مضامین

عزاداری کا حقیقی تصور

تحریر: فرقان گوہر

حال ہی میں عزاداری سیدالشہداء سے متعلق ایک مرجع تقلید کی طرف سے جاری کردہ خطاب میں قمہ زنی اور زنجیر زنی کو عزاداری کا جزو لاینفک قرار دیا گیا، اور اس بات کو کئی ایک طریقوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر عزاداری کرنی ہے تو خوب قمہ زنی اور زنجیر زنی کرنا پڑے گی اور اگر آگ پر بھی چل سکتے ہو تو بہتر ہے کہ گریز نہ کیا جائے۔ یہ تحریر مندرجہ بالا موضوعات کا علمی جائزہ لے کر ان کی قانونی و شرعی حیثیت کو واضح کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہے، تمام تر کوشش یہ ہوگی کہ کسی کی توہین نہ ہو اور نہ ہی کسی کی شخصیت پر حرف آئے، بلکہ فقط اور فقط نقطہ نظر کا بیان اور اپنی رائے کا اظہار ہو۔ اگرچہ اس بات پر میرا گہرا ایمان ہے کہ علمی مباحث کی جگہ کوچہ و بازار نہیں بلکہ علمی پلیٹ فارم ہونے چاہییں، تاہم اگر کوئی عالم، دانشمند، یا مرجع تقلید عوامی نقطہ نگاہ سے علمی آراء کو تنقید کا نشانہ بنائے تو کسی نہ کسی صورت اس کا علمی جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔

بات عزاداری کے طریقہ کار سے متعلق ہے؟ آج ہر پڑھے لکھے انسان کے ذہن میں یہ سوال ضرور آتا ہے کہ ہم جس طریقے سے عزاداری کرتے ہیں، اسے اسلام کے اندر کیا مقام حاصل ہے؟ کونسی آیات اور روایات میں اس بات کا تذکرہ ہے اور کس طریقے سے عزاداری کرنے پر زور دیا گیا ہے؟ بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ائمہ معصومین (ع) کی طرف سے فقط اور فقط غم منانے کا فرمان صادر ہوا ہے، اب اس کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے، کس طریقے سے منائی جانی چاہیئے؟ اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی روایت یا حدیث موجود نہیں ہے، اس لئے ہمیں کھلم کھلا اختیار ہے کہ جس طریقے سے عزاداری منائیں، جیسے چاہیں ماتم کریں، اپنا سر پھوڑیں، اپنا جسم چھریوں، چاقو، زنجیر اور تلوار وغیرہ سے کاٹیں، حتٰی کہ اپنے نابالغ بچوں کے سر پر چھوٹے موٹے زخم لگائیں، الغرض جس طریقے سے زیادہ سے زیادہ غم حسین (ع) کا اظہار ہوسکے، اسی طریقے سے ہمیں غم منانا چاہیے؟؟؟

مذکورہ بالا مفروضے کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ صادر کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ انبیاء اور اولیائے الہی کی بعثت کا ہدف کیا ہے؟ کیا وہ ہمیں معقول انسانی زندگی دینے کے لئے آئے ہیں یا پھر پہلی غلامیوں اور بندہای سلاسل سے آزاد کرکے نئے طریقے کی زنجیریں ہمارے ہاتھ میں دینے آئے ہیں، قرآن کریم نے ایک ہدف ہمارے نبی کریم (ص) کی بعثت کے حوالے سے یہ لکھا: [ویضع عنہم اصرہم و الاغلال التی کانت علیہم] یعنی پیامبر اسلام ان کے بوجھ کو ہٹانے اور جن زنجیروں میں وہ جکڑے جا چکے تھے، غلط رسوم و رواج اور غلط اقدار کی زنجیریں، ان سب سے نجات دینے آئے ہیں۔ قرآن انسان کو اس کی عزت و احترام واپس لوٹانے آیا ہے [ولقد کرمنا بنی آدم] ہم نے اولاد آدم کو عزت و شرافت بخش دی ہے۔ اس آیہ میں تین تاکیدیں آئی ہیں [لام  مفتوح، قد اور فعل ماضی] جس میں انسانیت کو احترام دینے کا واضح حکم قرآن نے دیا ہے۔

اب ہم اپنے معصوم اماموں کی سیرت اور فرامین کا ایک جائزہ لیتے ہیں، وہاں پر بھی ہمیں یہی عنصر نظر آتا ہے کہ وہ انسانوں کو عزت و احترام دیتے تھے اور انہیں اپنے احترام کی خاطر کبھی بھی غیر معقول حرکات کا حکم نہیں دیتے تھے، منجملہ ان میں سے ایک مثال نہج البلاغہ میں امام علی (ع) کے زمانے میں ہے، جب آنحضرت کا گذر شام جاتے وقت انبار کے زمینداروں سے ہوا، تو وہ اپنی اپنی سواریوں سے اتر گئے اور آپ  کے آگے دوڑنے لگ گئے، فرمایا: ارے یہ کیا کر رہے ہو؟ کہنے لگے یہ ہماری رسم ہے، جس سے ہم اپنے حکمرانوں کا احترام کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایسی بیہودہ حرکتوں سے تمہارے حکمرانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور تم خود اس بیہودہ کام سے اپنے آپ کو دنیا میں مشقت اور سختی میں ڈال رہے ہو، چہ بسا یہ کام آخرت میں بھی تمہاری بدبختی کا سبب بن جائے۔ [نہج البلاغہ حکمت ۳۷]

اگر آپ کو اہل بیت (ع) کی روایات سے شغف ہو تو مستحب مراسم میں جتنی روایات و احادیث کی کثرت ہمیں عزاداری کے موضوع پر ملتی ہے، کہیں نہیں ملتی، آپ فقط شیخ مفید کے استاد روایت، جناب ابن قولویہ کی کتاب کامل الزیارات ہی اٹھا کر دیکھ لیں، وہاں آپ کو مختلف انداز میں عزاداری سے متعلق روایات ملیں گی، میں فقط اس کتاب کے چند ابواب کے عناوین کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں:
الباب السادس و العشرون بكاء جميع ما خلق الله على الحسين بن علي (ع)‏، چھبیسواں باب: تمام  مخلوقات کا امام حسین (ع) پر گریہ کرنا۔ [سات روایتیں]الباب السابع و العشرون بكاء الملائكة على الحسين بن علي (ع)‏ ستائیسواں باب: فرشتوں کا امام حسین (ع) پر گریہ کرنا۔ [سترہ روایتیں]الباب الثامن و العشرون بكاء السماء و الأرض على قتل الحسين‏ع و يحيى بن زكريا (ع)‏، اٹھائیسواں باب: آسمان و زمین کا امام حسین (ع) اور حضرت یحیی بن زکریا علی نبینا و آلہ و علیہ السلام پر گریہ کرنا۔ [اکیس روایتیں]

الباب التاسع و العشرون نوح الجن على الحسين بن علي (ع)‏، انتیسواں باب: جنات کا امام حسین (ع) پر نوحہ خوانی کرنا۔ [گیارہ روایتیں]الباب الثاني و الثلاثون ثواب من بكى على الحسين بن علي (ع)‏، بتیسواں باب: امام حسین (ع) پر گریہ کرنے والے کا ثواب۔ [دس روایتیں]الباب الثالث و الثلاثون من قال في الحسين‏ع شعرا فبكى و أبكى‏، ایسے شخص کا ثواب جس نے امام حسین (ع) سے متعلق ایک شعر پڑھا اور رو دیا اور دوسروں کو بھی رلایا۔ [سات روایتیں]الباب الرابع و الثلاثون ثواب من شرب الماء و ذكر الحسين‏ع و لعن قاتله‏، چونتیسواں
باب: ایسے شخص کا ثواب جس نے پانی پیا اور امام حسین (ع) کو یاد کیا اور پھر آپ کے قاتل پر لعنت کی۔ [ایک روایت]الباب الخامس و الثلاثون بكاء علي بن الحسين على الحسين بن علي (ع)‏، پینتیسواں باب: امام زین العابدین کا اپنے والد گرامی امام حسین (ع) پر گریہ کرنا۔ [دو روایتیں]الباب السادس و الثلاثون في أن الحسين‏ع قتيل العبرة لا يذكره مؤمن إلا بكى‏، چھتیسواں باب اس بات کے بیان میں کہ امام حسین (ع) آنسووں کا شہید ہے، جب بھی کوئی مومن آپ کا ذکر کرے گا، رونے لگے گا۔ [سات روایتیں]

یہاں ان روایات پر مہر صحت لگانا مقصود نہیں ہے بلکہ فقط ایک کتاب کے ابواب کی فہرست کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے موضوعی تنوع اور گوناگونی کی طرف اشارہ کرنا ہے، جس میں ہمیں عزاداری کے مختلف پہلووں پر مکمل طور پر راہنمائی دی جا رہی ہے۔ ان روایات میں عزاداری کو ایک ثقافتی عمل کے طور پر معاشرتی سطح پر بیان کیا جا رہا ہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ جزئیات سے غفلت برتی جائے۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ خود بھی گریہ کرو اور دوسروں کو بھی رلاو، شعر بھی پڑھو، جیسے دعبل خزاعی اور  کمیت اسدی نے پڑھے، یہ بھی بتایا ہے کہ عزاداری کے لئے کسی ذاکر مولوی کی سریلی یا غیر سریلی آواز کے انتظار میں نہ رہو، بلکہ اگر دل کرے تو پانی پی کر امام حسین (ع) کی پیاس کو یاد کر لیا کرو اور آپ کے قاتل سے نفرت کا اظہار کر دو۔ ان روایات نے امام زین العابدین (ع) کی عزاداری کا نمونہ بھی ہمارے سامنے رکھا۔

امام زین العابدین (ع)، وہ شخصیت جس نے چند گھنٹوں کے اندر ایک ایک کرکے اپنے سب عزیزوں کو اپنی آنکھوں سے تہ تیغ ہوتے دیکھا، ان کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ عزا کی بھی خبر انہی روایات میں دی گئی ہے، کہا گیا کہ جب بھی غذا سامنے آتی گریہ کرتے، جب کوئی آپ پر رحم کھا کر کہتا کہ اتنا مت روئیے تو  فرماتے: جناب  یعقوب کا ایک یوسف ہاتھ سے گیا اور انہوں نے روتے روتے اپنی آنکھیں سفید کر لیں، میرے تو کئی یوسف آن کی آن ہاتھ سے چلے گئے،۔۔۔۔۔  لیکن قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ان سب کے ہوتے ہوئے کسی ایک روایت میں ہمیں نہیں ملتا کہ آپ نے اپنا خون بہایا ہو۔ یہ بھی کہا گیا کہ فقط انسان نہیں دنیا کی دیگر مخلوقات بھی گریہ کرتی ہیں۔ روایات کہتی ہیں کہ دنیاوی چیزوں پر رونا دھونا ایک مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن امام حسین (ع) پر گریہ کرنا ثواب رکھتا ہے۔

بے انتہا حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ دینی ثقافت، یعنی دینی معاشرتی عمل، کی بنیاد اصالت الحلیہ پر رکھی جاتی ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اصل عملی کام کسی حکم شرعی کا ثابت کرنا نہیں بلکہ فقط حیرت سے نکالنا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ  خلیفہ دوم نے استحسان کی بنیاد پر  نوافل رمضانیہ کو جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت قرار دیا تھا۔ آج تک شیعہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ نمازیں جو اہل سنت حضرات ماہ رمضان کی راتوں میں تراویح کی شکل میں  پڑھتے ہیں، ہماری بھی کچھ روایات سے ان کا استحباب ثابت ہوتا نظر آتا ہے، لیکن انہیں جماعت کے ساتھ پڑھنا کیونکہ خلاف سنت عمل تھا، اس لئے شیعہ فقہاء اسے آج تک بدعت قرار دیتے ہیں۔

کسی عمل کو اصالت الحلیہ کے ذریعے جائز اور مباح فعل ثابت کرکے اس کو سنگین شرعی ذمہ داری قرار دے دینا کس اصول کے تحت درست  ہے؟ اصالت الاباحہ کسی فعل کو جائز تو ثابت کرسکتا ہے، لیکن اسے  وجوب کا درجہ  قطعاً نہیں دے سکتا۔ اصالہ الحلیہ اور اصالت الاباحہ کے ذریعے کسی فعل کا جائز ہونا اور بات ہے جبکہ اسے  کسی دوسرے موضوع کے ذیل میں لے جا کر شرعی حکم کا  درجہ دینا اور بات ہے۔ یہ موضوعی شبہہ نہیں ہے بلکہ حکمی شبہہ ہے، یعنی ہمیں ایک حکم کی حقیقت کا علم ہے لیکن اس کی سرایت کا علم نہیں ہے، تو اس حکم کا اثبات دوسرے موضوع میں قیاس اور تشریع ہو جائے گا۔ نماز کجا اور قمہ زنی کجا؟ قرآن میں سات سو احکام کی آیات میں سے آدھے سے زیادہ نماز کے متعلق ہیں، جبکہ قمہ زنی کے متعلق ایک ضعیف ترین روایت بھی نہیں ہے،؟ نماز کا وجوب عینی، تعیینی اور اصلی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ قمہ زنی  کا  مباح ہونا بھی معلوم نہیں ہے، تو پھر بچے کی تادیب والے مسئلے میں قیاس کی کیا گنجائش ہے؟؟؟

ان سب سے قطع نظر اب ہم خود ان روایات میں موجود پیغام کی طرف آتے ہیں، کیا مجموعی طور پر ان میں یہ پیغام نہفتہ نہیں ہے کہ عزاداری اظہار غم کا نام ہے اور اس کا طریقہ گریہ و زاری ہے؟؟ ہمیں اگر ثواب و جزا ملے گی تو گریہ و زاری پر، گریہ و زاری ائمہ معصومین (ع) کی سنت و سیرت بھی ہے۔ گریہ و زاری ملائکہ خداوند کی سنت ہے۔ خداوند کی تمام مطیع مخلوقات امام حسین (ع) کے غم میں گریہ و زاری کرتی ہیں۔ یہ سب روایات کے پیغامات ہیں، ہم اگر غور کریں تو ان میں جواب مل جاتا ہے کہ عزاداری کا اصلی طریقہ جو کہ ایک معقول، منطقی اور موثر طریقہ ہے، وہ گریہ و زاری کا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آنسو انسان کی زندگی کا ایک نہایت ہی قیمتی خزانہ ہیں، جو فقط خلوص دل اور احساس محبت کے سرچشمہ زلال سے پھوٹتے ہیں اور سب باضمیر انسانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اگر انسان کسی کو تہ دل سے چاہتا ہو تو اس کی مصیبت میں روتا ہے۔ روایات میں گریہ و زاری پر تاکید کرنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ائمہ (ع) کو ان آنسووں کی اہمیت اور تاثیر کا کس حد تک ادراک تھا۔

ہمارے ائمہ (ع) جب یہ کہہ سکتے تھے کہ جو روئے، رلائے یا فقط شکل ہی بنا لے تو اس کو اتنا ثواب ملے گا، وہاں کیا مانع تھا کہ ایک لفظ کا اور اضافہ کر دیتے یعنی خون بہائے، ایسا اضافہ کیوں نہیں کیا؟ کونسا مانع
اس زمانے میں تھا؟ اگر تقیہ تھا تو رونے پر بھی تھا، اور اگر نہیں تھا تو پھر کیا مانع تھا؟ قیاس کے ذریعے مسائل حل نہیں ہوتے، اگر کسی حکم کو تشریع کرنا ہے، شرعی قانون کی حیثیت دینی ہے تو احساسات و عواطف سے تہی ہو کر واضح دلیل لانی پڑے گی۔ مانع وہ چیزیں نہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں، بلکہ اصل مانع وہ روح شریعت اور اسلام کی حقیقت و اہداف ہیں، اسلام کا ہدف ہمیں خرافات اور غیر معقول کاموں میں لگانا نہیں بلکہ انسان کو انسانیت و اخلاق و کمال کردار تک پہنچانا ہے۔ اصل مانع وہ کل ہے اور انسجام ہے، یعنی اسلام ایک سیسٹم اور نظام ہے، اس کا ہر حکم دوسرے سے منسجم ہے اور جڑا ہوا ہے، کسی میں تضاد نہیں ہے۔ ولو کان من عند غیر اللہ لوجدو فیہ اختلافا کثیرا۔

مذکور بالا دلائل و شواہد کی روشنی میں ہمیں یہ نتیجہ لینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ عزاداری کو شرعی ذمہ داری قرار دینے کی صورت میں ہمارا ہاتھ اتنا کھلا نہیں رہتا، جتنا کہ آج ہم سمجھ بیٹھے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اسلام ایک معقول مذہب ہے، جس میں احساسات کو سرکوب نہیں کیا گیا بلکہ ان کے اظہارات کا صحیح طریقہ بتایا گیا ہے۔ عزاداری اس احساس کے اظہار کا نام ہے، جو اہل ایمان امام حسین (ع) کی نسبت رکھتے ہیں، جس کا منطقی اور معقول طریقہ کار گریہ و زاری اور نوحہ و ماتم داری ہے۔ لیکن خون بہانے کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی، اسے جہاد وغیرہ سے بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جہاد کی واضح نصوص اور سیرت طیبہ موجود ہے، جبکہ قمہ زنی اور زنجیر زنی کے مسئلہ میں ایسا نہیں ہے۔ ہمیں بے قید و بند محبت کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ معقول محبت کا حکم ہے۔ اسی بارے میں ایک روایت پیش کرکے اپنی بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ شیخ صدوق نے اسے  نقل کیا ہے، البتہ اس سے ملتی جلتی روایات کثیر تعداد میں ہیں، کہ قَالَ عَلِيٌّ ع يَهْلِكُ فِيَّ اثْنَانِ وَ لَا ذَنْبَ لِي مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَ مُبْغِضٌ مُفَرِّط [عیون اخبار الرضا ج۲ ، ص۲۰۱]، مولا علی (ع) فرماتے ہیں کہ دو قسم کے لوگ میرے بارے میں ہلاک ہونے والے ہیں اور اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے، افراطی محبت کرنے والا اور تفریطی طور پر بغض رکھنے والا۔  پس خیال رہے کہ ہماری محبت ایک دینی، مذہبی اور الٰہی محبت ہے، یہ عام محبتوں سے قدرے متفاوت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button