مظلومیت یمن و فلسطین
تحریر: صابر کربلائی
ترجمان فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ حق و باطل کا معرکہ رہا ہے اور اس معرکے میں دو طبقات سامنے آتے رہے ہیں، جن کو دنیا مظلوم اور ظالم کے عنوان سے جانتی ہے، ہمیشہ حق و باطل کے معرکے میں ظالم اور مظلوم مدمقابل نظر آئیں گے، اس معاملے میں کسی قسم کی مذہبی، مسلکی اور رنگ و نسل کی تفریق بھی نہیں کی جاسکتی، کیونکہ ظالم کوئی مسلمان بھی ہوسکتا ہے اور مظلوم کوئی کافر بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کافر ظالم بھی ہوسکتا ہے اور مسلمان مظلوم بھی ہوسکتا ہے، ظالم و مظلوم دونوں ہی کسی بھی مسلک یا خطے سے تعلق رکھنے والے ہوسکتے ہیں، ضروری نہیں کہ کسی خاص خطے یا علاقے کے لوگ ہی ظالم ہوں گے اور اسی طرح یہ بات بھی ضروری نہیں کہ کسی خاص خطے یا علاقے یا ملک کے لوگ ہی مظلوم ہوں گے، مظلوم ہر اس مقام پر موجود ہوں گے، جہاں ظالمین ہوں گے، جہاں جبر و طاغوت ہوگا، مظلوم ہر اس مقام پر پائے جاتے ہوں گے، جہاں دنیا کی نام نہاد استعماری قوتیں اپنے ناپاک مقاصد کو انجام دینا چاہتی ہوں گی۔
اگر ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کی ہی بات کریں تو ہمیں یہاں بھی ظالم اور مظلوم طبقہ نظر آئے گا، ایک طبقہ ایسا ہے جو انہی مظلوموں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اقتدار پر براجمان ہو جاتا ہے، لیکن بعد میں انہی مظلوموں کا استحصال کبھی مہنگائی کی صورت میں، کبھی بے روزگاری اور عدم رہائش جیسی مشکلات کی صورت میں سامنے آتا ہے، یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ جس طرح ہمارے معاشرے میں ظالمین کا ایک گروہ موجود ہے، جو گذشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلانے کے لئے بم دھماکوں، دہشت گردانہ حملوں سمیت سفاکانہ کارروائیوں کو انجام دیتا ہے کہ جن میں معصوم بچوں سمیت خواتین و بزرگ، نوجوان، ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، علماء و اکابرین سمیت وطن کے معمار نشانہ بنتے رہے ہیں، یہاں پھر اسی بات کو دہراتا ہوں کہ ظالم کا نہ تو کسی مذہب و مسلک سے تعلق ہے اور اسی طرح مظلوم بھی کسی بھی مذہب، فرقہ، مسلک، قوم، رنگ ونسل، قبیلہ سے ہوسکتا ہے۔
بات جب مظلوم اور ظالم کی ہو رہی ہو تو دنیا کے سامنے شاید کربلا سے زیادہ بڑی اور موثر مثال موجود نہ ہوگی کہ جہاں نواسہ رسول (ص) اور آپ کے اہلبیت کرام مظلوم شہید ہوئے، جبکہ دوسری جانب بظاہر کلمہ گو یزید اور اس کے ہزاروں کی تعداد میں ظالم دہشت گرد ساتھی موجود تھے، اب دنیا ان کو کسی بھی مذہب یا مسلک سے منسلک کرے، لیکن بات وہی ہے ظالم تو ظالم ہی ہے۔ یہ کربلا تو 61 ہجری میں بپا ہوئی تھی، جس کو قیامت تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایک کربلائے فلسطین ہے جو 1948ء سے آج تک جاری ہے اور اسی طرح حریت پسندی کے راستے میں کسی مسیحا، کسی حسین کی تلاش میں ہے کہ جو اس کربلا کو سرخرو کر دے۔ آج کربلائے فلسطین پر ہونے والے مظالم پر دنیا کے انسانوں کے دل پھٹ جانے چاہئیں۔ کربلائے فلسطین گذشتہ 67 برس سے لہولہان ہے اور آئے روز معصوم فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے، حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح چند صیہونی فوجی ایک نہتے فلسطینی نوجوان کو گولیوں سے چھلنی کر رہے ہیں، حتٰی کہ پہلی گولی لگنے سے ہی نوجوان شہید ہوچکا ہے، لیکن اسے مزید درجنوں گولیوں ماری جا رہی ہیں اور کیمرے کی آنکھ نے یہ مناظر ضبط کر لئے کہ شاید دنیا کا ضمیر جھنجھوڑا جائے۔
بہرحال ان مظالم کا سلسلہ طویل ہے، جس کے لئے اگر کتابیں بھی لکھی جائیں تو کم ہیں، لیکن ایک معاملے میں ملت فلسطین خوش قسمت ہے کہ بالآخر دنیا بھر میں جہاں حکومتوں نے انہیں تنہا چھوڑ رکھا ہے، وہاں دنیا کے حریت پسندوں نے انہیں فراموش نہیں کیا ہے، یعنی دنیا بھر کے اندر فلسطینی مظلومین کے حق میں صدائے احتجاج بلند ہوتی رہتی ہے، جس کے باعث مسئلہ فلسطین نہ صرف فلسطینی عوام کے درمیان زندہ ہے بلکہ اقوام عالم کے درمیان بھی زندہ ہے، اس کی ایک واضح مثال خود پاکستان ہے کہ جہاں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں غیر سرکاری تنظیمیں اور فلسطین عنوان پر فائونڈیشن کام کر رہی ہے۔ اب آیئے ذرا کربلائے یمن کی بات کرتے ہیں کہ جہاں گذشتہ ایک برس سے بالکل فلسطین کے اندر ہونے والے ظلم اور بربریت کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں کہ ایک طرف جہاں غاصب اسرائیل نے فلسطینیوں کے گھروں کو گولہ باری کرکے مسمار کر دیا ہے تو دوسری جانب عرب خلیجی اتحادیوں نے سعودی عرب کی سربراہی میں یمن کے معصوم اور نہتے عوام کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا ہے، جو غاصب اسرائیل نے فلسطینیوں کے لئے رکھا ہے، اسی طرح مقبوضہ فلسطین میں بھی اسکول کی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں تو یہاں یمن میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔
معصوم بچوں کو مقبوضہ فلسطین میں بھی قتل و غارت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یمن میں بھی جنگی جہاز اپنی مہارت دکھاتے ہوئے معصوم بچوں پر گولہ باری کرتے ہوئے بالکل اسی طرح سے ان کا قتل عام کر رہے ہیں۔ جس طرح فلسطین میں اسرائیل کر رہا ہے، حتٰی کہ ہر وہ ظلم اور بربریت یمن میں دیکھی جاسکتی ہے، جو مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں انجام پاتی رہی ہے، البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ فلسطین کی مظلوم ملت کو غاصب اسرائیل جیسا خونخوار جانور نوچ کھا رہا ہے تو یمن کے مظلوم عوام کو اسلام کے نام لیوا، کلمہ گو، پانچ وقت کے نما
زی اور اللہ کے بڑے اطاعت گزار بندے نوچ کھا رہے ہیں اور اس عمل میں ان کے ساتھ خلیجی عرب ریاستیں بھی شامل ہیں، جبکہ حالیہ دنوں موصول ہونے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے یمن مخالف اتحاد نے بدنام زمانہ دہشت گرد گروہ بلیک واٹر کو بھی ٹھیکہ دیا ہے کہ وہ یمن میں آکر یمنی عوام کا استحصال کریں اور ان کے من پسند افراد کی حکومت تشکیل دینے میں مدد کریں۔
بہرحال ان تمام باتوں سے ایک طرف ہو کر دیکھیں کہ یمن کے مظلوم کس قدر مظلوم ہیں کہ قتل بھی ہو رہے ہیں لیکن ان کے لئے کوئی بھی آواز اٹھانے والا نہیں ہے، کیونکہ پوری مسلم دنیا کس کے خلاف آواز بلند کرے؟ آخر کس کے خلاف؟ کیا سعودی عرب کے حکومت کے خلاف؟ لیکن کیسے؟ مسلمانوں نے تو سعودی حکمرانوں کو شاید کعبة اللہ کا مقدس غلاف سمجھ رکھا ہے کہ جس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جائے گی، چاہے یہ مقدس غلاف ایک سال میں دس ہزار یمنی مسلمانوں کو خون میں غلطاں کر دے، مسلمانوں نے تو قسم ہی کھا رکھی ہے کہ عرب اور خلیجی ممالک کے یمن میں جاری مظالم پر کوئی بات ہی نہیں کرنی ہے، لیکن اس معاملے میں پھر بھی فلسطینیوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ جن کے لئے نہ صرف فلسطین بلکہ فلسطین سے باہر پوری دنیا بالخصوص پاکستان سے بھی آواز اٹھائی جاتی ہے اور فلسطینیوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت جاری ہے۔ لیکن کس قدر مظلم ترین ہیں یہ یمن کے عوام کہ جن کے لئے کوئی آواز بلند نہیں کرتا ہے، اگر کوئی کوشش کرتا ہے تو اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے یا اس آواز کو مکمل ختم کر دیا جاتا ہے۔
بہرحال آج دور حاضر میں فلسطین، عراق، شام، لبنان، پاکستان، افغانستان کے اندر ظالم قوتوں کے مظالم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ مظلومین عالمی سامراجی قوتوں امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل سمیت ان کے پیدا کردہ دہشت گرد گروہوں داعش، طالبان، القاعدہ اور دیگر کے ہاتھوں تہہ و بالا ہو رہے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں سے یمن ایک طرف ہے کہ جہاں القاعدہ، داعش اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے جنگی طیارے اور اسرائیلی فضائیہ سمیت خلیجی عرب ممالک کی افواج معصوم انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں، لیکن افسوس صد افسوس کے دنیا میں کوئی ایسی حکومت موجود نہیں جو ان مظالم کو آشکار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے یا کم سے کم ان مظالم کی مذمت ہی کرے، بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فلسطینیوں کی مظلومیت اپنی جگہ ہے، شامی عوام کی مظلومیت بھی کسی سے کم نہیں، عرا ق کے عوام بھی مظلوم ہیں، پاکستان کے عوام بھی مظلوم ہیں، کشمیر مظلومیت کی مثال آپ ہے، افغانستان بھی مظلومین کا ملک ہے، لبنان میں بھی مظلومین ہیں، ان سب کی مظلومیت ایک طرف لیکن یمن کی مظلومیت ایک طرف ہے، جس کے لئے دنیا کو آواز اٹھانا پڑے گی اور انسانی ضمیر کو بالآخر بیدار ہونا پڑے گا، تاکہ ظالم سے نفرت کا اظہار کیا جائے۔ چاہے وہ ظالم کسی بھی شکل اور مذہب یا مسلک اور رنگ ونسل میں موجود ہو، ظالم کو ظالم کہنا ہوگا اور مظلوم چاہے وہ کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سمیت کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں، خواہ وہ فلسطینی ہوں، یا یمنی ہو ہمیں ہر مظلوم کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، بصورت دیگر کل بروز قیامت اللہ کے سامنے اور رسول اللہ (ص) کے سامنے کیا منہ لے کر پیش ہوں گے۔؟