Uncategorized

او لیول اسکولز کو زیادہ خطرے کا سامنا ہے، سیکریٹری تعلیم کا عدالت میں بیان

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)سندھ بھرکے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی فول پروف بنانے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ انتہائی حساس قرار دیے جانے والے تعلیمی اداروں کی چھتوں پر اسنائپرز تعینات کرنے سے متعلق سندھ کابینہ کے فیصلے سے ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو آگاہ کر دیا ہے، او لیول اسکولز ہائی رسک ہیں.

پہلے مرحلے میں انتہائی حساس قرار دیے جانے والے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے لیے 7 ارب سے زائدکا پی سی ون پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کو ارسال کر دیاہے۔ ابتدائی مرحلے میں3030 تعلیمی اداروں کی نشاندہی کر لی ہے،بدھ کو سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں قائم 2رکنی بینچ نے پائلر کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی،دوران سماعت سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو نے توہین عدالت کی درخواست میں اپنا جواب داخل کرایا جس میں بتایاگیا کہ 6اضلاع کے علاوہ دیگر اضلاع نے حساس تعلیمی اداروں کی نشاندہی کردی ہے ان اسکولوں کی تعداد 3ہزار 30ہے اور فنڈز کے اجرا کے لیے سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسال کر دی جائے گی ۔بقیہ اسکولوں کی جانب سے نام آْنے پر کام شروع کر دیا جائے گا، سیکریٹری تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ تعلیم نے ایک مرکزی شکایت سینٹر قائم کیا ہے جس پر دیگر امور کے علاوہ سیکیورٹی کی شکایات بھی موبائل فون کے ذریعے بھیجی جاسکتی ہیں اور اس مرکز کا لنک قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے کیا جائیگا،کراچی میں90، بے نظیر آباد میں 30نوشہروفیزوز میں 33لاڑکانہ میں 25اسکولوں کی حالت بہتر کر دی گئی ہے ، انھوں نے مزید بتایا کہ کراچی کے 7795اسکولوں میں سے او لیول اسکولز ہائی رسک ہیں۔

دوران سماعت چیف سیکریٹری محمد صدیق میمن نے عدالت کو بتایا کہ فوج کے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے انتظامات فوج کے ہی پاس ہیں، پولیس کی جانب سے گشت جاری ہے، مشنری اسکولوں اور پرائیویٹ اسکولوں نے بھی خود سے انتظامات کررکھے ہیں، ان اسکولوں میں پولیس اہلکار کی تعیناتی کے علاوہ پٹرولنگ بھی کی جا رہی ہے، سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں میں کم ازکم ایک چوکیدار تعینات ہے۔تعلیمی اداروں کی حالت بہتر کرنے، دیواروں کو اونچا کرنے اور سیکیورٹی کے انتظامات کے لیے سندھ کا بینہ کا اجلاس یکم فروری کو ہوا جس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق پہلے مرحلے میں 8ہزار 417تعلیمی اداروں کیلیے 7ارب 63کروڑ 60لاکھ اور 79ہزار روپے کا پی سی ون تیار کرکے متعلقہ حکام کو ارسال کر دیا گیا ہے، اضلاع کے کمشنر ز اور ڈپٹی کمشنر کو حساس تعلیمی اداروں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس کے بعد ان میں کام شروع کیا جا ئے گا ۔

چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل پرائیویٹ اسکولز نے تمام پرائیویٹ اسکولز انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایڈمیشن ، ٹیوشن اور سالانہ فیس طے کردہ طریقہ کار کے مطابق لی جائے،اس کے علاوہ کسی بھی ناخوش گوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی سیکیورٹی رسپانس کا نظام وضع کیا جا رہا ہے جس میں موبائل فون سروس بھی شامل ہے، دوران سماعت سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صوبہ کے کسی بھی اسکول میں اضافی فیس نہیں لی جارہی ہے جس پر عدالت نے اپنی آبزوریشن میں قرار دیا کہ ہمارے پا س شواہد ہیں کہ نجی اسکول سیکیورٹی کے نام پر فی طالب علم ہزار روپے اضافی لے رہے ہیں۔

سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بعدازاں دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے،واضح رہے کہ اے پی ایس پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پائلر نامی این جی او نے سندھ کے تعلیمی اداروں کے لیے حفاظتی انتظامات کی خاطر آئینی درخواست دائر کی ہے جس میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد وی وی آئی پیز کے پروٹوکول اور سیکیورٹی پرمامور ہے ، ان پر 29ارب روپے کا بجٹ صرف کیا جارہا ہے ، لیکن عام شہریوں بالخصوص تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button