مضامین

امریکہ نے دہشتگردی کیسے ایجاد کی؟

تحریر: عرفان علی

 

ریاست ہائے متحدہ امریکہ (یو ایس اے) پر موجودہ تکفیری دہشت گردی ایجاد کرنے کا الزام لگتا آیا ہے۔ کیا یہ الزام غلط ہے؟ اس پر عالمی سطح پر کئی آراء موجود ہیں۔ جہاں تک امریکہ پر دہشت گردوں کو ایجاد کرنے اور ان کے ذریعے اپنے مذموم اہداف حاصل کرنے کی بات ہے تو اس پر اسلامی دنیا کی رائے عامہ متفق ہے اور اس حقیقت کی تردید نہیں کی جاسکتی۔ مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں جو اختلاف رائے ہے، وہ امریکہ کے اتحادی حکمرانوں اور غیر ریاستی گروہوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے پر ہے۔ یہ اختلاف بھی مسلکی تعصب کا نتیجہ ہی ہے، ورنہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرست امریکی اتحادی ممالک کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لارڈ ہمفرے اور لارنس آف عربیہ کے ذریعے عالم اسلام میں تکفیریت اور اور عالم عرب میں سامراجی ایجنٹ حکومتوں کے بیج امریکہ کے پیش رو عالمی سامراج برطانیہ نے بوئے تھے۔ امریکی سامراج اسی کا تسلسل ہے۔ چونکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اب جو دہشت گردی ہو رہی ہے، اس کا تعلق افغانستان سے جوڑا جاتا ہے تو بہتر یہی ہے کہ افغانستان سے ہی بات شروع کی جائے۔

1978ء میں ایلن وولفے Alen Wolfe نامی جاسوس امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی کے مشرق قریب و جنوبی ایشیا ڈویژن کے سربراہ تھے۔ واشنگٹن پوسٹ میں افغانستان کی تصویر شایع ہوئی، جس میں سوویت نواز پارٹی نے جھنڈا لہرا رکھا تھا۔ ایلن وولفے امریکہ میں بیٹھ کر بڑ بڑا رہا تھا کہ افغانستان کو سوویت یونین کی حامی جماعت کے کنٹرول میں نہیں جانے دیا جائے گا۔ اس نے اسلام آباد میں سی آئی اے کا اجلاس طلب کیا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے محفوظ بریفنگ روم میں خفیہ اجلاس ہوا۔ اس کی مختصر روداد سی آی اے کے ہی ایک اور افسر گیری ایس اسکروئن نے اپنی تصنیف کردہ کتاب فرسٹ ان میں بیان کی ہے۔ ایلن وولفے نے اس اجلاس میں سی آئی اے کے افسران اور اہلکاروں کو ہدایت کی کہ :You will recruit assets in every Mujahideen Group یعنی مجاہدین کے ہر گروپ میں سی آئی اے اپنے افراد بھرتی کرے گی۔ دیگر ہدایات یہ تھیں کہ ان افراد کی ہر ضرورت پوری کی جائے اور جو مدد درکار ہے انہیں فراہم کی جائے۔

یہاں ایک اہم نکتہ یاد رہے کہ افغانستان میں سوویت مخالف اسلام پسند رہنما جدوجہد میں مصروف تھے اور وہ اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط یا اثر و رسوخ میں دینے کے مخالف تھے۔ یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ سوویت یونین کی افواج افغانستان میں دسمبر 1979ء میں داخل ہوئی تھیں، لیکن سی آئی اے نے افغانستان کی اسلامی جدوجہد کو ہائی جیک کرنے کی منصوبہ بندی پہلے سے کر رکھی تھی۔ پھر احمد رشید سمیت بہت سے لکھنے والوں نے یہ نکتہ لکھا کہ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد افغانستان کا ٹھیکہ امریکہ نے سعودی عرب اور پاکستان کو دے دیا تھا، یعنی یہ دو ممالک امریکی مفادات کو دیکھیں۔ یہی بات جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد نے سہیل وڑائچ کو یوں بیان کی کہ چونکہ پاکستان امریکہ اور مغربی ممالک کے زیر اثر تھا، لہٰذا طالبان بھی ان کی مرضی کے خلاف تو نہیں بنائے گئے ہوں گے۔

طالبان کے بارے میں خود طالبان کے حامی ہفت روزہ تکبیر نے مارچ 1995ء کے شمارے میں برطانوی ہائی کمیشن کا کردار تحریر کیا تھا اور اسی میں ایک مخصوص مسلک کی نیم مذہبی نیم سیاسی جماعت کے رہنماؤں کو رقم کی ادائیگی کا انکشاف بھی کیا گیا تھا۔ طالبان میں بھی وہی افراد بھرتی ہوئے جنہوں نے افغانستان کی سوویت مخالف جنگ میں اسلام پسند جماعتوں اور گروہوں کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تھا۔ ان میں سے ملا عمر کا تعلق یونس خالص گروہ سے جوڑا جاتا ہے۔ امریکی حکمران اداروں کے لئے خدمات انجام دینے والے بروس رڈل نے اپنی کتاب ڈیڈلی ایمبریس میں نیو یارک ٹائمز کی کارلوٹا گال کی خبر کی بنیاد پر لکھا کہ ملا عمر کو بھی افغان جہاد کے دوران تربیت دی گئی تھی۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے اسے امریکی سی آئی اے کا تربیت یافتہ قرار دینے کی بجائے پاکستانی ٹریننگ کیمپ کا تربیت یافتہ قرار دیا۔

بہر حال اس افغان جنگ میں امریکی سی آئی اے اور سعودی عرب ماسٹر مائنڈ تھے اور جنرل ضیاء ان کے ماتحت۔ لیکن طالبان دور کو سعودی بادشاہت اور امریکی سامراج نے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا ہے، تاکہ پاکستانی ریاستی ادارے تنہا اس الزام کی بدنامی کا داغ سہیں۔ جس کارلوٹا گال کی بات ہوئی، یہ افغانستان و پاکستان کے لئے نیو یارک ٹائمز کی بیوروچیف تھیں اور پاکستانی ریاستی ادارے کی جانب سے ناپسندیدہ قرار دی گئی تھیں، کیونکہ وہ پاکستان کے ایک اہم ادارے کے خلاف خبریں دیا کرتی تھیں۔ طالبان میں ایک گروہ سابق کمیونسٹوں کا بھی تھا، جن کی سربراہی سابق افغان صدر نجیب اللہ کے دور کا وزیر دفاع جنرل شاہنواز تنائی کیا کرتا تھا۔ ان کلین شیو کمیونسٹوں نے ڈاڑھیاں رکھ لیں تھیں اور ان کی مدد کرنے کے لئے پاکستان سے ایک مخصوص مسلک کے پیروکاروں کو آزاد چھوڑا گیا۔ ان مدد کرنے والوں میں مولانا سمیع الحق کے کردار کے بارے میں کرسٹینا لیمب نے ایک کتاب میں بہت کچھ لکھا ہے اور دعویٰ یہ کیا کہ سمیع الحق نے خود انہیں بتایا کہ ملا عمر ان سے رائے بھی لیا کرتا تھا۔ بعض دیگر فضل الرحمان کی جماعت کے بارے میں بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔

بات شروع ہوتی ہے ایلن وولفے کے کردار سے کہ مجاہدین کے ہر گروہ میں سی آئی کے assets بھرتی کئے گئے اور آج تک ان ک
ے نام اور ان کی ’’خدمات‘‘ کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ جون کے کولے نامی امریکی صحافی و دانشور نے اپنی کتاب ان ہولی وارز میں دنیا بھر سے مسلمانوں کو لڑنے کی تربیت دینے کے لئے افغانستان بلوانے کی تفصیل بیان کرکے اس پوری سازش کو عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا، لیکن اگر ان کے نام بھی نشر ہو جاتے تو نئے ایجنٹ بھرتی کرنا مشکل ہو جاتا۔ امریکہ نے نائن الیون حملوں کے بعد افغانستان میں جنگ کی اور یہاں سے دہشت گردوں کو عراق منتقل کر دیا۔ گیری اسکروئن کی فرسٹ ان کتاب میں لکھا ہے کہ مارچ 2002ء میں امریکی فوج کے اہم یونٹس دستبردار ہوگئے اور ان کی ٹیم کو عراق جنگ کی تیاری کے لئے نئی تربیت کے لئے واپس بلوا لیا گیا۔ عراق جنگ 2003ء کے مارچ میں ہوئی، بالکل اسی طرح جیسے سوویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے سے ایک سال قبل سی آئی اے نے سوویت نواز افغانیوں کے مقابلے میں اپنے پیادہ اتارنے کی حکمت عملی وضع کی تھی۔

اسامہ بن لادن اور ان کی القاعدہ کے بارے میں بھی جان لیں کہ انہیں سعودی بادشاہت نے دریافت کیا تھا۔ ان کے والد بھی سعودی بادشاہوں کے منظور نظر ٹھیکیدار تھے اور ان کی جانشینی پر فائز اسامہ کے بڑے بھائی سالم بن لادن شاہ فہد کے خاص آدمی تھے۔ اسامہ کو 1979ء میں سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ ترکی ال فیصل نے سی آئی اے کی خفیہ افغان پالیسی کا مشن سونپ دیا تھا۔ سالم بن لادن اسامہ کو پیسے دیا کرتے تھے۔ براہ راست تربیت کے مراحل کے بعد القاعدہ کے نئے فائٹرز کی تربیت کے جو مراحل 1987ء سے 1998ء تک جاری رہے، اس میں ٹریننگ دینے والی اہم شخصیت مصری نژاد علی محمد کی تھی، جو امریکی فوج کے افسر تھے۔ علی محمد جون کینیڈی اسپیشل وار فیئر سینٹر میں امریکی فوجیوں اور خفیہ اسپیشل فورسز کے افراد کو بھی ٹریننگ دیا کرتے تھے۔ کیا وہ امریکی آشیرباد کے بغیر ایسا کرسکتے تھے، تا آنکہ 1998ء میں ان کی گرفتاری کا ڈرامہ رچایا گیا۔ طالبان دور میں سیٹلائٹ فون وغیرہ بھی امریکی کمپنی ہی کے فراہم کردہ تھے۔ یہ تفصیلات اسٹیو کول کی کتاب دی بن لادنز اور تھی ایری میسان کی تحقیق نائن الیون، بڑا جھوٹ میں تحریر ہیں۔

امریکہ اور اقوام متحدہ میں طالبان کے حق میں بولنے والی لیلٰی ہیلمز کا شوہر امریکی سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز کا بھتیجا تھا۔ یہی رچرڈ سعودی و بش کاروبار میں ایک شراکت دار بھی تھا۔ پاکستان کے موجودہ مشیر وزیراعظم برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نواز شریف کی دوسری حکومت میں وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب Between Dreams and Realities میں لکھا کہ ہزاروں رضاکاروں کو لڑنے کی تربیت دینے کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان اور پاکستان میں سینکڑوں مدارس قائم کئے۔ سی آئی اے کی سازشیں اس قدر خفیہ ہوتی ہیں کہ دیگر حکومتی ادارے اور شخصیات بھی اس سے لاعلم رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ولیم آر پولک 1960ء کے عشرے میں دفتر خارجہ کی پالیسی پلاننگ کاؤنسل برائے عراق کے رکن تھے، لیکن انہیں بھی عبدالکریم قاسم کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش سے سی آئی اے نے لاعلم رکھا۔ 8 فروری 1963ء کو بعثی عناصر نے تختہ الٹا تھا۔

عراق میں بعثی عناصر ہی نے داعش اور اس جیسے دیگر تکفیری گروہوں کی نقاب اوڑھ رکھی ہے۔ القاعدہ بھی ان میں سے ایک ہے، کیونکہ اصل آقا ان سبھی کا امریکہ ہی ہے۔ عراق کی نئی انٹیلی جنس ایجنسی میں بھی انہی کو اہم عہدے امریکہ نے دلوائے۔ پھر امریکہ اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ دہشت گردی ختم نہیں ہوئی۔ جب عراق سے دہشت گرد شام، لیبیا اور لبنان سمیت پورے عرب و عجم کے اسلامی ممالک میں امریکی و اتحادی حکمرانوں کی سرپرستی میں پھیلا دیئے گئے ہیں تو دہشت گردی کیسے ختم ہوسکتی ہے۔ ہیلری کلنٹن نے صرف شام اور افغانستان کے دہشت گردوں کی ایجاد کا اعتراف کیا ہے۔ یہ جزوی سچ ہے، مکمل سچ یہی ہے کہ دہشت گردی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ہی کا جوائنٹ وینچر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button