مضامین

ایران کے 'خصوصی دستے' نے کس طرح زندہ بچ جانے والے روسی پائلٹ کی جان بچائی؟

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) روس کے اس پائلٹ کو آزاد کرائے جانے کی خبر، جو روس کے بمبار طیارے ایس یو-24 کو ترکی کے طیارے سے نشانہ بنائے جانے کے بعد زندہ بچ رہا تھا، اطلاعات کے پورے منظر پر چھا گئی ہے۔ سب کو اس بارے میں پریشانی تھی کہ روس کے پائلٹ کو دشمن کے نرغے سے کیسے نکالا جائے؟ “سپتنک فارسی” کے مستقل مبصّر عماد آب شناس  نے اپنے شناسا شامی افسر سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اس کارروائی کے بارے میں یوں بتایا۔

جب روس کے طیارے کو مار گرایا گیا اس کے بعد عملے کو بچائے جانے کی خاطر روسی ہیلی کاپٹر بھیجے گئے تھے۔ مگر ان پر شام کی فوج آزادی (جنہیں مبینہ طور پر “معتدل حزب اختلاف” کہا جاتا ہے اور جس کی مغرب حمایت کرتا ہے) کے جنگجوؤں اور ترکمانوں (شامی ترکمان جن کی ترکی حمایت کرتا ہے) کی جانب سے گولیاں برسائی گئی تھیں۔ جنگجوؤں کے پاس جدید ترین ہتھیار اور میزائل تھے۔ نتیجے میں روس کی بحریہ کا فوجی جوان مارا گیا تھا۔

اس بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں  کہ ترکی کی کمان نے کئی خصوصی فوجی گروپ ترتیب دیے تھے اور انہیں اس علاقے میں بھیجا تھا جہاں روسی پائلٹ چھاتے کے ذریعے اترے تھے تاکہ انہیں جنگی قیدی بنا لیا جائے اور روس کو مزید بلیک میل کیا جائے۔

مدد کی خاطر ایران آگے آیا تھا۔ فوری طور پر روسی پائلٹ کو چھڑائے جانے کی کارروائی کا منصوبہ بناتے ہوئے سپاہ پاسداران اسلامی ایران کے خصوصی دستے “القدس” کے جنرل قاسم سلیمانی نے روسی رفقائے کار سے رابطہ کیا اور کہا کہ ایک خصوصی دستہ ترتیب دیا گیا ہے جو آزاد کرائے جانے کی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ دستہ لبنانی تنظیم “حزب اللہ” کے جنگجوؤں اور شام کی فوج کے کمانڈوز پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں شامی فوجی علاقے سے اچھی طرح واقف تھے۔ جنرل نے زمینی کارروائی کی سربراہی اپنے ذمے لی جبکہ روسی فضائیہ نے ساتھ دینا تھا اور مصنوعی سیارچے سے مدد کو یقینی بنانا تھا۔

جی پی ایس کی مدد سے روسی پائلٹ کے مقام موجودگی کا پتہ لگائے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ پائلٹ شام کی فوج اور حزب اختلاف کے جنگجوؤں کے محاذ سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

شامی فوجی افسر کے مطابق جو گمنام رہنا چاہتے ہیں، یہ کارروائی اپنے طور پر جنرل سلیمان کی کمان میں زمینی دستے اور روسی فضائیہ کی جانب سے صرف دہشت گردوں کے شکار کی کارروائی بن کر کے رہ گئی تھی۔ شامی افسر نے یہ بھی بتایا کہ روسی فوجیوں نے ریڈیو الیکٹرونک لڑائی میں استعمال کیے جانے والے آلات بھی استعمال کیے تاکہ مغرب کے مصنوعی سیارچوں کو یہ معلومات دہشت گردوں تک پہنچانے سے روکا جا سکے۔

خصوصی دستہ جنگجوؤں کی عملداری والے علاقے میں گھس گیا اور اس نے نہ صرف روسی پائلٹ کو بچایا بلکہ ان کے گرد موجود تمام دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا جن کے ہاتھوں میں جدید ترین ہتھیار تھے۔

دستے میں شامل تمام 24 افراد نہ صرف یہ کہ زندہ رہے بلکہ کوئی زخم کھائے بغیر اپنے مستقر پر لوٹ آئے۔

شامی ذریعے کے مطابق کارروائی کی کامیابی کا ایک سبب ترکوں اور ان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں میں اختلاف نظر تھا۔ ترک چاہتے تھے کہ روسی پائلٹ کو قیدی بنا کر ترکی لے جائیں اور اسے روس کو بلیک میل کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کریں۔ جبکہ دہشت گرد چاہتے تھے کہ روسی پائلٹ کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جیسا کہ اردن کے پائلٹ کو زندہ جلا کر کیا تھا تاکہ روسی پائلٹوں میں زیادہ سے زیادہ دہشت پھیلا سکیں۔ اس اختلاف کی وجہ سے وقت مل گیا کہ روس کے پائلٹ کو کامیابی کے ساتھ ان کی گرفت سے نکال لے آیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button