مضامین

امریکی، سعودی تعلقات کی مختصر تاریخ

تحریر: عرفان علی

یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا اور بادشاہت سعودی عربیہ کے تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے قبل یہ نکتہ یاد رہنا چاہیے کہ دنیا پر امریکا سے قبل جو سامراج مسلط تھا، اس کا نام متحدہ بادشاہت تھا اور جسے اردو میں عرف عام میں برطانیہ کہا جاتا ہے۔ اس سامراج کے سعودی عرب کے ساتھ جو تعلقات تھے، تھوڑا سا تذکرہ اس کا بھی کر دیا جائے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد 2 نومبر 1925ء کو برطانوی سامراج کے نمائندہ کی حیثیت سے سر گلبرٹ کلیٹن Gilber Clayton نے آل سعود کے ساتھ حدہ ایگریمنٹ پر دستخط کئے۔ 20 مئی 1927ء کو برطانیہ کے مذکورہ نمائندہ نے جدہ میں دستخط کئے، جس میں برطانیہ نے مشروط طور پر عربستان نبویﷺ پر عبدالعزیز ابن سعود کا مکمل اور مطلق کنٹرول تسلیم کر لیا، جسے اس نے آزادی کا نام دیا تھا۔ شرط یہ تھی کہ ابن سعود بحرین سمیت خلیج فارس کے سامنے عرب علاقوں پر برطانیہ کی اسپیشل پوزیشن تسلیم کرلے، یعنی تو مرا حاجی بگو و من تورا حاجی بگویم۔

ممکن ہے کہ اس سارے عمل میں سینٹ جون بی فلبائی نامی صہیونی برطانوی کا کردار بھی ہو، جو 1917ء میں نجد گیا تھا اور 1926ء تک وہ جدہ میں سکونت اختیار کرچکا تھا۔ 1930ء تک اس نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ اسلام قبول کرچکا ہے۔ عبدالعزیز ابن سعود نے اسے اپنا خاص الخاص مشیر مقرر کیا۔ لارڈ ہمفرے اورلارنس آف عربیہ کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پھر برطانوی سامراج کے لئے ابن سعود نے کیا کیا خدمات انجام دیں اور اس کے عوض کیا کیا فوائد حاصل کئے، یہ بھی ایک دلچسپ حقیقی داستان ہے۔ اس کا تذکرہ پھر کبھی موقع ملا تو ضرور کیا جائے گا۔ اب آتے ہیں امریکا کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے بارے میں۔

ماہ ستمبر 2015ء کے اوائل میں جب سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز امریکی صدر باراک اوبامہ کی زیارت سے شرف یاب ہونے واشنگٹن تشریف لے گئے تو امریکا اور سعودی بادشاہت نے اپنے 70سالہ تعلقات اور دوستی کو مزید گہرا کرنے کا اعلان کیا۔ اگر ان تعلقات کو 1945ء سے شروع کیا جائے تو یہ ستر سال بنتے ہیں، لیکن امریکا سعودی عرب میں باقاعدہ طور 1933ء میں داخل ہوا تھا اور 1943ء میں تو امریکی افواج نے سعودی عرب میں فوجی اڈہ قائم کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا تھا۔ اس طرح یہ تعلقات ایک لحاظ سے بیاسی برس پر محیط ہیں تو فوجی و سفارتی لحاظ سے بھی بہتر سالہ تعلقات ہیں نہ کہ ستر سالہ۔ 29 مئی 1933ء کو امریکی تیل کمپنی اسٹینڈرڈ آئل کپمنی آف کیلی فورنیا نے سعودی بادشاہت کے مشرقی شیعہ نشین آبادی پر مشتمل علاقے میں تیل کی تلاش کے لئے 60 سالہ رعایت حاصل کی۔ 1934ء میں ٹیکساس کمپنی نے بھی اس کمپنی میں شمولیت اختیار کی تو ادغام کے بعد اس کا نیا نام عرب امریکن آئل کمپنی Aramco (عرامکو) رکھا گیا اور آج تک سعودی آئل کمپنی کا نام عرامکو ہی ہے۔

ٹیکساس کے نام سے امریکی صدور بش سینیئر اور جونیئر کے نام ذہن میں آتے ہیں اور ان کا آئل کمپنیوں سے تعلق اور پھر امریکی حکمران شخصیات اور سعودی شاہی خاندان کا اس کاروبار میں شراکت دار ہونا۔ یہ سب کچھ محققین نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ خاص طور پر نائن الیون کے حملوں کے بعد تو دنیا بھر میں یہ خبریں اور مضامین دلچسپی سے پڑھے گئے۔ جارج لینک زوؤسکی بھی مشرق وسطٰی کے امور پر لکھنے والوں میں ایک بڑا نام سمجھا جاتا ہے۔ 1915ء میں پیدا ہوئے اور سال 2000ء میں وفات ہوئی۔ انہوں نے دی مڈل ایسٹ ان ورلڈ افیئرز کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو پہلی مرتبہ 1952ء میں شایع ہوئی تھی اور اس کا چوتھا ایڈیشن شایع تو 1980ء میں ہوا، لیکن اس پے پیش لفظ میں تاریخ اپریل 1979ء کی تحریر کی گئی۔ اس مشہور سفارتکار، معلم اور پولیٹیکل سائنٹسٹ نے لکھا کہ 1943ء میں امریکی فوج کے سربراہ یعنی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی جانب سے فیصلہ کیا گیا کہ مشرق وسطٰی میں ایک فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جائے جو قاہرہ کو کراچی سے ملا دے اور اس طرح جاپان کے خلاف جنگ کے لئے اس سہولت کو استعمال کیا جائے۔

اس دوران اس نے ایران کے ساحلی شہر آبادان میں بھی اڈہ تعمیر کر لیا تھا، لیکن یہ روس کے لئے ٹرانزٹ اسٹیشن اور بھارت کے لئے اسٹاپ اوور جیسے اہداف کی تکمیل کے لئے تھا۔ آبادان ایئر فیلڈ کو جرمنی سے جنگ پر خاتمے کے وقت خالی کرنا تھا، اس لئے خلیج فارس کی عرب ریاست میں ایک اور اڈہ ضروری تھا۔ فیصلہ یہ تھا کہ سعودی بادشاہت کے زیر تسلط علاقے ظھران (Dhahran) میں امریکی فوجی اڈہ قائم ہو کہ جہاں سے آرامکو کے تیل کے کنویں اور دیگر تنصیبات نزدیک واقع تھے۔ سعودی بادشاہ سے مذاکرات کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ دسمبر 1943ء میں امریکی فوجی کمانڈر برائے مشرق وسطٰی میجر جنرل رالف روائس قاہرہ سے ریاض پہنچا، جہاں عبدالعزیز نے اس کا استقبال کیا۔ 1944ء میں اس جنرل کے نمائندہ خصوصی ہیرولڈ ہوسکنز نے سعودی دورہ کیا۔

امریکا جدہ میں اپنا نیابتی سفارتی دفتر legation پہلے ہی مستقل بنیادوں پر قائم کرچکا تھا۔ اس کے ذریعے بھی سعودی بادشاہت سے خط کتابت کا سلسلہ جاری تھا۔ اس پورے عمل کے نتیجے میں طے پایا کہ امریکا جو فوجی اڈہ تعمیر کرے گا، وہ تین سال استعمال کرکے سعودیوں کے حوالے کر دے گا۔ 1944ء میں امریکی فوجیوں اور ان کے اطالوی جنگی قیدیوں نے اس اڈے کی تعمیر شروع کی جو 1946ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ یہ اڈہ آبادان اور قاہرہ کے Payne ایئر فیلڈ سے زیادہ امریکا کے لئے کارآمد تھا، لہٰذا سعودی زیر تسلط علاقے میں
اڈے کے بعد مذکورہ دونوں جگہوں پر اڈوں کی ضرورت نہیں رہی تھی، کیونکہ یہ امریکا کے دشمنوں سے آزاد علاقے میں سب سے بڑا اور بہترین سہولیات سے مزین تھا اور اس کو مزید وسعت بھی دی جاسکتی تھی۔ اس اڈے سے پہلے امریکا تنہائی کا شکار تھا۔ امریکی کانگریس کے دو نمائندے بھی حیران تھے کہ یہ کس نوعیت کی سرمایہ کاری کی جا رہی تھی۔ اس سے قبل 1942ء میں سعودی بادشاہ نے زرعی شعبے میں امریکی مشن بھیجنے کی درخواست کی تھی۔
فروری 1945ء کے ویلنٹائن ڈے پر امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کوئنسی نامی بحری بیڑے پر سوار مصر کی سمندری حدود میں آیا اور سعودی بادشاہ عبدالعزیز بن سعود نے اپنے خاندان اور قابل اعتماد ساتھیوں کے ساتھ کوئنسی پر جا کر امریکا کے ساتھ اعلانیہ تعلقات کی تاریخ شروع کی۔ اسلام میں ویلنٹائن ڈے کی حیثیت کوئی نہیں، لیکن امریکا اور سعودی عرب نے 1945ء میں اس دن کو اپنے خفیہ معاشقہ کو آشکار کرنے کے لئے مناسب دن تصور کیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو آئی لو یو کہہ ڈالا۔ اس لحاظ سے یہ تعلقات 70 برس کے ہوچکے ہیں۔ اس تاریخی ملاقات کی تاریخ اس وقت کے امریکی سفارتکار ولیم ایڈی نے ایک کتاب میں بیان کی ہیں۔ F.D.R meets Ibn Saud کے عنوان سے لکھی گئی یہ کتاب بھی چشم کشا حقائق پر مشتمل دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پر آئندہ کبھی بات ہوگی۔ بس یہ اہم ترین جملہ یاد رکھیں کہ سعودی سلطنت کے بانی نے اپنے بیٹوں، خاندانی افراد اور قابل اعتماد ساتھیوں کو یہ کہہ کرجمع کیا تھا کہ عمرہ کی ادائیگی کرنے جا رہے ہیں، لیکن انہیں جدہ کی بندرگاہ لے جایا گیا اور وہاں سے کوئنسی بحری جہاز تک۔ کیا یہ اس نوعیت کا پہلا عمرہ تھا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button