داعش کا راستہ نہ روکا تو لوگ طالبان کے مظالم بھول جائیں گے، اسفندیار ولی
شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں دارہ)سربراہ اے این پی اسفندیار ولی نے کہا ہے کہ داعش کا راستہ نہ روکا گیا تو لوگ طالبان کا ظلم بھول جائیں گے، بعض عالمی طاقتیں داعش کے ذریعے پشتون سرزمین کو میدان جنگ بنانا چاہتی ہیں، عالمی طاقتوں کی چپقلش کے منفی اثرات پاکستان چین اقتصادی راہداری پر بھی پڑیں گے، راہداری منصوبے کی کامیابی کیلئے افغانستان میں قیام امن یقینی بنایا جائے، افغانستان میں امن کے قیام کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے اگر خطے میں جاری کشیدگی اور دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف یہ کہ پورا خطہ عالمی قوتوں کی باہمی چپقلش کا مرکز بن جائیگا بلکہ داعش جیسی خطرناک اور پرتشدد قوت کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گا، ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے اور امن کے مستقل قیام کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور اس مقصد کیلئے چین اپنا ایک بنیادی کردار ادا کرے۔
افغانستان کے نجی چینل کو اپنی رہائش گاہ پر انٹرویو کے دوران اُنہوں نے کہا امریکہ کے برعکس چین اپنے کردار کے حوالے سے جہاں ایک طرف ایک غیر متنازعہ کردار کا حامل ہے بلکہ اس کو سنکیانک اور بعض دیگر علاقوں میں خود انتہاپسندی کا بھی سامنا ہے۔ عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش اور کشیدگی کے اثرات نہ صرف خطے کے حالات بلکہ کوریڈور کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں اور اگر امریکہ چین اور روس، امریکہ کے درمیان بعض معاملات پر کشیدگی برقرار رہی تو اس سے نہ صرف یہ کہ دونوں اطراف کے پشتون مزید تباہ ہو جائیں گے بلکہ کوریڈور کا منصوبہ بھی خطرے سے دوچار ہو جائیگا کیونکہ کوریڈور نے افغانستان سے ہو کر وسط ایشیاء تک جانا ہے۔
اُنہوں نے خطے میں دہشتگردی کے معاملے پر کئے گئے سوال کے جواب میں 80 کی دہائی میں افغانستان میں امریکی زیر قیادت جس جنگ کا آغاز کیا تھا اس میں افغانوں کو تاریخ میں پہلی بار قوم پرستی اور افغانیت کی بجائے ان کو مذہب کے نام پر لڑایا گیا جس کے نتائج ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں اگر امریکہ نے نجیب اللہ حکومت کے بعد افغانستان سے لاتعلقی اختیار نہ کی ہوتی تو نہ طالبان وجود میں آتے، نہ القاعدہ قائم ہوتی اور نہ ہی اب داعش وجود میں آتی۔ اُنہوں نے کہا کہ طالبان نے اے این پی کو بھی اس لئے نشانہ بنایا کہ ان کو علم تھا کہ اے این پی ہی مزاحمت کر سکتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ملا عمر نے ایک مرتبہ نصیراللہ بابر کو کھانے اور کمرے سے یہ کہہ کر اُٹھایا اور نکالا تھا کہ اُنہوں نے ان سے ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کشمیری عوام کے دبائو پر لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل باؤنڈری تسلیم نہیں کر سکتا تو ڈیورنڈ لائن کو کیسے انٹرنیشنل سرحد تسلیم کیا جا سکتا ہے