کیا طیب اردغان ترکوں کے خیر خواہ ہیں؟
تحریر: سید اسد عباس
ترکی سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد سے کبھی بھی عالمی منظر نامے پر یوں ابھر کر سامنے نہیں آیا جیسا کہ آج کل آرہا ہے اور اس حوالے سے حالیہ دنوں میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ ایک سابقہ سپر پاور کے جنگی جہاز کو مار گرانا ہے۔ ترک ذمہ داروں کے مطابق روسی جہاز مسلسل اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور بار بار کے انتباہ کے بعد یہ انتہائی اقدام اٹھانا پڑا۔ اس واقعہ کے نتیجے میں دو روسی فوجی ایک جنگی جہاز کا پائلٹ اور دوسرا اس کو بچانے کی کوشش کرنے والا میرین جاں بحق ہوئے۔ کارنامہ تو واقعی کافی بڑا ہے آج تک کسی مسلمان ملک نے ایسی جرات نہیں کی کہ کسی مغربی یا مشرقی طاقت سے یوں براہ راست ٹکر لے سکے۔ ایران نے عموما امریکا کے ڈرونز کو اتارا ہے لیکن ایسا نہیں کیا کہ ایک جنگی جہاز کو مار گرایا ہو جس میں امریکا کا کوئی جانی نقصان ہوا ہو، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ امریکا نے ایرانی سرحدوں کی ایسی کوئی خلاف ورزی ہی نہیں کی جس کے لیے اس درجے پر جا کر کارروائی کرنی پڑے۔ باقی مسلمان ممالک میں اللہ کے فضل و کرم سے مغربی ممالک کے جہاز، ہیلی کاپٹر اور بحری بیٹرے یوں دندناتے پھرتے ہیں جیسے لا وارث چراگاہوں میں آوارہ مویشی۔
ہم فقط ایک دوسرے کو ہی آنکھیں دکھا سکتے ہیں اور ایک دوسرے پر ہی حملہ آور ہو سکتے ہیں ان کی جانب دیکھنا ہمارے بس سے باہر ہے، یہ ایسا مقام ہے جہاں ہمارے پر پرواز جلتے ہیں اور ذہن کی تمام تر تیزیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ ہےجرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کا اردو محاورہ ہمارے سامنے برہنہ رقص کرتا ہے اور ہم اپنا چہرہ اپنی ہی آستینوں میں چھپاتے پھرتے ہیں۔ ہم ضعیف سے زیادہ بےہمت ہیں اسی لیے عالمی طاقتیں ہم سے وہ باتیں بھی قبول کروا لیتی ہیں جو ہم اپنے ہمسایوں کی بھی نہیں مانتے۔ بہرحال ملکی سالمیت کے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرنے پڑتے ہیں، کبھی عقب نشینی اختیار کرنی پڑتی ہے اور کبھی جارحیت۔ اس معاملے میں اصل اہمیت وطن سے اخلاص اور اس کے مفاد کو حاصل ہے۔ وطن اور اہل وطن سے اخلاص ذمہ داران مملکت کے لیے نہایت اہم ہے۔ اسی لیے قومیں اپنے راہنماوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہیں۔ اگر قیادت مخلص نہ ہو تو وہ عالمی سیاست کے دھارے میں یوں بہتی ہے کہ سالوں بعد غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ رہبر و راہنما پوری قوم کو فروخت کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ اقبال کا یہ مصرعہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا،
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
شومئی قسمت سمجھئے یا کچھ اور مسلمانوں میں ایسے راہنماوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنی قوم کا مستقبل داو پر لگا سکتے ہیں۔ اگر تاریخی حوالے گنوانے بیٹھ جاؤں تو شاید اکا دکا ہی ایسے بچیں جنہوں نے ملکی سالمیت اور قومی مفاد پر کبھی سودا نہ کیا ہو۔ ایسے لوگ بہت کم اوپر آتے ہیں اور اگر آ جائیں تو بہت جلدی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔اب سارے شہیدوں کو ہی اس زمرے میں مت ڈال دیجئے گا۔ سودے بازی کے اپنے اصول ہیں بات مانتے رہو تو خیر اگر نہ مانی تو پھر تماشہ۔
ترک صدر طیب اردغان جن کا تعلق عدالت و ترقی پارٹی سے ہے 2003ء سے ایوان اقتدار میں ہیں۔ پہلے وہ ملک کے وزیر اعظم رہے اب وہ صدر ترکی کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ طیب اردغان کے دور اقتدار میں ترکی میں کئی ایک بنیادی تبدیلیاں ہوئیں انہوں نے ریاستی اشرافیہ کو مکمل طور پر بدلا، سیاسی نظام میں حقیقی تبدیلیاں لائے، ریاست کو نئے سرے سے ایک شناخت دی اسی طرح ترکی کو معاشی اور سماجی میدان میں بھی کافی ترقی حاصل ہوئی۔ پولینڈ سے شائع ہونے والا ایک تحقیقی مقالہ جس کا ایک اقتباس حسب ذیل ہے کے مطابق، "عدالت و ترقی پارٹی نے ترکی کو نہایت مستحکم انداز سے بدلا ہے تاہم ابھی تک یہ کہنا مشکل ہے کہ آئندہ صورتحال کیا ہو گی، اپنے قیام کے نوے سال کے دوران یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ترکی ابھی تک ایک نامکمل تجربہ ہے، وہ سیکولر ریاست جو 1923ء میں کمال اور اس کے حامیوں کے زیر اثر تشکیل پائی تھی اور جس نے مشرق وسطٰی کی جانب پشت کر رکھی تھی اب وجود نہیں رکھتی۔ آج ترک ریاست اور سیاست قانون کی پابند نہیں ہے بلکہ یہ ایک شخص کی مرضی کی مرہون منت ہے جس کے خلاف آواز بلند کرنا آسان نہیں ہے۔ طیب اردغان کے کردار اور ان کی قوت کو مرتکز کرنے کی منطق کے پیش نظر ان کے دور اقتدار میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی مزید کمزور ہوگی۔ حکومت کی ترجیح اپنی قوت کو مستحکم کرنا نیز حقیقی و تخیلاتی دشمنوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔