مضامین

کربلا مسلسل کرب و بلا ہے

تحریر: جاوید عباس رضوی

اکثر انسان شہادت کے لئے بہت کوشش کرتے ہیں اور اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کی غرض سے شہادت کا استقبال کرتے ہیں ایسی روح کے مالک افراد جو دنیوی تعلقات سے دور ہوتے ہیں کے جذبات کو شہادت کہتے ہیں، شہادت انسان کی زندگی کا بہترین معاملہ ہے جو وہ خدا کے ساتھ انجام دیتا ہے، در واقع انسان اپنی جان دے کے ہمیشہ کے لئے جنت میں جاتا ہے دین کے حقیقی پیروکار ایسی روح اور ایسے جذبے کے مالک ہوتے ہیں اسلئے وہ راہ اسلام میں اپنی جان کی قربانی دینے سے نہیں کتراتے ہیں، عاشورہ کے واقعہ میں امام حسین (ع) کے باوفا ساتھی کربلا کے میدان میں اسی بلند روح کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور خود امام حسین (ع) اس کا واضح نمونہ ہیں، امام حسین (ع) کی ذات گرامی ایسی ہے جو تعارف کی محتاج نہیں ہے یہ وہ حسین (ع) ہیں جنہوں نے سسکتی ہوئی انسانیت کو نجات دلا کر صراط مستقیم پر گامزن کرکے جینے کا سلیقہ سکھایا اور اس کے ساتھ عزت، صداقت، عفت، مروت، عدالت، شجاعت و کرامت کے درس سے بھی بنی نوع انسان کو نوازا، یہ وہ حسین ہیں جنہوں نے اپنے خون سے اسلام ناب محمدی کی آبیاری کی اور اس کو تمام بدعتوں، شبہات خرافات اور توہمات سے پاک کیا، یہ وہ حسین ہیں جنہوں نے ہمیں آزادی کا حقیقی درس دیا، یہ وہ حسین ہیں جنہوں نے ظلم و جور اور استبداد کو رہتی دنیا تک قلع و قمع کر دیا اور مردہ انسانیت کو آب حیات پلا کر زندہ و بیدار کر دیا۔

شہدائے کربلا نے دنیا کو ایک ایسا چراغ دیا جو قیامت تک لوگوں کو منور کرتا رہے گا، شخصیت جس قدر اہم ہوتی ہے اس کی یاد اور اس کا تذکرہ بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے چنانچہ آفاقی شخصیت کا تذکرہ بھی آفاقی ہوتا ہے، احسان شناس قوم اپنے محسنوں اور شہیدوں کے ایثار و قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرتی اور اپنی حیات کی ہر سانس کو اس کی مرہونِ منّت جانتی ہے چنانچہ اس کا تذکرہ ہمیشہ باقی رکھتی ہے اور یہ تذکرہ کسی خاص قوم و مذہب سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کا سر چشم انسان کی پاکیزہ فطرت ہے جو محسنوں کی یاد منانے کا تقاضہ کرتی ہے، حضرت امام حسین (ع) نے دینِ حق کو قائم کرنے اور باطل کو مٹانے کی خاطر جو عظیم کارنامہ انجام دیا اس کی مثال تاریخ عالم و آدم میں نظر نہیں آتی ہے اسلام دشمن طاقتوں نے دین اسلام کو منہدم کرنے کی جو منظم سازش تیار کی تھی جو ایک منظم منصوبے کے تحت یزید کی شکل میں نمایاں ہوئی تھی، امام حسین (ع) نے اپنے قیام سیاسی سازش کے سارے تار و پود اس طرح بکھیر دیئے کہ خود یزید کے محل سے اذان کی آواز آنے لگی، امام حسین کا تذکرہ ایک صدا ہے، ایک آواز ہے جو انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے کہ ”ہوشیار رہنا دشمنوں کے نقشوں سے غافل نہ رہنا اور کبھی بھی ان کو اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہونے دینا چاہیئے اس کی خاطر تم کو بہت بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے‘‘۔

شہدائے کربلا کی عزاداری خدا و رسول کے دشمنوں سے بیزاری اور نبی و اہلبیت علیہھم السلام سے اظہارِ محبت و عقیدت کا بہترین ذریعہ ہے ذکر شہدائے کربلا دلوں کو حرارت بخشتا ہے انسان کو حقیقی مجاہد بنا کر باطل سے لڑنے کا حوصلہ بخشتا ہے، حسینی باطل کے آگے سر نہیں جھکاتا کیونکہ حسین ؑ کا ذکر کرنے سے عزاداری کی روح، روحِ حسین سے متصل ہوتی ہے، کیا یہ ممکن ہے ایک شخص نبی اور اہلبیتؑ کی محبت میں غرق ہو اور آل نبی کے مصائب سے متاثر نہ ہو ان کے فضائل و مناقب سن کر خوش نہ ہو، امام حسین (ع) کا قیام حق کی زندگی اور باطل کی موت کی خاطر تھا لہذٰا جہاں بھی یہ تذکرہ ہوگا وہاں حق کی زندگی اور باطل کی موت کا تذکرہ ہوگا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضہ کا مقصد ہی اچھائیوں کا رواج اور برائیوں کا خاتمہ ہے، اگر ہم امام حسین (ع) کے کلمات کا مطالعہ کریں تو ہمیں قدم قدم پر ملے گا کہ امام حسین (ع) نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے قیام کیا، حق سے بڑھ کر کوئی اچھائی نہیں اور باطل سے زیادہ برائی کوئی چیز نہیں، اس بنا پر عزاداری سید الشہداء (ع) مسلسل حق اور اہل حق کی حمایت و نصرت اور باطل سے نفرت و بیزاری کا اعلان ہے۔

اس تذکرہ میں اخلاق اور انسانیت کے وہ اعلٰی نمونے نظر آتے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں، قرآن کریم نے یاد دہانیوں پر کافی زور دیا ہے، یاد دہانیوں سے بڑے فائدے ہیں اگر ان پر کوئی فوری طور پر عمل پیرا نہ بھی ہو پھر بھی اتنے فائدے سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اعلٰی صفات و کردار کے فضائل و مناقب ذہن میں باقی رہتے ہیں اور اس کی تازگی کی لہک اسے دعوت عمل دیتی رہتی ہے، شہدائے کربلا کے ذریعہ نہ صرف کربلا کا واقعہ تازہ رہتا ہے بلکہ پوری تاریخ کو اور خاص کر تاریخ اسلام کو تازگی ملتی ہے اگر عزاداری نہ ہوتی تو دشمنانِ اہلبیت اور غارت گرانِ اسلام اب تک یزید اور اس کے پیشروں کو ”مقدس مآب“ بنا چکے ہوتے اور اسلام کی تاریخ کو مسخ کر چکے ہوتے اس وقت جو تاریخ میں سچے واقعات نظر آ رہے ہیں اس میں عزاداری کا بہت بڑا رول ہے، جب انسان اس واقعہ کو پڑھتا یا سنتا ہے تو اس کو ظلم اور ظالم دونوں سے نفرت ہوجاتی ہے اور اس طرح کے واقعات جو اسکو ظلم پر آمادہ کرتے ہوں ان سے دامن کش ہو جاتا ہے، عزاداری صرف نقلِ واقعات اور بیانِ داستان نہیں ہے بلکہ یہ تربیت اور تعلیم کی اوپن یونیورسٹی Open University ہے جہاں مختلف ماہر اساتذہ کے ذریعہ مختلف مضامین کے درس دیئے جاتے ہیں، عقائد، احکام، اخلاق، تاریخ، عبادات، معاملات قرآن، حد
یث، فقہ ہر ایک درس یہاں بیان ہوتا ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں مناظرہ خطابت اور موعظہ کی عملی تربیت دی جاتی ہے دنیا و آخرت کی کامیابی زندگی کے طریقے یہیں سکھائے جاتے ہیں، البتہ ایک بات ضرور ہے ملک کے حالات اور تعلیمی روِش کو مدنظر رکھتے ہوئے مقررین و ذاکرین کی زبان میں اور سامعین کے قبول کرنے کی صلاحیتوں میں چنداں فاصلہ پیدا کر دیا ہے جس سے نئی نسل بات سن کر مفہوم تو نکال لیتی ہے مگر کنہ تک نہیں پہونچ پاتی ہے لہذٰا اگر منبر کے وقار و تقدس کو محفوظ رکھتے ہوئے ایسی زبان استعمال کی جائے جس کا ہر ہر لفظ سامعین اور خاص کر نئی نسل کو سمجھ میں آ جائے تو افادیت اور تاثیر میں کافی اضافہ ہو جائیگا، اگر ہم باتوں کے ساتھ وقت کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا جائے مغربی اور غیر مغربی ممالک سے ثقافتی درآمدات سے پیش آنے والے مسائل اور ان کے حل کو بھی بیان کیا جائے، فکری، علمی اور ذہنی مشکلات کا واقعی حل پیش کیا جائے تو نئی نسل کو تربیت پر بہت اچھا اثر پڑے گا اور ان کے لئے زندگی کی صحیح سمتیں واضح و روشن ہو جائیں گی۔

تذکرہ کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے یہ عزاداروں کے اذہان و افکار کی تربیت کا سرچشمہ ہے اور اس کی تاثیر اور زیادہ گہری ہو جائے گی، اگر یہ مسائل مذکورہ بھی شامل ہو جائیں تو افادیت میں اضافہ ہو جائے گا، جب تک انسان عزاداری میں لگا رہتا ہے بہت سی برائیوں اور منکرات سے محفوظ رہتا ہے باطل کے اجتماعات اور گناہ کی محفل سے دور ہو جاتا ہے یہ مختصر سی دوری بھی بہت غنیمت ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا دل پوری طرح مردہ نہیں ہوا ہے حیات کے کچھ اثرات ضرور باقی ہیں بلکہ وہ اتنے طاقتور بھی ہیں کہ وہ انسان کو گناہ کی محفلوں سے نکال کر عزاداری کی مجلسوں میں شریک کر دیتے ہیں، یعنی یہ جذبہ خیر اگر ذرا نم ہو جائے تو بڑا ذرخیز ثابت ہوگا اسلئے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں توفیقات خداوندی اور آئمہ معصومین کی عنایتوں کے کارواں اترتے ہیں یہاں اگر وہ جذبہ رکھنے والا جناب حر کے کردار کے آئینہ میں اپنے کردار کا محاسبہ کرے اور یہ ٹھان لے کہ حر کی طرح آیا ہے تو حر کی طرح ثابت قدم بھی رہوں گا۔

شہدائے کربلا کی یاد فقط اس حد تک نہیں ہے کہ اسے منبروں سے پڑھا جائے اور بیاں کیا جائے اور لوگوں کے احساسات متاثر ہوں بلکہ یہ حادثہ پوری تاریخ میں عظیم انقلابوں کا سرچشمہ رہا ہے اور وقت کے یزید کے خلاف ایک آواز ہے، ظالم کے خلاف ایک آواز ہے، سید الشہداء (ع) نے جس مقصد کے لئے قربانی دی وہ مقصد کتنا عظیم تھا جس کے لئے امام حسین (ع) نے سب کچھ قربان کر دیا، دولت بھی دی، اولاد بھی دی، جان عزیز بھی دی، جناب زینب (ع) کی ردا بھی دی غرض سب کچھ دیا، امام حسین (ع) نے جس مقصد کے لئے قربانی دی اسی کے تسلسل کا نام عزاداری ہے، عزاداری رسم آباء و اجداد و بزم شعراء نہیں ہے جبکہ ہم نے عزاداری کو رسم و بزم بنا دیا ہے۔ درحقیقت عزاداری تسلسل عاشورا ہے، کربلا ایک پیکار کا نام ہے، کربلا ایک نبرد کا نام ہے۔ جب یزید نے امام حسین (ع) سے بیعت طلب کی تو امام حسین (ع) نے نورانی کلمہ فرمایا ”مثلی لا یباع مثلہ“ مجھ جیسا، یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button