سانحہ منیٰ۔۔۔حادثے کی اوٹ میں عقیدے کی جنگ
تحریر: ساجد علی گوندل
حادثہ جتنا نقصان دہ ہوتا ہے اتنا ہی دلخراش بھی۔ حادثے کی تلخی اس وقت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے جب اس سے سازش کی بو آنے لگے۔ ان دنوں موسمِ حج میں عین بیت اللہ میں جو دلخراش حادثہ پیش آیا، اس نے پورے جہانِ اسلام کو غمگین اور افسردہ کر دیا ہے۔ حج ایک عظیم اسلامی فریضہ ہے کہ جو اسلام نے اپنے ماننے والوں پر چند مخصوص شرائط کے ساتھ فرض کیا ہے۔ حج ایک ایسی عظیم عبادت ہے کہ جس میں انسان اللہ کی خاطر اپنے گھر سے اللہ کے گھر کی طرف ہجرت کرتا ہے، یعنی حج خدا کی راہ میں ہجرت کرنے کا نام ہے، جبکہ خود لفظ حج قدیم لغت عرب میں مطلقاً سفر کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے، لہذا بعد میں اسلام نے مکّے کی طرف سفر کرنے اور وہاں چند مخصوص عبادات انجام دینے کو حج کا نام دیا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 20 لاکھ فرزندان توحید لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے حج کی نیت سے مکہ پہنچے، اس دوران مقام ابراہیم ؑ کے قریب ایک بہت بڑی کرین گرنے سے 107 افراد لقمہ اجل بنے اور 400 کے قریب زخمی ہوئے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے باوجود سعودی سلطان اور شہزادے کیوں خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوئے!؟ ہاں اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو جانیئے کہ سعودی سلطانوں اور وہابی نظریات کے ملاپ سے پوری دنیا میں طالبان اور داعش وغیرہ کے نام سے مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کے بعد اب حاجیوں کا قتلِ عام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ بادشاہت اور وہابیت کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے نہ کہ حادثہ۔ کرین والے حادثے کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ منیٰ میں بھگدڑ مچنے سے مزید سینکڑوں حجّاج شہید ہوگئے۔ ایک عرب روزنامے الدیار کے مطابق یہ واقعہ سعودی ولیعد محمد بن سلمان (کہ جو سعودی وزیر دفاع بھی ہیں) کے شاہی پروٹوکول کی وجہ سے پیش آیا۔ الدیار کے مطابق شہزادے کے ساتھ 200 فوجی و 150 کے قریب پولیس اہلکار تھے اور ان کی گاڑیوں کا مخالف سمت سے تیزی کے ساتھ آنا، سبب بنا کہ حاجیوں میں خوف و ہراس پیدا ہوا اور بھگدر مچی۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ اس وقت دنیا بھر کا میڈیا مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد بتانے میں مصروف ہے، جبکہ آلِ سعود کے عقائد و نظریات اور اس واقعے میں آل سعود کے کردار کا ذکر نہیں کیا جا رہا، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر دنیا میں غلطی سے بھی کوئی جانور کسی گاڑی سے ٹکرا کر مر جائے تو میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ گاڑی کی ٹکر سے مر جانے والے جانور کو بھی میڈیا میں کوریج ملتی ہے، ڈرائیور کا میڈیا ٹرائل ہوتا ہے، لیکن سعودی عرب میں سینکڑوں حاجیوں کو کرین کے گرنے اور شاہی پروٹوکول کے بہانے سے داعشی اور طالبانی و وہابی نظریات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور میڈیا اس بارے میں خاموش ہے۔
ہم یہاں پر یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ حجاج کرام کی شہادتوں کے پیچھے سعودی حکومت کے وہابی و سلفی عقائد کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہابی اپنے عقائد کی روشنی میں دیگر تمام مسلمانون کو کافر کہتے ہیں اور ان کے قتل کو واجب سمجھتے ہیں۔ اس لئے حج کے موقع پر مسلمانوں کے اتنے بڑے اجتماع پر شبخون مارنا ان کے نزدیک عین جہاد بھی ہوسکتا ہے۔ عالمِ اسلام کو جان لینا چاہیئے کہ داعشی و طالبانی عقائد کے مطابق اس طرح سے شان و شوکت کے ساتھ حج منعقد کرنا بھی بدعت ہے اور اس طرح عقیدت کے ساتھ خانہ کعبہ کی دیواروں کے گرد چکر لگانا بھی ایک طرح کا شرک ہے۔ سعودی عرب کے وہابی اس سے پہلے جنت البقیع جیسے کتنے ہی مقدس مقامات اور شام و عراق میں انبیا و اولیائے کرام کے مزارات کو مسمار کرچکے ہیں اور اس وقت بیت اللہ اور خصوصاً روضہ رسولﷺ کی رونق ان سے دیکھی نہیں جا رہی۔
اس وقت آلِ سعود نہ صرف یہ کہ اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہے بلکہ سعودی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی مفتی و شہزادے ایک دوسرے کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔ جمعے کی شب محمد بن نائف (جو نائب وزیراعظم و حج کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں) نے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ سے ملاقات کی ہے، جس میں مفتی اعظم نے شہزادے سے صاف الفاظ میں یہ کہا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا ہے، آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں، یہ چیزیں انسانی کنٹرول میں ہی نہیں ہیں۔ یعنی مفتی صاحب کے بقول حاجیوں کی ان شہادتوں کے پیچھے اللہ کی مرضی ہے۔ اس وقت مظلوم حاجیوں کا خون او آئی سی سمیت تمام مسلمان اداروں اور تنظیموں سے یہ اپیل کر رہا ہے کہ خدارا بیدار ہو جایئے، اس خونِ ناحق کو کرین کے پرزوں اور پروٹوکول کی گاڑیوں میں ڈھونڈنے کے بجائے شاہی خاندان کے وہابی و سلفی عقائد و نظریات میں ڈھونڈیئے۔ اگر ان مقاماتِ مقدسہ کو او آئی سی نے اپنی تحویل میں نہ لیا تو پھر داعش اور طالبان کے روحانی والدین یہاں مختلف بہانوں سے دیگر مسالک کے مسلمانوں کا خون بہاتے رہیں گے