلاش نہ کرلیا جائے۔“

رپورٹ کے مطابق ”سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ فرقہ وارانہ بنیاد پرستی اب دینی مدارس تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے معروف اداروں کے تعلیم یافتہ طلبہ بھی حالیہ فرقہ وارانہ دہشت گرد حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ شجاع خانزادہ پر خودکش حملہ کرنے والوں میں ایک بمبار مبینہ طور پر پنجاب یونیورسٹی کا گریجویٹ تھا۔“ پاکستان نے طالبان اور غیر ملکی دہشت گردوں کو بھگا کرا اسٹریٹیجک کامیابی حاصل کی، تاہم ملک کے اندر فرقہ وارانہ گروپ اب بھی سرگرم ہیں، جب تک ان کے خلاف موٴثر کارروائی نہیں ہوگی ملک میں طویل المدتی امن مشکل ہے۔ تھنک ٹینک ساوٴتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل کے مطابق 1989ء کے بعد سے پانچ ہزار سے زائد پاکستانی شہری فرقہ وارانہ حملوں میں اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں۔ گذشتہ سال 208 افراد جبکہ رواں برس کے آٹھ ماہ میں 202 افراد فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس کے علاوہ گذشتہ دوسالوں میں ریکارڈ فرقہ وارانہ واقعات ہوئے جن میں گذشتہ جنوری میں شکار پور میں امام بارگاہ پر دھماکہ ہوا، جس میں 60 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ اس کے دو ہفتے بعد پشاور کی مسجد میں بم حملے میں 19 افراد جاں بحق ہوئے، کراچی میں 43 اسماعیلیوں کے قتل سمیت بڑے پیمانے پر متعدد دیگر واقعات ہوئے۔ کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے ردعمل کے طور پر پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ خودکش حملے میں جاں بحق ہوئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ فرقہ وارانہ گروپ سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھتے ہیں جبکہ پاکستان میں داعش کی موجودگی کی بھی اطلاعات ہیں۔ کئی فرقہ وارانہ گروپوں کے داعش سے روابط قائم ہیں۔ کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر حملے اور قتل میں بھی داعش کے ملوث ہونے کا کہا گیا۔ جریدہ لکھتا ہے کہ ”پاکستانی طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے برعکس، فرقہ وارانہ گروہوں کے خلاف فوجی کارروائی ایک انتہائی مشکل چیلنج ہوگا۔ کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے تو پنجاب میں حقیقی جنگ فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف لڑنا ہوگی۔“

دھیاں رہے کہ اسلامی جمیعت طلبہ پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے طالب علم وانا اور وزیرستان میں ہلاک ہوچکے ہیں، جسکی بنیادی وجہ جمعیت کے کالعدم طالبان اور القائدہ کے حوالے سے تعلقات ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے بم دھماکہ کے ذمہ داران بھی پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے جمعیت کے اجتماع سے وزیرستان ٹریننگ لینے گئے تھے، جہاں سے واپسی پر انہوں نے جامعہ کراچی میں شیعہ نمازیوں کو ٹارگیٹ کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button