فلسطین کا تیسرا انتفاضہ اور اسلامی بیداری کا تسلسل
تحریر: ہادی محمدی
سماجی و اجتماعی تحریکوں اور تبدیلیوں کو مختلف پہلووں سے پہچاننا انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ نقطہ نظر، عملکرد، کارفرما موثر عوامل، محرکات اور معرض وجود میں لانے والے عوامل، اصلی سرگرم عناصر، استحکام اور سماجی و سیاسی حالات پر اثر انداز ہونا، مشابہ تحریکوں سے مشترکہ نکات اور اختلافات وہ اہم نکات ہیں جن پر توجہ دینا ہر سماجی تحریک اور تبدیلی کے مطالعے میں انتہائی ضروری ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں گذشتہ چند روز کے دوران پیش آنے والے واقعات کو تیسری انتفاضہ یا ایک بڑی انتفاضہ کا مقدمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ انتفاضہ بیت المقدس سے شروع ہوئی ہے اور بتدریج مغربی کنارے، غزہ اور 1948ء کی فلسطینی سرزمین پر پھیلتی جا رہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں شروع ہونے والی اس تحریک کی نوعیت کیا ہے اور اسے کس قسم کی تحریکوں میں شامل کرنا چاہئے؟
مظلوم فلسطینی عوام نے برطانوی استعمار کے ابتدائی دور سے ہی اور اس کے بعد صہیونی رژیم کے غاصبانہ قبضے کے دوران ہمیشہ سے مقدس فلسطینی سرزمین کی آزادی کیلئے جدوجہد کی ہے اور اپنی تحریک کے ہر مرحلے میں جہاد کے طریقہ کار کے بارے میں بھی غور و فکر کیا ہے اور ایک مخصوص طریقہ کار اپنا کر اس کا تجربہ کیا ہے۔ اگرچہ ابتدا میں فلسطینیوں کی جدوجہد کا انداز بے ساختہ اور اجتماعی سرگرمیاں خودبخود انجام پاتی تھیں، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی صورتحال اور دو قطبی نظام سے متاثر ہوتے ہوئے فلسطینی عوام نے بھی اپنی جدوجہد کو منظم کرنا شروع کر دیا اور اپنی جہادی سرگرمیوں کیلئے بائیں بازو والی تحریکوں کو اپنا رول ماڈل بنایا۔ اسی طرح علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی بائیں بازو کے بلاک میں شامل ہوگئے۔ فلسطینی قوم نے کچھ عرصہ بعد محسوس کیا کہ یہ طریقہ کار مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے زیادہ مفید نہیں، لہذا "عرب نیشنل ازم” نامی ایک نئی موج سے متاثر ہوئی اور اس کے پرچم تلے اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔
1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور عالمی سطح پر ایک نیا اسلامی نظریہ متعارف کروایا۔ ایران میں کامیاب ہونے والے اسلامی انقلاب نے مشرق وسطٰی میں بھی ایک نئی نظریاتی فضا قائم کر دی، جس کی بنیاد اسلام پسندی اور اسلام محوری پر استوار تھی۔ فلسطین میں سرگرم جہادی عناصر بھی اس انقلاب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور مقبوضہ فلسطین میں سرگرم اسلامی گروہوں نے اپنی جدوجہد کو مزید تیز کر دیا۔ اس طرح فلسطین میں اسلام پسند عناصر اسرائیل مخالف جدوجہد کا مرکز و محور بن گئے اور انہوں نے معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ یعنی ہر مرحلے میں عوامی نقطہ نگاہ، جدوجہد کے ذرائع اور طریقہ کار، مفید اور اہم ہونے اور نتیجہ بخش ہونے کے لحاظ سے ان کا جائزہ لیا گیا اور گذشتہ تجربات کی روشنی میں نئے مرحلے میں جدید طریقہ کار اور حکمت عملی اپنائی گئی۔ یہ مرحلہ وار تبدیلی اور جہادی تجربات کا ذخیرہ کھلی آنکھوں اور معقول دلائل کی روشنی میں انجام پائے ہیں اور ہر مرحلے میں اخذ کئے گئے جدید طریقہ کار اور نقطہ نظرات کا اصل مقصد جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور مفید بنانا تھا۔ لہذا غاصب صہیونی رژیم کے خلاف فلسطینی جدوجہد کا ہر مرحلہ عملی اقدامات کی نوعیت، جدوجہد کے طریقہ کار، اندرونی و بیرونی روابط اور موثر عوامل کے لحاظ سے گذشتہ مراحل سے مختلف ہے۔
آج ہم جس صورتحال کا فلسطین میں مشاہدہ کر رہے ہیں، وہ ایک دھماکہ خیز احتجاجی تحریک ہے، جو فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے فلسطینی سرزمین کے ہر شہر اور قصبے میں شروع کی گئی ہے۔ اس تحریک میں شامل افراد ہر قسم کی سیاسی گروہ بندی سے بالاتر ہو کر جدوجہد میں مصروف ہیں۔ فلسطینی جماعتیں یا تو تاخیر کے ساتھ اس احتجاجی تحریک سے ملی ہیں اور یا پھر فلسطین اتھارٹی اور فتح آرگنائزیشن کی طرح بالکل اس احتجاجی تحریک سے لاتعلق ہیں۔ یعنی اس نئی فلسطینی انتفاضہ کا آغاز کرنے والے اور روح رواں کسی سیاسی جماعت یا گروہ کا حصہ نہ تھے، بلکہ عام فلسطینی نوجوان تھے اور فلسطین کی سیاسی جماعتیں بعد میں اس تحریک میں شامل ہوئیں۔ اس عظیم احتجاجی تحریک کا روح رواں ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے پہلی اور دوسری انتفاضہ کو نہیں دیکھا اور اس میں شامل نہ تھے۔ یہ نوجوان فلسطینی قوم کی تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جو اسلام پسندی کے مرحلے کے بعد جدوجہد کے میدان میں وارد ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے پاس اسلحہ کے طور پر "غلیل” اور "چاقو” ہے اور انہوں نے غاصب صہیونیوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ صہیونی حکام اور عالمی استعماری قوتیں ان نوجوانوں کو اچھی طرح نہیں جانتی اور ان کے طریقہ کار سے بھی ناواقف ہیں۔ اگر گذشتہ دو انتفاضہ میں فلسطین کی سیاسی جماعتیں اور گروہ آگے آگے تھے تو اس نئی انتفاضہ میں بہترین حالت یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اور گروہ نئی احتجاجی تحریک کی حمایت کریں۔
حریت پسندی، ظلم، آمریت، جارحیت اور قبضے کے خلاف جدوجہد، مسجد اقصٰی اور دوسرے مقدس مقامات کا دفاع، عوامی ہونے، عرب اور بین الاقوامی تنظیموں سے ناامیدی اور فلسطین اتھارٹی کی جانب سے امن مذاکرات کے سراب کے دھوکے میں نہ آنے جیسی خصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نئی فلسطینی انتفاضہ کا تشخص اور حقیقت اسلامی بیداری پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس انتفاضہ کی حمایت
کے طریقہ کار، اسے درپیش ممکنہ خطرات، اس کے مفید اور نتیجہ بخش ہونے کو اسلامی بیداری کے ماڈل کی بنیاد پر پرکھا جانا چاہیئے۔ نئی فلسطینی انتفاضہ کے مکمل طور پر عوامی، جدید اور بے سابقہ ہونے کے باعث غاصب صہیونی رژیم پاگل پن کا شکار ہوچکی ہے اور جنون آمیز اقدامات پر اتر آئی ہے۔ صہیونی رژیم کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس نئی فلسطینی انتفاضہ کو کس طرح کنٹرول کرے، کیونکہ اسے اس سے قبل ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اگرچہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فلسطینی انتفاضہ کو کنٹرول کرنے کیلئے خطے کا دورہ کیا ہے اور سعودی عرب تو مسئلہ فلسطین کو اپنی پہلی ترجیح سمجھتا ہی نہیں، جس کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کے بارے میں عرب لیگ کا اجلاس تاخیر کا شکار ہوگیا ہے اور دوسری طرف فلسطین اتھارٹی نے غاصب صہیونی رژیم کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ فلسطینی انتفاضہ کے خاتمے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے گی اور ہر قسم کا تعاون کرے گی اور غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے غیر انسانی ترین اور وحشیانہ ترین ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں، جبکہ بین الاقوامی اداروں اور عالمی برادری نے اس ظلم و ستم پر چپ سادھ رکھی ہے اور اس مجرمانہ خاموشی کے سائے میں مجرم صہیونی رژیم اب تک ہزاروں فلسطینی جوانوں کو زخمی اور گرفتار کر چکی ہے، جبکہ دسیوں فلسطینی جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں، لیکن یہ مقدس سماجی تحریک اور اسلامی بیداری کی کرن بھرپور انداز میں جاری و ساری ہے۔ فلسطینی انتفاضہ نے فلسطین کی سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے اندر بھی بیداری کی روح پھونک دی ہے اور اب یہ اسلامی بیداری کی موج بیت المقدس سے نکل کر انتہائی تیزی سے مغربی کنارے، غزہ اور 1948ء کے مقبوضہ علاقوں تک پھیلتی جا رہی ہے۔
فلسطین میں جاری تیسری انتفاضہ ایک ایسے وقت معرض وجود میں آئی ہے، جب فلسطینی عوام گذشتہ پانچ برس کے دوران خطے میں نمودار ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک اور اسے کے بعد تکفیری دہشت گرد عناصر اور اس کے حامیوں کے پست اقدامات کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک اور اس کے بعد تکفیری فتنے نے خطے کے عرب حکمرانوں کے چہروں سے نقاب ہٹا کر ان کا اصلی چہرہ واضح کر دیا ہے اور فلسطینی عوام دیکھ چکے ہیں کہ یہ غدار عرب حکمران اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ملائے ہوئے ہیں اور مظلوم فلسطینی شہریوں کی قتل و غارت میں برابر کے شریک ہیں۔ تیسری انتفاضہ کی صورت میں ظاہر ہونے والی نئی سماجی تحریک درحقیقت اس نظریاتی انقلاب کا شاخسانہ ہے، جس نے اپنا تعلق تکفیریت، رجعت پسند عرب حکمرانوں اور ان کی حامی مغربی طاقتوں سے قطع کر لیا ہے اور فولادی ارادے سے اپنے مقامی طریقہ کار کے ذریعے غاصب صہیونی رژیم کے سامنے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اسلامی بیداری کی اس نئی لہر نے اسلامی دنیا کو نئی امید دلا دی ہے۔ اس لہر کے مزید وسیع ہونے اور پھلنے پھولنے کیلئے ممکنہ خطرات اور رکاوٹوں کو سمجھ کر انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے