شیخ باقر النمر، مرد آہن مثل شیر نر
تحریر: جاوید عباس رضوی
اسلام دشمنوں کی عالمی سازش ہے کہ دنیا بھر سے علماء حق، بیدار و باشعور افراد کو پابند سلاسل کیا جائے ان کا خاتمہ کیا جائے، تاکہ دشمنان دین بنا کسی رکاوٹ کے اپنی چودھراہٹ جاری رکھ سکیں، شیخ باقر النمر پر ہوئے حملے اور گرفتاری اور اب بھانسی کی سزا کے پیچھے گہری سازش کارفرما ہے، سعودی عرب کی حکومت ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ وہاں کوئی ایسی آواز، کوئی جد و جہد پنپنے پائے جو وہاں کی بادشاہت کے ساتھ ساتھ استعماری و سامراجی قوتوں کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو، باقر النمر کو موت کی سزا اس جرم میں سنائی گئی ہے کہ وہ آمریت کو ناپسند نگاہوں سے دیکھتے ہیں، وہ بادشاہی نظام حکومت کو پسند نہیں کرتے۔ ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، انہوں عدالت میں وکیل کرنے اور اپنے دفاع میں کچھ بولنے کی اجازت دئے بغیر ان کے لئے سزائے موت کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ کیا سر زمین وحی میں پُرامن طریقے سے صدائے احتجاج بلند کرنے کی سزا پھانسی ہے؟
شیخ باقر النمر کی سزائے موت سعودی عرب کے تمام آزاد پسند، انصاف پسند اور حق پسند عوام کا قتل ہے، باقر النمر آل سعود کے مظالم کے خلاف لاکھوں سعودی عوام کی آواز ہیں، انہوں نے ہمیشہ سعودی عرب کی محصور اور دبائی ہوئی عوام کی سربلندی کے لئے کوششیں کیں، انہوں نے سعودی عرب کی حق پسند عوام کے لئے قیام کیا جنہیں آج بھی سعودی عرب کا حصہ ہی نہیں سمجھا جارہا ہے، انہوں نے سعودی عرب کے ہزاروں محصور نوجوانوں کی بازیابی کے لئے مشقتیں برداشت کیں، انہوں نے درس و تدریس، وعظ و نصیحت، تقریر و تبلیغ کے ذریعے سے حق و باطل میں فاصل کھڑا کرکے زندان کو اپنی لئے زینت تسلیم کیا، وہ بے باک ہیں وہ حسینی کردار کے مالک ہیں۔
شیخ باقر النمر نے تن تنہا دنیا کی سفاک ترین، خون خوار ترین اور دہشتگردی پر مبنی حکومت کے خلاف صدائے حق بلند کی، وہ نتیجے سے آگاہ تھے، مرد مجاہد کو آل سعود کی سفاک ترین حکومت سے پہلے ہی اس درندگی کی امید تھی، شیخ باقر النمر نے سعودی عرب کے شہر القطیف کے ساتھ ساتھ تمام غیور اور انصاف پسند افراد کے حقوق کے لئے قیام کیا، اس میں شیعہ یا سنی کی کوئی تفریق نہیں، ان کی جد و جہد حق پر منبی ہے، وہ تنگ نظر نہیں، وہ اعلیٰ صفات کے مالک عالم دین ہیں، وہ حق و صداقت کی راہ میں دی ہوئی قربانیوں سے مطمئن ہیں۔ شیخ باقر النمر اعلیٰ صفات کے حامل عالم دین ہیں، دین اسلام محمدی کی تبلیغ و ترویج انکا مشغلہ ہے، وہ عرب دنیا کے چمکتے ستارے ہیں، اسلام اور مسلمین کے مفاد کے خاطر ہر لمحہ کوشاں رہتے، عملاً میدان میں رہ کر ظالم و جابر حکومت کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں، انسانی حقوق کی بازیابی کے لئے کوششیں جاری رکھی، وہ اپنی سرزمین کے عظیم مدافع رہے ہیں، آپ شرقیہ کے علاقے عوامیہ اور قطیف کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سعودی حکمرانوں کے روا رکھے ہوئے سلوک کے سخت مخالف ہیں، وہ حق گو، صداقت پسند، مرد مجاہد، مرد آہن و بے باک اور سعودی شرقیہ علاقہ کے ہر دل عزیز عالم دین ہیں، انہوں نے سعودی عرب کا شرقیہ علاقہ جو تیل سے مالا مال ہے امریکہ نے وہاں تنصیبات اور پیٹروکیمیکل کے تمام کارخانے لگا رکھے ہیں اس کے خلاف ہمشہ آواز آتھائی ہے، کربلا سے سرشار، حسینی کردار سے مزین، ظالم حکومت کے خلاف سینہ سپر رہے، اب اگرچہ آپ سالوں سال سے قید ہیں لیکن اپنے موقف اور ارادوں سے ذرہ برربر بھی پیچھے نہیں ہٹے، سفاک ترین حکومت کے مدمقابل اب بھی چٹان کی طرح ثابت قدم ہیں۔ فرق نہیں پڑتا شیر آزاد ہو یا پنجرے میں مقید، شیر شیر ہوتا ہے، حسینی کردار کی یہی پہچان مسلمانوں کو بتائی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بانکی مون نے بھی عالمی اپیلوں کے پیش نظر سعودی عرب کی حکومت سے شیخ باقر النمر کی پھانسی روکنے پر تاکید کی ہے، بعض امریکی ذرائع ابلاغ کی شائع کردہ رپورٹس کے مطابق بعض امریکی عہدیداروں نے سعودی حکام کے ساتھ شیخ نمر کی سزائے موت کے بارے میں مذاکرات انجام دیئے ہیں اور انہیں نصیحت کی ہے کہ وہ اس اقدام سے باز رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کہا جارہا ہے کہ ملک سلمان کے بعض مشاورین اور نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان سے وابستہ افراد جن کے اسرائیل کے ساتھ دیرینہ تعلقات استوار ہیں، شیخ نمر کو سزائے موت دینے پر مصر نظر آتے ہیں۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ملک سلمان کے بعض عقل مند مشاورین بھی ہیں، جنہوں نے اسے نصیحت کی ہے کہ وہ شیخ نمر کی سزائے موت کو عملی شکل دینے سے باز رہے، کیونکہ اس اقدام کے غیر متوقع نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں۔ واقعاً اس پھانسی کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، ایسے اقدام عالمی اتحاد اسلامی کو زک پہنچانے کے مترادف ہونگے، عالم اسلام کے ساتھ ساتھ سعودی عرب میں بھی اس مذموم حرکت کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہونگے، پھر اس عوام تحریک کو روکنا آل سعود کے باس میں نہیں ہوگا۔
شیخ باقر النمر کو پھانسی کی سزا دینا در حقیقت سعودی عرب کی اس اکثریت کو پھانسی دینے کے مترادف ہے جو اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے کوشاں ہے، سعودی عرب کی وہ اکثریت کچھ دیر کے لئے دبائی تو جاسکتی ہے لیکن انہیں زیادہ دیر تک اب خاموش نہیں رکھا جاسکتا ہے، وہ تمام اکثریت آمریت و بادشاہت کے خلاف ہیں، جو جرم کی سزا شیخ باقر النمر کو سنائی گئی ہے اس جرم کا ارتکاب اب ہر سعودی عرب کا باشندہ کرنے کو آمادہ ہے۔ اب اگر سفاک ترین حکومت
نے شیخ باقر النمر کو پھانسی کی سزا دینا طے کیا ہے تو ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے، کیا دنیا کے باشعور و بیدار معاشرے کو خاموش رہنا ہوگا یا پھر صدائے احتجاج بلند کرنا چاہیے۔ ہاں ایسا ہی ہوگا دنیا بھر میں ایک احتجاجی مہم شروع ہوگی، اب مسلمانان عالم اپنے فریضے سے واقف ہیں وہ خاموش ہرگز نہیں رہ سکتے ہیں۔