مضامین

اول شہید عشق حضرت مسلم ابن عقیل علیہ سلام

امام حسین علیہ السلام مدینہ سے خارج ہوکر مکہ تشریف لے گئے اور مکہ ہی میں مقیم تھے کہ بڑی تعداد میں اہل کوفہ کے خطوط موصول ہونا شروع ہوئے۔ ان خطوط میں امام علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ آخری خط بھی موصول ہوا اور اہل کوفہ کے خطوط کے تعداد کئی ہزار ہوئی تو امام علیہ السلام مسجد الحرام میں رکن و مقام کے مابین کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز ادا کی اور خداوند متعال سے خیر کی طلب کی اور اس کے بعد حضرت مسلم کو بلایا اور خطوط کا جواب تحریر فرمایا اور اہل کوفہ سے مخاطب ہوکر لکھا: «تمہاری بات یہی ہے کہ: "ہمارا کوئی امام نہیں ہے، ہماری طرف آجائیں شاید خدا آپ کی وجہ سے ہمیں ہدایت فرمائے اور ہمیں متحد کرے” میں اپنے بھائی اور ابن عم مسلم بن عقیل کو تمہاری طرف روانہ کررہا ہوں جو میرے معتمد ہیں۔ پس اگر انہوں نے مجھے لکھا کہ تمہارے عقلاء، فضلاء کی رائے اور تمہارا مشورہ وہی ہے جو تم نے خطوط میں لکھ بھیجا تھا تو میں بہت جلد تمہاری طرف آؤں گا

جناب مسلم بن عقيل امام حسين عليہ السلام كے خط كے ساتھ كوفہ ميں جناب مختار كے گھر پہنچے ، اس خط ميں امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم كو اپنا بھائي اور مورد اعتماد قرار ديا تھا ۔

جس وقت كوفہ والوں كو جناب مسلم كے آنے كي خبر ملي تو ۱۸ہزار افراد نے آكر جناب مسلم كے ہاتھوں پر بيعت كي ، اور جب جناب مسلم كو ان كي باتوں پر اطمينان ہو گيا تو آپ نے امام حسين عليہ السلام كو خط لكھا كہ ۱۸ ہزار اہل كوفہ نے آپ كے نام پر ہمارے ہاتھوں پر بيعت كر ليا ہے لہذا خط ملتے ہي آپ كوفہ كے لئے روانہ ہو جائيں ۔

امويوں نے جناب مسلم كے اس عظيم استقبال كو ديكھتے ہوئے يزيد كو خط لكھا كہ اگر كوفہ بچانا چاہتے ہو تو كسي لائق والي كو يہاں بھيجو ۔ چنانچہ يزيد نے عبيداللہ بن زياد كو كوفہ كا والي مقرر كيا اور وہ بصرہ سے كوفہ آيا اور لوگوں كو ڈرانا دھمكانا شروع كيا جس كي وجہ سے اہل كوفہ نے جناب مختار كي حمايت كم كر دي اور جيسے جيسے عبيداللہ كا منحوس سايہ اہل كوفہ پر پڑتا گيا جناب مسلم كے حامي كم ہوتے گئے ۔

جب عبيداللہ نے ڈرا دھمكا كر اہل كوفہ كو مسلم سے دور كر ديا تو جناب مسلم كي تلاش شروع كي اور جناب مسلم كا پتہ بتانے والے كو انعام و اكرام سے نوازنے كا وعدہ كيا ۔

جناب مسلم كے ميزبان ہاني بن عروہ كو دار الامارہ ميں بلا كر سزا دي ۔ جناب مسلم نے چار ہزار افراد كے ساتھ دارالامارہ كا محاصرہ كيا ليكن عبيداللہ كي سازشوں كي وجہ سے لشكر كے درميان پھوٹ پڑ گئي اور لوگ ايك ايك كر كے جناب مسلم كا ساتھ چھوڑنے لگے يہاں تك كہ نماز مغرب و عشاء كے بعد جناب مسلم تنہا ہو گئے ۔

آخر كار كوفہ كي گليوں ميں عبيداللہ كے سپاہيوں سے مقابلہ ہوا اور جناب مسلم نے تنہا ۴۱ سپاہيوں كو واصل جہنم كيا ليكن بھوك پياس كي شدت اور شديد زخموں كي وجہ سے مقابلے كي تاب نہ لا سكے ۔ ايك سپاہي نے پيچھے سے نيزہ مارا آپ زمين پر گر پڑے ۔ لشكر والوں نے آپ كو گرفتار كر ليا اور دارالامارہ لے گئے ، عبيداللہ بن زياد نے حكم ديا كہ آپ كو دارالامارہ كي چھت سے نيچے پھينك ديا جائے جس سے آپ كي شہادت واقع ہو گئي اس كے بعد ابن زياد نے جناب ہاني بن عروہ اور جناب مسلم رضوان اللہ عليھما كے سر اقدس كو يزيد كے پاس بھيج ديا ۔

آپ كي شہادت ۹ ذي الحجہ سن ۶۰ ہجري ميں واقع ہوئي ۔ آپ كي شہادت سے ايك دن قبل امام حسين عليہ السلام نے كوفہ كے ارادہ سے مكہ كو چھوڑا اس لئے آپ كو شہادت كي خبر راستے ميں ملي ۔ جس وقت امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم اور جناب ہاني كي شہادت كي خبر سني تو آپ نے كئي مرتبہ يہ آيت پڑھي ” انا للہ وانا اليہ راجعون” اور جناب مسلم كے حق ميں دعا كي-

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button