دہشت گردوں کی خریداری کے لئے سعودی عرب کا تباہ کن کردار
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے دورہ ریاض میں اس ملک کے شاہ سلمان اور وزیر خارجہ عادل الجبیر سے ملاقات میں، علاقے کی حالیہ تبدیلیوں خاص طور سے فلسطین اور بحران شام کے بارے میں گفتگو کی۔ جان کیری نے ہفتے کی شام سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر اور پھر اس ملک کے شاہ سلمان سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات، شام کے بارے میں ویانا میں چار فریقی مذاکرات کے بعد ہوئی۔ ویانا میں جمعے کے روز امریکہ، روس، سعودی عرب اور ترکی کے وزارئے خارجہ کے درمیان بحران شام کے حل کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ ان مذاکرات میں گفتگو کا سلسلہ جاری رکھے جانے سے اتفاق کیا گیا تاہم ان کے درمیان شام کے صدر بشار اسد کے مستقبل کے حوالے سے کوئی اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد سعودی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ بحران شام کے سیاسی حل کے سلسلے میں امریکہ اور سعودی عرب کے نظریات، ایک جیسے ہیں۔
عادل الجبیر نے ایک بار پھر شام کے امور میں مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے مستقبل میں بشار اسد کا کوئی مقام نہیں ہے اور امریکہ اور سعودی عرب، اس بارے میں مشترکہ مواقف رکھتے ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ نے بحران شام کے سیاسی حل کی راہ میں رخنہ اندازی کے مقصد سے، یہ دعوی بھی کیا کہ ایران، عرب ملکوں منجملہ شام کے امور میں مداخلت نیز دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے۔
عادل الجبیر نے دہشت گردوں کی کھلی حمایت اور شام سے شمالی افریقہ تک رونما ہونے والی تبدیلیوں میں اپنے ملک کے تباہ کن اور منفی کردار کی پردہ پوشی کےلئے، یہ دعوی بھی کیا کہ ایران کا کردار، ایسا نہیں ہے کہ وہ، علاقے میں امن و استحکام کی برقراری میں شریک ہوسکے۔
ویانا میں چار فریقی مذاکرات کے بعد سعودی مواقف سے، اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بشار اسد کے مخالفین کا محاذ، بحران شام کے سیاسی حل کی کوشش کرنے والوں اور دہشت گردی کا حقیقی طور پر مقابلہ کرنے والوں کے مکمل مقابلے میں ہے۔
ایران اور روس، شام میں دہشت گردی کے خاتمے کو اس ملک کے بحران کے سیاسی حل کے پہلے مرحلے میں داخل ہونے کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں اس لئے کہ بشار اسد کی فوج، دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں ایک موثر اور کارآمد فوج رہی ہے جو ہر طرح سے استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
بحران شام کے سیاسی حل کے حوالے سے روس اور ایران کے مواقف، مشترکہ رہے ہیں اور وہ، شام میں بشار اسد کے اقتدار میں باقی رہنے یا نہ رہنے کو اس ملک کے عوام سے متعلق ایک مسئلہ سمجھتے ہیں جبکہ سعودی عرب، ترکی اور امریکہ، بحران شام کے حل سے قبل بشار اسد کی اقتدار سے علیحدگی کو ضروری قرار دے رہے ہیں اور یہ مسئلہ، اس عرب ملک کے داخلی امور میں مداخلت، نیز شام کو تباہ کرنے میں دہشت گردوں کی بھرپور حمایت کرنے کے مترادف ہے۔
شام میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اس ملک کی حکومت کا تحفظ کرنا ایک ضروری امر ہے اور اس ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے بعد بھی، یہ اختیار، صرف شامی عوام کو حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں شرکت کرکے بشار اسد کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں۔
سعودی عرب اور اس کے حامی ممالک منجملہ امریکہ، بحران شام میں ہار جیت کے درپے ہے جبکہ ایران اور روس، منطقی طریقہ اختیار کرکے فریقین کی فتح کی کوششیں کر رہے ہیں۔
شامی عوام کی رائے نظر انداز کرکے، شام کے اقتدار سے اس ملک کے صدر بشار اسد کو ہٹانے کا مسئلہ، صرف سعودی عرب اور اس کے حامیوں تک محدود ہے۔اور ان کا یہی طریقہ، شام اور پورے علاقے میں دہشت گردی کے فروغ پر منتج ہوا ہے۔
یمن میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت بھی اسی پالیسی کے دائرے میں ہے اور آل سعود اور اس کے حامی، یمن کے سیاسی میدان سے اس ملک کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ عالمی برادری اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم و تعمیری کردار کو درک کرتے ہوئے ہی، شام سے یمن تک، مشرق وسطی کے مختلف مسائل میں ایران کی زیادہ سے زیادہ شراکت اور اس کے بھرپور کردار کی خواہاں ہے۔