پاکستانی شیعہ خبریں

دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے ضرب عضب سمیت دیگر مستقل اقدامات کی بھی ضرورت ہے، غوث بخش باروزئی

سوال: بلوچستان میں جاری پانچویں انسرجنسی کو کسطرح ختم کیا جاسکتا ہے۔؟
غوث بخش باروزئی: موجودہ صورتحال کو بالکل ٹھیک نہیں کہا جاسکتا۔ بلوچستان میں شورش آج بھی جاری ہے اور اس صوبے کے بغیر آپ پاکستان کا تصور ہی نہیں کرسکتے لیکن اگر ملکی قیادت کے پاس ویژن ہوگی اور خلوص کیساتھ کام کرینگے تو مستقبل میں حالات میں بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آج کے روز بلوچستان میں پانچویں انسرجنسی جاری ہے اور ہمیشہ ہر انسرجنسی کے دور میں اس طرح کے مفاہمتی عمل کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ گزشتہ چار انسرجنسی کی تاریخ پر نظر دوڑائے اور ان سے کچھ اخذ کریے تاکہ جو غلطیاں ہم نے گزشتہ ادوار میں کی تھیں، وہی اس وقت دہرائی نہ جائیں۔ آج کے دن پاکستان کو اندرونی و بیرونی سازشوں کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں پاکستان اور خصوصاً بلوچستان میں شورش کو ہمیشہ کیلئے رکھنا چاہتی ہیں۔ لہذٰا خطے کی بدلتی صورتحال کو بھی ہمیں مدنظر رکھنا ہوگا۔ پوری بلوچ قوم ریاست کیخلاف نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج تک بلوچستان کا رہنا مشکل ہوتا۔ اگر عام عوام کیلئے مزید اقدامات کئے جاتے ہیں تو صوبے کی مجموعی صورتحال میں بہتری کی اب بھی بہت گنجائش موجود ہیں۔

سوال: کیا کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں ایک لمبے عرصے کے بعد چودہ اگست کا جوش و خروش سے منایا جانا، ایک مثبت تبدیلی کی علامت نہیں۔؟
غوث بخش باروزئی: ایسا صرف اور صرف ریاست کے پختہ عزم و حوصلے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ سالوں بعد سیاسی و عسکری قیادت نے ملکر فیصلہ کیا کہ ہم نے بلوچستان میں ریاست کی رِٹ قائم کرنی ہے اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ لہذٰا اگر مستقبل میں بھی حکمرانوں میں یہی جذبہ رہا تو اس سے بھی زیادہ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
سوال: موجودہ حکومت نے دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ہی مذکورہ مذاکراتی عمل کو کیوں شروع کیا۔؟
غوث بخش باروزئی: اگر ریاست پہلے دن سے بلوچستان میں دہشتگردوں کو لگام دیتی اور صوبے کے جائز حقوق اسے مہیا کرتی تو حالات اس قدر خراب نہ ہوتے۔ خان آف قلات ملک کے سیاسی و قبائلی سسٹم میں بلاشبہ ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جب میں نگراں وزیراعلٰی منتخب ہوا تو میری سب سے پہلے کوشش یہی تھی کہ میر سلیمان داؤد صاحب کیساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر کروں۔ اس وقت میری بات خان آف قلات تک پہنچ چکی تھی اور میں نے غیر رسمی طور پر براہمداغ بگٹی کیساتھ بھی تعلقات بنائے ہوئے تھے۔ میرے والد خود اس بلوچ قبائلی سسٹم کا حصہ رہے ہیں، لہذٰا میں نے نواب غوث بخش خان، اکبر بگٹی سمیت دیگر رہنماؤں کو اپنے بچپن میں گھر آتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسی وجہ سے مجھے اس مائنڈ سیٹ سے بخوبی واقفیت ہیں۔ اب چونکہ بلوچستان قبائلی سسٹم سے آہستہ آہستہ سیاسی بلوچستان بنتا جارہا ہے تو ہمیں بھی ایک سیاسی طریقہ کار اپناتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا۔

سوال: ماضی میں حکومتیں مسئلہ بلوچستان کو حل کرنے میں کس وجہ سے ناکام رہی۔؟
غوث بخش باروزئی: بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے۔ جب پاکستان آزاد ہوا تو بلوچستان میں خان آف قلات نے ہی صوبے کو پاکستان کیساتھ ملانے کیلئے رضامندی ظاہر کی۔ اور میں اصل ناراض بھی خان آف قلات کو ہی کہونگا۔ باقی سب تو طاقت کی جنگ میں مصروف ہیں۔ جس میں بگٹی قبائل، مری قبائل، مینگل قبائل اور عوامی سطح پر ڈاکٹر اللہ نذر کا گروہ شامل ہیں۔ تاریخ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر اللہ نذر نے خان آف قلات کیخلاف بھی بیانات دیئے۔ کیونکہ ہم سیاسی طریقہ کار کو اپنا رہے ہیں تو ہمارے طریقہ کار کو بھی سیاسی ہونا چاہیئے۔ گزشتہ دور حکومت میں زرداری صاحب نے بلوچستان کے عوام سے بحیثیت صدر پاکستان معافی مانگی جبکہ معاملات کو حل کرنے کا یہ طریقہ قطعاً نہیں ہوتا۔ کوئی بیمار ہے تو آپکو عملی طور پر اسکا علاج کرنا چاہیئے۔ صرف دعا سے آپ اپنا کام نہیں چلا سکتے۔

سوال: گوادر سے متعلق درپیش چیلنجز کو کس طرح کاؤنٹر کیا جاسکتا ہے۔؟
غوث بخش باروزئی: بین الاقوامی طاقتوں کی نظریں بلاشبہ اس وقت گوادر اور پاک چین اقتصادی راہداری پر لگی ہوئی ہے۔ بعض ممالک اپنے مفادات کی خاطر گوادر پروجیکٹ کو ناکام بنانے کیلئے ہر حدتک جائینگے لیکن حکومت کو چاہیئے کہ عوامی طاقت کے بلبوتے اس منصوبے سے متعلق کثیر الجہتی مسائل کو حل کریں۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں اور عسکری ادارے اس منصوبے کو نیک نیتی کیساتھ حل کرنا چاہیں تو نہ صرف پاکستان بلکہ پورا خطہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

سوال: کیا دہشتگردوں کیخلاف آپریشن ضرب عضب کو آپ مسئلے کا حل سمجھتے ہے۔؟
غوث بخش باروزئی: پاکستان اس وقت ایک ایسے مریض کی مانند ہے، جسے بہت سی بیماریاں لاحق ہیں۔ اسی لئے اس ملک کو ایک مضبوط فوجی آپریشن کی ضرورت تھی۔ اگر ملکی قیادت اتنی تباہی پھیلنے کے باوجود بھی حرکت میں نہ آتی اور آپریشن ضرب عضب کا آغاز نہ ہوتا تو اس ملک کا مستقبل خوفناک ہوتا۔ جب میں نگراں وزیراعلٰی بنا تو میں نے دیکھا کہ لوگوں میں انتظامی معاملات کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ چند ایک دہشتگردی کے واقعات ہوئے جس میں مذہبی شدت پسند اور آزادی کے طلبگار بھی شامل تھے۔ یہ عناصر بیرونی عناصر سے پیسے لیکر اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے بدامنی پھیلاتے تھے۔ ان سب حالات کی اصل وجہ پولیٹیکل ویل کا نہ ہونا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس ناسور کو آپ صرف آپریشن سے بھی ختم نہیں کرسکتے۔ یہ ایک شارٹ ٹرم پلاننگ کا حصہ تھا، جسے پاک افواج نے بخوبی نبھایا۔ اب سیاسی، عسکری، عدالتی، میڈیا سمیت عوام کو بھی لانگ ٹرم پلاننگ کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔ ہمیں دہشتگردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کیلئے مستقل اور ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button