مضامین

ترکی اور سنی ممالک کے اتحاد کی حقیقت

تحریر: عرفان علی

 

رجب طیب اردگان ایک طویل عرصہ سے ترکی کے سیاسی منظر نامے کے ایک اہم کردار ہیں۔ پہلے وزیراعظم اور اب صدر کی حیثیت سے وہ ترکی کو ایک ایسی سمت میں دھکیل چکے ہیں کہ جہاں صرف اور صرف ناکامی ترکی کا مقدر قرار پائے گی۔ 2009ء سے 2014ء تک احمد دواؤد اوغلو ان کے وزیر خارجہ تھے جو اب وزیر اعظم ہوچکے ہیں، لیکن بنیادی طور پالیسی ساز شخصیت اردگان ہی ہیں۔ مغربی بلاک سے نکلنے کے لئے موجودہ سیاسی سیٹ اپ جو ایک عشرے سے زائد عرصہ سے ترکی کے سیاہ و سفید کا مالک ہے، نے مشرق اور خاص طور پر مشرق وسطٰی کے معاملات میں گھسنے کی کوشش کی، لیکن شام پر اختیار کی گئی ناقص خارجہ پالیسی نے ترکی کو پوری دنیا کے سامنے ایک نااہل ملک کی حیثیت سے بے نقاب کر دیا۔ یہ چند سطور جو تحریر کی گئیں، یہ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ ترکی کے سینیئر سفارتکاروں کی ماہرانہ رائے ہے، جو آج 24 فروری کو دنیا کے سامنے آئی ہے۔ شام پالیسی کے بارے میں ترکی کے خواص کی رائے پاکستان سمیت اس خطے کے عرب و عجم مسلمانوں کے لئے خاص طور پر اہمیت کی حامل ہے اور اگر اس پر غیر جانبداری سے غور کیا جائے تو ہر ذی شعور ترکی کی قیادت کو یہی مخلصانہ مشورہ دیتا نظر آئے گا کہ اسے فوری طور پر اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرکے متوازن کرنا ہوگا۔

سابق سفارتکار اولوک اوزلکر یورپی یونین اور فرانس میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردگان حکومت اپنے مخصوص قومی وژن کے تحت جن پالیسیوں پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، درحقیقت ترکی کے پاس نہ تو ایسے ذرائع ہیں اور نہ ہی اہلیت و صلاحیت کہ اس پر عمل ہوسکے۔ ان کی نظر میں ترکی نے مغرب کی بجائے مشرق کی سمت دیکھنا شروع کیا اور خود کو خطے کے ممالک کا بڑا بھائی باور کروانے لگا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پڑوسی ممالک اور خطے کی دیگر طاقتیں اس سے دور ہوتی چلی گئیں۔ ایک اور غلطی یہ کہ احمد داؤد اوغلو نے مثالیت پسند خارجہ پالیسی کو ہی برقرار رکھا اور یہ سمجھا کہ وہ اپنی وزارت عظمٰی کے دور میں صورتحال کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ عملی طور پر صورتحال اس کے برعکس تھی، کیونکہ ترکی کی جیو پولیٹیکل حیثیت کبھی بھی اس ہدف کے حصول کے لئے سازگار نہیں رہی۔ خارجہ پالیسی میں ان کی اپروچ انتقام پسندانہ رہی اور جس ملک نے بھی ان کی نہیں سنی، ترکی کی قیادت نے اس کا حقہ پانی بند کرنے کی ٹھان لی۔

اوزلکر کے مطابق ترک قیادت یہ بھول گئی کہ خارجہ پالیسی میں دوستی دشمنی نہیں بلکہ مفادات مستقل ہوتے ہیں۔ مغرب سے اس نے دوری اختیار کرلی، لیکن مشرق میں بھی اسے کوئی حیثیت نہیں دی گئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کی کوشش کی تو اس میں بھی ناکامی مقدر بنی۔ اب ترکی بیچ منجدھار میں پھنسا ہوا ہے۔ ایسے اشارے موجود ہیں کہ وہ پھر مغربی بلاک میں واپسی کے لئے کوشاں ہے لیکن یہ کوششیں بھی عارضی محسوس ہوتی ہیں۔ اوزلکر ایسی رائے کے حامل تنہا فرد نہیں بلکہ دیگر سینیئر سفارتکار بھی ان سے ملتی جلتی اور بعض ان سے زیادہ سخت ناراضگی پر مبنی رائے کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔ بیلجیم میں ترکی کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے تیمل اسکٹ نے تو دسمبر 2012ء ہی میں خبردار کر دیا تھا کہ عراق اور شام کے بارے میں ترک پالیسی خطرناک ترین غلطی ہے۔ ان کی نظر میں ترکی پہلے خطے میں ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا اور خود ترکی کو ثالث کی ضرورت پڑگئی ہے۔

تازہ ترین انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف ترکی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی یہ سمجھنے کی غلطی کر رہا ہے کہ وہ سنی دنیا کا لیڈر ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ شام کا بحران یہ ثابت کر رہا ہے کہ ترکی کی پالیسی گمراہی پر مبنی تھی۔ بلاشبہ سبھی نے شام کے مسئلے پر غلطی کی، کیونکہ سبھی یہ سمجھ رہے تھے کہ بشار الاسد کی حکومت بہت تیزی سے ہٹا دی جائے گی اور اس کی جگہ کوئی دوسرا برسر اقتدار آجائے گا۔ دیگر ممالک تو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہوگئے، لیکن ترکی اپنی غلطی کی تکرار پر اصرار کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احمد داؤد اوغلو سے زیادہ سابق وزیراعظم اور موجودہ صدر رجب طیب اردگان اس صورتحال کے اصل ذمے دار ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے ذاتی خیالات کو سب پر تھوپ دیا اور جس کسی نے ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا، جیسا کہ شام کے صدر بشار الاسد نے، تو اردگان ان کے دشمن ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مغربی ممالک، روس اور یگر کے تعلقات ترکی کے ساتھ اچھے نہیں رہے۔ جب تک اردگان برسر اقتدار ہیں، عالمی سطح پر ترکی کی مشکلات برقرار رہیں گی۔

ان دو سابق سفارتکاروں سے زیادہ واضح اور زیادہ آسان الفاظ میں مدلل گفتگو مرات بلہم نے کی۔ اکتالیس سال ترک وزارت خارجہ کے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دینے والے مرات بلہم وزارت خارجہ کی اسٹرٹیجک پلاننگ کمیٹی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ترکی کی سب سے بڑی غلطی پیچیدہ علاقائی تنازعات میں فریق بننا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ خارجہ پالیسی کا تقاضا ہے کہ جذبات سے مغلوب نہ ہوا جائے اور اگر جذبات اور doctrinirae موقف کے آگے خود کو سرنگوں کر دیا جائے تو پھر زیادہ دیر نہیں گذرتی کہ اس کے منفی نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ ترکی کی جیو پولیٹیکل پوزیشن اس بات کی متقاضی ہے کہ کثیر الجہتی پر مبنی خارجہ پالیسی بن
ائی جائے۔ ترکی اہنی یک بعدی پالیسیوں کی وجہ سے ٹریپ ہوچکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں مغرب کی طرف جھکاؤ پر مبنی پالیسی بھی غلط تھی اور آج صرف مشرق وسطٰی پر توجہ دی جا رہی ہے، یہ بھی غلط ہے۔ ترکی کی فیصلہ ساز شخصیات ماہرین کی رائے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس طرح و ہ غلطی پر غلطی کرتے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹرٹیجک غلطیوں کو tactical چالوں سے درست نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی نظر میں کوئی چیز ایسی نہیں جسے سفارتکار ی کے ذریعے حل نہ کیا جاسکتا ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ غلط پالیسیوں کو ریورس کر دیا جائے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ حتمی اختیار فیصلہ ساز شخصیات اور اداروں کو حاصل ہوتا ہے، لیکن ان کے فیصلوں میں ماہرین کی رائے بھی منعکس ہوتی نظر آنی چاہیے۔

ترکی کے سینیئر سفارتکاروں کی طرح فوجی خواص کی اکثریت بھی شام کے بارے میں اردگان حکومت کی پالیسی سے پریشان نظر آتی ہے۔ ترکی نے ایک جانب اپنے ملک میں آباد ترک کردوں کو غدار وطن کا لیبل چسپاں کرکے اسے حقوق سے محروم کر رکھا ہے تو پچھلے کئی برسوں میں اس نے عراق میں گھس کر اس کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عراق میں بھی فضائی بمباری کرکے کردوں کا قتل عام کیا ہے۔ اب شام میں بھی وہ کردوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ شام کے سنی عرب اور کرد سنی ایک جانب داعش، جبہۃ النصرہ اور ان جیسے درجنوں تکفیری وہابی گروہوں کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں تو دوسری جانب سعودی عرب، قطر اور ترکی، امریکا اور جعلی ریاست اسرائیل کے اتحادی کی حیثیت سے انہی دہشت گردوں کو اسلحہ و مالی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اگر یہ سنی اتحاد ہوتا تو عرب اور کرد سنیوں کے قاتل وہابی تکفیری دہشت گردوں کو کچلتا، نہ کہ ان دو آبادیوں کا دفاع کرنے والی بشار الاسد حکومت کے خلاف سازشیں کرتا۔ اس اتحا دکے بننے سے پہلے ہی صہیونی شین بیتھ کے سابق سربراہ ایمی ایالون نے اسے سنی کوالیشن کا نام دے دیا تھا۔ جو اتحاد بنا ہی صہیونیوں کے مفاد میں ہو، اس سے خیر کی توقع رکھنا ہی فضول ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button