مضامین

لاپتہ حاجی آخر کہاں گئے ؟

ترتیب: ایس این حسینی

زائرین کے لئے انتظامات، سعودی عرب اور عراق کا موازنہ
بیشک ہر سال حج کے موقع پر حاجیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، اور یہ تعداد بیس سے لیکر تیس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اتنی بڑی تعداد کے لئے انتظامات کرنا کچھ آسان کام نہیں۔ حرم کعبہ اور مسجد نبوی کے حدود میں کافی توسیع کی جاچکی ہے۔ اسکے باوجود اگر غور کیا جائے تو انتظامات کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور جب اسکا موازنہ ایران میں حرم امام رضا علیہ السلام تو کیا عراق میں موجود حرم امام حسین علیہ السلام سے کیا جائے تو انکے مقابلے میں یہ سب کچھ ہیچ نظر آئے گا۔
ذرا غور کریں، محرم اور اربعین کے موقع پر دنیا بھر سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں زائرین عراق پہنچ جاتے ہیں۔ پچھلے سال زائرین کی تعداد کا اندازہ دو کروڑ لگایا گیا تھا۔ یعنی حاجیوں کے دس گنا۔ اسکے باوجود دہشتگردی کے علاوہ کوئی خاص واقعہ آج تک یہاں رونما نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح شہادت اور میلاد کے خصوصی ایام میں دنیا بھر خصوصا ایران، عراق ، پاکستان اور انڈیا سے لاکھوں افراد ایران کے شہر مشہد میں موجود حرم امام رضا پر حاضری دیتے ہیں۔ لیکن آج تک کوئی ناخوشگوار واقعہ سامنے نہیں آیا۔

سعودی غفلت
جبکہ سعودی عرب میں حج کے مواقع پر تقریبا ہر سال کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ضرور رونما ہوتا ہے۔ اس سال تو ایک نہیں بلکہ دو نہایت دلخراش سانحے رونما ہوئے۔ اور دونوں کو کوئی بیرونی سازش، دہشتگردوں کا منصوبہ یا الٰہی آفت بھی قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ دونوں حادثات بادشاہ سلامت کی غفلت اور بدانتظامی کی وجہ سے رونما ہوئے۔

سعودی اور پاکستانی اعداد و شمار میں تضاد
حکومتِ پاکستان کی جانب سے منیٰ حادثے کے متاثرین سے متعلق معلومات فراہم کرنے والی ہیلپ لائن کے مطابق منیٰ حادثے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی کل تعداد 57 ہو گئی ہے۔ وزارتِ حج کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار کے مطابق سعودی حکام نے اب تک فقط 26 پاکستانیوں کی جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ 31 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کے بارے میں ان کے اہلِ خانہ یا عینی شاہدین نے بتایا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 110 پاکستانی لاپتہ ہیں۔ جبکہ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ 292 لاپتہ حاجیوں کا پتہ لگا لیا گیا ہے۔

حاجی صاحبان کے تاثرات
حج سے لوٹنے والے بعض افراد سے انکے تاثرات پوچھے گئے ہیں، جنہیں من و عن انہی کے الفاظ میں قارئین تک پہنچایا جارہا ہے ۔
حج پر جانے والے لاہور کے گرین ٹاؤن کے حاجی محمد عارف کی رحلت کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے لیکن ان کے گھر میں ان کی مغفرت اور ایصالِ ثواب کے لیے دعا ہو رہی ہے جبکہ کراچی کورنگی ٹاؤن کے میر زمان کے بیٹے وزٹ ویزے پر سعودی عرب جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں تاکہ وہاں جا کر اپنے خاندان کے افراد کی تلاش کرسکیں اور پتہ لگا سکیں کہ کیا وہ زخمی ہیں یا منیٰ حادثے میں جاں بحق ہوچکے ہیں؟
دورانِ حج منیٰ کا واقعہ پیش آنے کی وجوہات کیا تھیں اس بارے میں سعودی حکومت کی تحقیقات سامنے آنا ابھی باقی ہیں۔ مگر ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد اب سوال حادثے کی نوعیت کی بجائے لاشوں کی شناخت میں ورثا کو پیش آنے والی مشکلات کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور سعودی تعاون پر اٹھائے جا رہے ہیں۔ اب تک حتمی طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ سعودی عرب کے سرد خانوں میں کتنے افراد موجود ہیں اور ہسپتالوں میں کتنے زیرِ علاج ہیں۔ اب تک کی تفصیلات کے مطابق اس واقعے میں سب سے زیادہ جانی نقصان ایرانی حجاج کا ہوا، صدائے اسلامی جمہوریہ ایران کے اردو چینل ‘‘سحر’’ کے مطابق ایرانی شہداء کی تعداد 464 ہوگئی ہے۔ ادھر اسلامی جمہوریہ ایران نے سعودی عرب سے انتظامات میں غفلت برتنے پر معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

لاپتہ ایک اور حاجی، محمد عارف کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود انھیں اپنے شوہر کی لاش کی شناخت کے لیے سرد خانے نہیں لے جایا گیا اور پھر سعودی حکومت کا خصوصی اجازت نامہ لے کر وہ محرم کے بغیر وطن لوٹنے پر مجبور ہوئیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ بے ہوشی کے بعد جب میں اٹھی تو وہاں بہت سی لاشیں تھیں، اپنے خاوند کے نمبر پر تین دن تک فون کرتی رہی لیکن کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ اور اب تک کسی لسٹ میں ان کا نام نہیں ہے۔ پریشانی اس پر نہیں کہ حاجی صاحب شہید ہوئے ہونگے، بلکہ پریشانی اس پر ہے کہ زخمی یا شہید نہیں تو آخر وہ گئے کہاں؟ زمین کھاگئی یا آسمان پرتشریف لے گئے؟
حکومتِ پاکستان کی وزارتِ حج اپنے کمرشلائزڈ حج پیکج کی وجہ سے تنقید کی زد میں تو ہے ہی، لیکن متاثرین اس معاملے میں حکومتِ پاکستان کی بے بسی کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ متاثرین کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ ہم خود تو بے بس ہیں۔ امید ایک جگہ ملکے کا حج انتظامیہ ہے، وہاں کا بار بار چکر لگانے کے باوجود ہمیں کوئی تسلی بخش بات نہیں کی جاتی۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ بے چارے بھی ہماری طرح بے بس ہیں۔
جمعرات کو پاکستان پہنچنے والے ایک حج آپریٹر نے جن کے گروپ میں سے ایک خاتون کی لاش کی شناخت ہوگئی تاہم دوسری لاپتہ خاتون کی تلاش کے لیے ان کے داماد کی کوئی کاوش کامیاب نہیں ہوسکی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سعودی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا، جبکہ بظاہر یہ ت
اثر دیا جا رہا ہے کہ مسئلہ سب کچھ حل ہوگیا ہے۔
انکا کہنا تھا، مجھے سرد خانوں میں جانے کا اتفاق بھی ہوا، مرکزی سرد خانے کا نام میسن سواری ہے، سرد خانے میں فریزرز اور سبیل کے لیے خصوصی کنٹینرز میں لاشیں رکھی گئی ہیں، سعودی حکومت نے پہلے 500 تصاویر لگائی تھیں اور اس کے بعد مزید 500 تصاویر لگائی گئیں۔

جب اس حادثے میں محفوظ رہ جانے والے ححاج سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ 11 ستمبر (نائن الیون) کو کرین حادثے اور اس کے بعد منیٰ حادثے کی خبریں آنے پر سعودی میڈیا پر بلیک آؤٹ رہا۔ انھیں یا تو وہاں چلنے والے پاکستانی ٹی وی چینلز سے یہ خبر موصول ہوئی یا فون پر رشتہ داروں سے۔
محمد رفیع نامی ایک حاجی اور ان کی اہلیہ نے شکایت کی کہ حجاج کرام کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ٹرینوں اور بسوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ افراد کو ٹھونسا جاتا ہے۔ حالانکہ ہر حاجی سے انکے ہر سفر کا پورا پورا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی بیمار یا فوت ہوجائے تو اس کے ساتھ موجود کسی شخص کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اسے کہاں لے کر جا رہے ہیں۔ بار بار رابطہ کرنے پر بھی کوئی تفصیل نہیں بتائی جاتی۔
کراچی سے مکہ جانے والے پانچ افراد کے قافلے میں شامل دو افراد تلمیز احمد اور افتخار احمد کو مکہ کے المعصم نامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا تاہم ان کے اہلِ خانہ ان کی تلاش میں ہسپتالوں اور مردہ خانوں کے چکر اب بھی کاٹ رہے ہیں کیونکہ اب تک جاری ہونے والی 1100 افراد کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں۔

 

شہداء میں نصف سے زیادہ تعداد ایرانی حجاج کی
سعودی حکام کی جانب سے اعلان کردہ اعداد شمار کو دنیا بھر میں شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ منٰی واقعے میں 769 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ جاری ہونے والی 1100 افراد کی فہرست میں کرین حادثے کے ہلاک شدگان بھی شامل ہیں۔ جبکہ سعودی اعداد و شمار کے مطابق کرین حادثے میں کل 107 حاجی جاں بحق ہوگئے تھے۔ ذرا غور کیا جائے تو اس اعداد وشمار میں بھی کافی تضاد معلوم ہورہا ہے، تاہم سعودی اعداد و شمار کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو نتیجہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں نصف سے زیادہ تعداد ایرانی حجاج کی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button