مضامین

آیت اللہ باقر النمر کا قتل، آل سعود کے تابوت میں آخری کیل

تحریر: سعداللہ زارعی

 

آل سعود رژیم کی جانب سے آیت اللہ باقر النمر کو شہید کرنے، ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور بعض عرب ممالک پر بھی ایران سے تعلقات منقطع کرنے کیلئے دباو ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکومت احساس شکست کے ساتھ ساتھ درپیش مسائل کو حل کرنے میں عدم توانائی کے احساس کا بھی شکار ہوچکی ہے۔ لہذا موجودہ حساس صورتحال میں جب سعودی عرب کو صحیح اور مفید فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اس نے جذباتی اور غیر قابل کنٹرول اقدامات کی راہ اپنا لی ہے، جو اس کیلئے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ذیل میں اس بارے میں چند اہم نکات پیش کئے جا رہے ہیں:
1۔ سیاسی اور مذہبی رہنماوں کو سزائے موت سنائے جانے اور پھر اس پر عملدرآمد درحقیقت اس امر کا اعتراف ہے کہ حکمران طبقہ اپنی مرضی کے خلاف کوئی آواز سننے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف ایسے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آل سعود رژیم اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ وہ ایک بڑے عالم دین کو شہید کرنے اور اس کے ساتھ 47 افراد جن کی اکثریت بااثر شیعہ اور سنی رہنماوں پر مشتمل تھی، کو قتل کرنے کے ممکنہ نتائج کو بھی درک کرنے سے عاجز ہے۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران مغربی ذرائع ابلاغ میں ایسے سینکڑوں مقالات شائع ہوئے، جن میں آل سعود رژیم کے ممکنہ زوال اور خاتمے پر شدید پریشانی کا اظہار کیا گیا اور آل سعود رژیم کی جانب سے آیت اللہ باقر النمر کو شہید کئے جانے کے منفی نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان مقالات میں شیخ نمر کی سعودی حکومت کے ہاتھوں شہادت کو اس ملک میں بحرانوں کا ایک نیا سلسلہ جنم لینے کا پیش خیمہ قرار دیا گیا ہے۔ لہذا سعودی حکومت نے ایک ایسا اقدام انجام دیا ہے، جسے ایک قسم کی سیاسی خودکشی کہا جاسکتا ہے۔

2۔ اس بات کے قوی شواہد موجود ہیں کہ آیت اللہ باقر النمر کو شہید کرنے پر مبنی سعودی اقدام کے پیچھے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ صہیونی حکام کسی لمبی چوڑی تحقیق کے بغیر ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعودی حکومت کی جانب سے معروف شیعہ رہنما کو شہید کرنے کے کیا اثرات رونما ہوسکتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ یہ سعودی اقدام ایک طرف تو سعودی عرب اور ایران کے تعلقات پر شدید منفی اثرات ڈالے گا، جو پہلے سے ہی انتہائی تزلزل کا شکار چلے آرہے تھے۔ اسی طرح وہ اس بات کا بھی اندازہ لگا رہے تھے کہ آیت اللہ باقر النمر جیسی محبوب شیعہ شخصیت کو شہید کرنے کے بعد دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کے دل میں سعودی حکومت اور اس کی ہمنوا حکومتوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگی اور فرقہ واریت کی آگ کو ہوا ملنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے درمیان خونریز تصادم کا بھی امکان پایا جاتا ہے۔ غاصب صہیونی حکام یہ سوچ رہے تھے کہ اس انتہائی اقدام کے بعد سعودی حکومت کو خطے میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف مزید شدت پسندانہ اقدامات انجام دینے پر راضی کیا جاسکتا ہے اور اس طرح ایران کو بھی جو اب تک کھلم کھلا سعودی عرب کے مقابلے میں آنے سے کتراتا آرہا تھا، سعودی عرب کے مدمقابل لا کھڑا کیا جاسکتا ہے۔

صہیونی رژیم کی نظر میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ممکنہ ٹکراو کے نتیجے میں عالم اسلام نہ چاہتے ہوئے بھی دو حصوں میں بٹ جائے گا، جس کے نتیجے میں اسلامی دنیا پر اسرائیل کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہونے کا امکان موجود ہے۔ اسرائیلی حکومت جو اسلامی مزاحمت سے براہ راست ٹکر لینے سے عاجز ہوچکی ہے، اب ایران کے مقابلے میں سعودی عرب کو لا کھڑا کرنے میں ہی اپنی نجات تصور کر رہی ہے۔ دوسری طرف سعودی حکومت جو گذشتہ چند سالوں کے دوران غلط فیصلوں کی وجہ سے خطے میں اپنا مقام اور اثر و رسوخ کھو بیٹھی ہے، اب یہ سوچ رہی ہے کہ اسرائیل کے منصوبوں میں اس کا ساتھ دے کر شائد وہ مغربی قوتوں کے نزدیک اپنا کھویا ہوا مقام اور حیثیت واپس لوٹا سکتی ہے، کیونکہ عام حالات میں کسی بھی حکومت سے اس قدر خطرناک اور انتہائی اقدامات کی توقع نہیں کی جاسکتی، لہذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں سعودی حکومت مزید خطرناک اور زیادہ مجرمانہ اقدامات انجام دے سکتی ہے۔

3۔ آیت اللہ باقر النمر کی شہادت سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی رژیم شیعہ شہریوں کو اپنے لئے سب سے بڑا سکیورٹی خطرہ تصور کرتی ہے اور ان میں سے بھی معروف مذہبی رہنماوں سے زیادہ خطرے کا احساس کرتی ہے۔ حقیقت کا جائزہ لینے کیلئے دو نکتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ گذشتہ 30 برس کے دوران کبھی بھی سعودی عرب کے شیعہ شہریوں نے اس ملک کی قومی سلامتی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جبکہ الشرقیہ، عسیر، نجران اور جیزان جیسے شیعہ اکثریت علاقے انتہائی پسماندگی، محرومیت اور غربت کا شکار ہیں اور وہاں بسنے والے شیعہ مسلمان انتہائی سختی سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کی کل آبادی کا 30 فیصد سے زائد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، جن کی تعداد تقریباً 57 لاکھ کے قریب ہے۔ سعودی عرب میں موجود تلخ حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی ملک کے سیاسی امور سے بالکل لاتعلق کر دی گئی ہے اور ان کا حکومتی بلکہ بلدیاتی معاملات میں بھی کوئی عمل دخل نہیں۔ اگرچہ شیعہ شہری اس خراب صورتحال پر احتجاج کرتے رہتے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک کسی قسم کا سکیورٹی قدم نہیں اٹھایا۔

دوسرا یہ کہ شیعہ مسلمانوں میں انقلابی سوچ کا غلبہ ہونے کے باعث انہوں نے ہمیشہ سے ملک میں موجود کرپشن، ظلم و ستم اور سیاسی انحرافات پر صدائے احتجاج بلند کی
ہے۔ واضح ہے کہ یہ صدائے احتجاج محرم اور صفر کے مہینوں میں اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے، کیونکہ یہ عزاداری امام حسین علیہ السلام اور عاشورا کے ایام ہوتے ہیں۔ آل سعود رژیم اسی وجہ سے عزاداری امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہے۔ دوسری طرف انقلابی شیعہ علماء معاشرے میں بہت زیادہ محبوبیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ظلم کے خلاف جدوجہد کے جذبے سے بھی سرشار ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شہید آیت اللہ النمر کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ جب انہیں اپنی شہادت کے یقینی ہونے کا علم ہوا تو ان کا چہرہ کھل اٹھا اور انتہائی شجاعت اور دلیری سے موت کا استقبال کیا، کیونکہ وہ رضوان الٰہی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

4۔ گذشتہ چند ہفتے کے دوران خطے میں رونما ہونے والے واقعات جن کے دوران اکثر شیعہ مذہبی رہنماوں اور علماء کو نشانہ بنایا گیا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سعودی عرب میں آیت اللہ باقر النمر کی شہادت کا فیصلہ بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔ چند ہفتے قبل نائیجیریا کے شہر "زاریا” میں آرمی نے شیعہ مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاون کیا اور سینکڑوں نہتے شیعہ شہریوں کا قتل عام کر دیا جبکہ نائیجیریا میں شیعہ مسلمانوں کے قائد آیت اللہ شیخ ابراہیم زکزاکی کو بھی شدید زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ اسی طرح آذربائیجان کے شہر "نارداران” میں پلیس کی جانب سے شیعہ مسلمانوں پر چڑھائی کر دی گئی، جس کے نتیجے میں کئی شیعہ شہری شہید اور بہت زیادہ تعداد میں گرفتار ہوگئے۔ "غزنی” میں شیعہ عزاداروں پر وہابی تکفیری دہشت گردوں کا حملہ وغیرہ۔ یہ تمام اقدامات ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں اور یہ سلسلہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے جا ملتا ہے۔ واضح ہے کہ سعودی رژیم کی جانب سے 47 بااثر افراد جن میں سے سب سے زیادہ معروف آیت اللہ باقر النمر تھے، کو شہید کیا جانا سعودی حکومت کے بس کی بات نہ تھی بلکہ یہ درحقیقت اسی اسرائیلی منصوبے کی تکمیل پر مبنی اقدام تھا۔ اس بات کا واضح ثبوت سعودی حکومت کے اس اقدام کے بعد اسرائیلی حکام کی جانب سے اظہار مسرت اور خوشحالی ہے۔ لہذا یہ اقدامات خطے کے خلاف منحوس اسرائیلی منصوبے کو ظاہر کرتے ہیں، جس کا مقابلہ کرنے کیلئے انتہائی ہوشیاری کی ضرورت ہے۔

5۔ سعودی عرب اور اس کی پیروی میں چند ایسے عرب ممالک جنہیں مشکل سے ایک خود مختار ملک کہا جاسکتا ہے، کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنا کوئی موثر اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بڑی وجہ "حج” تھا اور حج کا زیادہ فائدہ بھی سعودی عرب کو ہی ہو رہا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے ایران کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے بعد ایران پر بھی اپنے ان شہریوں کی جانب سے دباو کم ہو جائے گا، جو حج پر جانے کا اصرار کرتے تھے۔ اگرچہ سعودی عرب نے ایران سے تعلقات ختم کرکے خود کو مقتدر اور طاقتور ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سفارتکاری کی دنیا میں ایسے ملک کو طاقتور تصور کیا جاتا ہے، جس کے زیادہ سے زیادہ ممالک سے تعلقات استوار ہوں اور دوسرے ممالک سے تعلقات ختم کرنے کو ایک ملک کی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کو دوبارہ ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی، کیونکہ جس ملک سے تعلقات منقطع کئے جاتے ہیں وہ دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی خواہش کی صورت میں مشروط طور پر تعلقات استوار کرنے پر راضی ہوتا ہے۔ امریکہ نے 1981ء میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لئے تھے، جس کے ردعمل میں امام خمینی رحمہ اللہ نے فرمایا: "اگر کارٹر نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایک کام کیا، جس سے دنیا کے مظلومین کو فائدہ پہنچا ہو تو وہ یہی اقدام ہے۔” جمی کارٹر کے بعد آنے والے امریکہ کے صدور مملکت نے ایران کے ساتھ تعلقات دوبارہ بحال کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر لیں، لیکن ابھی تک وہ ایران کے ساتھ دوبارہ تعلقات بحال نہیں کر پائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران سے تعلقات توڑنے کا نقصان سعودی عرب کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button