مضامین

ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی، تحرک، بیداری اور جاذبیت

تحریر: ارشاد حسین ناصر

 

بعض لوگ آج ان کی شہادت کو اکیس برس ہونے کے باوجود سمجھ نہیں پائے کہ ان کی شخصیت میں اس قدر جاذبیت اور مقناطیسیت کیوں تھی، بلاشبہ وہ شہادت سے پہلے کی زندگی میں تو بے حد جاذبیت رکھنے والے شہید قائد کے بعد سب سے بڑی شخصیت تھے، مگر ان کی شہادت کے بعد بھی ان کی جاذبیت اور مقناطیسیت کا یہ عالم بہت سے لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈالے ہوئے ہے اور وہ انگشت بدندان ہیں کہ اکیس برس ہونے کو آئے، نوجوان آج بھی ان کی شخصیت کو آئیڈیالائز کرتے ہیں، ان کے مزار پہ دیوانہ وار آتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ان کی یاد میں گریہ ہوتا ہے، ان کی باتوں، ان کی کہانیوں، ان کے کارناموں، ان کے شجاعانہ قصوں، ان کے فلاحی منصوبوں، ان کے یادگار اور پر اثر لیکچرز، ان کے دلنشین خطابوں، ان کے حیران کر دینے والے منصوبوں اور ان کی زندگی کے ان گنت و لامتناہی سلسلوں کا تذکرہ ہوتا ہے، انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، انہیں سلام عقیدت اور نذرانہ محبت پیش کیا جاتا ہے۔

یہ سب واقعی بہت حیران کر دینے والا ہے اور ہر اس شخص کیلئے اس میں حیرت کا مقام ہے، جس نے شہید ڈاکٹر کو زندگی میں نہیں دیکھا اور جس کو ان کی قربت نصیب نہیں ہوسکی اور جو ان سے فیض نہیں پا سکا یا جسے ان سے کسی بھی وجہ سے رغبت نہیں تھی، مگر ہر اس دوست کیلئے جس نے ان کی قربت حاصل کی، جس نے انہیں کام کرتے دیکھا، جس نے انہیں متحرک اور مسلسل فعال پایا، جس نے انہیں لوگوں کا درد محسوس کرتے دیکھا، جس نے انہیں قومیات میں اپنی زندگی کے قیمتی ایام، ماہ و سال خرچ کرتے دیکھا، جس نے انہیں ایثار و قربانی کی عملی تصویر بنے دیکھا، جس نے انہیں نوجوانوں کے مسائل حل کرتے دیکھا، جس نے انہیں افق پاکستان پر روشن اور چمکتے، دمکتے دیکھا، اس کے سامنے یہ محبتوں اور عقیدتوں کے نچھاور ہونے والے پھول اور جاذبیت کے یہ نمونے کسی بھی طور انجانے اور غیر فطری نہیں، ہاں۔۔یہ اس خلوص کا انعام ہی تو ہے جو وہ لوگوں پر نچھاور کرتے تھے، یہ اس قربانی اور ایثار کا بدل ہی تو ہے جو وہ کسی عام سے انسان کیلئے دیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے تھے، یہ اس درد کا حاصل ہی تو ہے جسے اپنے سینے میں سجائے وہ کراچی سے لیکر بلتستان تک اور کوئٹہ سے لیکر پاراچنار تک کے مومنین کیلئے محسوس کرتے تھے۔

بھلا کوئی اور ہے تو اسے سامنے لایا جائے کہ جو ان کا مقابلہ کرسکے، جس کی خدمات اور کارناموں کی فہرست اور خلوص و مہربانی کا معیار ان کے عشر عشیر بھی ہو، جس کے دن اور رات، ماہ و سال مسلسل قومی زندگی کا آئینہ ہوں، جس پر اعتماد کیا جاتا ہو، جو امید اور آسرا محسوس ہوتے ہوں، جو ظاہر و باطن میں ایک جیسے ہوں، جو گفتار و کردار میں یکساں ہوں، جو اندر و باہر ایک ہی طرح کے ہوں، جو دور اور نزدیک، سفر و حضر اور دکھ و خوشی میں ایک ہی جیسے ہوں، جن کی رفتار سب سے تیز ہو، جس کا کردار سب سے بلند ہو، جس کی نگاہ سب سے دور بین ہو، جس کا ہدف سب پہ بھاری ہو، جس کا جینا خوشنودی خدا کیلئے ہو اور جس کا مرنا راہ آئمہ و انبیاٗ ہو، ہمیں تو کوئی اور ان کے مقابل نظر نہیں آتا، اگر کوئی ہوتا تو اس کی خوشبو بھی آج سب کو مہکا رہی ہوتی، سب کو جلا رہی ہوتی، سب کو اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی، میرے خیال میں اس میدان میں ان کے مقابل دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔

ممکن ہے یہ بات مایوسی کے زمرے میں محسوس کی جائے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے، اسے تسلیم کئے بنا آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید سراپا خلوص کا نام ہے، یہ نام جب بھی زبان پہ آتا ہے تو خواہ مخواہ ایک حرکت اور بیداری سی پیدا ہو جاتی ہے، وہ اپنی زندگی میں بھی تو لوگوں میں تحرک اور بیداری پیدا کرتے تھے، پاکستان میں بہت سے لوگ انقلاب اسلامی آنے کے بعد فعال ہوئے یا اس طرح کی قومی سرگرمیوں کی ضرورت محسوس کی، مگر شہید کا یہ اعزاز ہے کہ وہ انقلاب سے پہلے کے انقلابی تھے، وہ امام خمینی کے عاشق اس وقت تھے، جب انقلاب کی چکاچوند نے لوگوں کو اپنی جانب جذب نہیں کیا تھا، وہ اس وقت دین اسلام کے داعی تھے، جب پاکستان میں ان کی عمر کے نوجوان اور طالب علم اشتراکیت کے جھکڑ میں بہہ رہے تھے۔ ڈاکٹر شہید کے دوستان و احباب حتٰی خانوادہ کے افراد سے بھی پوچھیں، جنہوں نے ان کیساتھ زندگی کے ماہ و سال گذارے ہیں کہ ان کی نظر میں ڈاکٹر شہید کا تعارف بطور داعی اسلام یا بطور مبلغ اسلام حقیقی، بطور ڈاکٹر سپیشلسٹ، بطور قومی کارکن، بطور شجاع و بہادر انسان، بطور سوشل ورکر، بطور مثالی مینیجر، بطور اچھا باپ، بطور اچھا شوہر، بطور اچھا رشتہ دار، بطور دوست، بطور فرزندِ عالم دین، بطور رہنماء، بطور دانشور، بطور پیرو ولایت، بطور حامی انقلاب، بطور مسیحائے ملت ان میں سے کونسا عنوان ان پر زیادہ جچتا ہے تو کسی کے پاس کوئی جواب نہیں، اس لئے کہ انہوں نے شہید کو ہر اس روپ میں مثالی دیکھا ہے، ہر کام میں کامل اور مکمل گہرائی کیساتھ کام کی روح اور تقاضا کے عین مطابق سرانجام دینے والے تھے، پھر کیسے فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اچھے مبلغ تھے یا بڑے داعی، اچھے مینیجر تھے یا بڑے دور اندیش، وہ ہمارے زمانے کے بڑے انسان تھے، ایسے بڑے کہ جن کا متبادل شائد ہی ہم دیکھ سکیں، شائد ہی خدا کا کوئی ایسا پسندیدہ اس قوم کو دوبارہ مل سکے۔

ڈاکٹر شہید کی زندگی بہت ہی منظم ہوتی تھی اور ان کے زندگی کے آخری چند برس تو بے حد منظم گذرے
، منظم سے مراد روز مرہ کا شیڈول ہے، جو آخری ایام میں بہت باقاعدہ ہوگیا تھا، صبح شیخ زائد ہسپتال، اڑھائی بجے کے بعد وہاں سے دفتر تحریک یا آئی ایس او، یہاں تنظیمی شخصیات سے ملاقاتیں، باہر سے آنے والے منتظرین کے مسائل سے آشنائی و اقدامات، روابط اور یہاں سے امداد فاؤنڈیشن کے دفتر علی کمپلیکس، وہاں سے پانچ بجے کے قریب نجی و ذاتی ہسپتال، نو بجے کے بعد پھر کچھ ملاقاتیں اور رات گئے کسی پھر گھر۔ گھر میں بھی ان کا یہ عالم کہ فون کا سلسلہ اندرون و بیرون ممالک سے رات گئے تک جاری رہتا، اس لئے کہ اس دور میں موبائل فون کا زیادہ چلن نہیں ہوا تھا، ان کے گھر کا نمبر ہر ایک تنظیمی کو زبانی یاد ہوتا تھا، جسے بھی کوئی مسئلہ ہوتا تو اسے بلا جھجھک کسی بھی وقت فون کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ شائد اس کیوجہ یہی تھی کہ ان کی زندگی میں لاہور کی سطح پہ بالخصوص اور پاکستان بھر میں بالعموم کسی بھی تنظیمی کو کوئی بھی مشکل پیش آتی، کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی نام آتا ۔۔ وہ نام شہید ڈاکٹر کا ہی تھا۔ لاریب وہ ہر ایک کی امید تھے، ہر مسئلہ کے حل کی کلید تھے، ان کے ہوتے مایوسی ہرگز نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے ہوتے نوجوان بڑے سے بڑا رسکی کام بھی کر گذرتے کہ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو ڈاکٹر صاحب موجود ہیں۔

یہ امید اور اعتماد جو شہید ڈاکٹر کی شخصیت کی وجہ سے تھا، ساتویں مارچ 1997ء کی دم صبح تک باقی تھا، اس کے بعد نہیں رہا اور پھر ایسا ہی ہوا کہ جو نوجوان اپنی جوانیاں لٹانے کیلئے آمادہ ہوتے تھے، وہ بکھرتے گئے، کہیں دور چلے گئے اور ان میں سے بہت سے شائد کمانے میں مصروف ہیں، بس امامیہ نوجوان ہیں جو اس کارواں کو زندہ و تابندہ اور اس روایت کو تازہ رکھے ہوئے ہیں، ان نوجوانوں کی زندگیاں شہید کے نقش پا کی رہنمائی میں گذرتی ہیں۔ ڈاکٹر شہید کے بارے یہ بات سب ہی مانتے ہیں کہ وہ سب کی امید تھے، اس پر ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ان کی امید کون تھا، ان کو تکلیف ہوتی تھی تو کون امید بنتا تھا اور اگر وہ پریشان ہوتے تھے تو کون دلاسہ دیتا تھا، کون شفقت فرماتا تھا، مجھے کئی ایک دوستان نے بتایا کہ ڈاکٹر شہید پریشان نہیں ہوتے تھے، ہاں مغموم حالت میں ضرور انہیں دیکھا ہے، وہ کسی کے بچھڑنے پہ مغموم ہوں یا کسی کی جدائی پر یہ ہو جاتا تھا، ہم نے انہیں شہید عباس موسوی کی شہادت پر مال روڈ مسجد شہداء کے پاس استعمار کو للکارتے دیکھا، قائد شہید جن سے ان کی والہانہ محبت تھی اور اعتماد کا رشتہ تھا، کی شہادت کے وقت وہ اسیر مکہ تھے، اگر یہ کہا جائے تو شائد بے جا نا ہوگا کہ شہید قائد کی شہادت ان کی رہائی کا سبب بن گئی۔

ڈاکٹر شہید کے والد مرحوم قبلہ مولانا سید امیر حسین نقوی علامہ سید صفدر حسین نجفی کے ہم عصروں میں شامل تھے، وہ رشتہ دار بھی تھے اور ہم کار بھی، ہم فکر بھی اور ہم ساز و ہم آواز بھی، ان کی باتقویٰ شخصیت اور تربیت کا نتیجہ ہی تھا کہ شہید ڈاکٹر نے بچپن سے لیکر جوانی اور جوانی سے لیکر شہادت تک دینی تحریکوں اور قومی تنظیموں کی بنیاد رکھی اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو منواتے ہوئے لوگوں کا اعتماد حاصل کیا۔ ڈاکٹر شہید کے والد بڑے مبلغ تھے، ان کی زندگی بیرون ممالک میں تبلیغات میں گذری تھی اور وہ ایک بلند پایہ شخصیت کے مالک تھے، مگر انہیں بھی اپنے بیٹے پر اس قدر اعتماد اور یقین تھا کہ انہوں نے ایک نشست میں جب ان کا تعارف ڈاکٹر صاحب کے والد کے طور پر کروایا گیا تو انہوں نے اس پر افتخار کیا اور یہ بات بھی ان کے گھر کے معتبر فرد نے بتائی کہ جب بھی شہید کو پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی، اس کو وہ ہماری پاکٹ سے تو پورا کرتے ہی تھے، اپنے والد سے بھی لے لیتے تھے، ایسے ہی کسی موقعہ پر ایک بار انہوں نے قبلہ امیر حسین شاہ نجفی سے پیسے مانگے تو انہوں نے چیک بک پکڑاتے ہوئے کہا کہ جتنے ضرورت ہیں لے لو، مگر اس اکاؤنٹ میں اتنے پیسے ہیں، یہ ایک باپ کا اپنے فرزند پر بے پناہ اعتماد تھا۔ ڈاکٹر شہید کا یہ حال تھا کہ جب انہیں لاہور کے زینبیہ ہسپتال میں دوستان کی خواہش پہ ملازمت کیلئے راضی کرکے رکھوایا گیا تو انہوں نے دوستان و رفقاء کو صرف چھ ہزار کی ضرورت بتائی تھی، مگر ہسپتال کی انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد دوستان نے یہ سات ہزار کروا دیئے تھے، مگر شہید ڈاکٹر نے وہی چھ ہزار لینے پر اکتفا کیا اور کہا کہ مجھے اتنی ہی ضرورت ہے، اتنے اس میں سے بچوں کی فیس کے ہیں اور اتنے گھر کے اخراجات کیلئے کافی ہونگے۔

ان کے قریبی رفقاء اور گھر کے بعض افراد نے اس بات کی گواہی دی کہ ہم نے شہید کو آگاہ کیا تھا کہ کچھ عرصہ کیلئے منظر سے ہٹ جائیں، آپ کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، مگر شہید نے اپنی فعالیت اور راستہ بدلنے سے یکسر انکار کیا اور اس سفر پر چلتے رہے، جو انہیں ان کے ہدف کے قریب کرتا گیا، جس کا ذکر انہوں نے اپنی وصیت میں بھی کیا ہے کہ "موت کی جانب سفر تیزی سے جاری ہے، کئی ایک ایسے مواقع دیکھنے میں نصیب ہوئے ہیں” شہید کو ذاتی طور پر بھی اس خطرے کا احساس ہوچکا تھا، اس لئے کہ ان کے وصیت نامہ پر لکھی تاریخ اس کی گواہی دیتی ہے، انہوں نے یکم اپریل 1992ء کو وصیت نامہ لکھا تھا۔ ان جیسے الٰہی انسان جب اس مادی اور عارضی دنیا کو چھوڑ کے چلے جاتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ یقیناً وہ اس سے اچھی جگہ پہنچ گئے ہیں۔

 بقول شاعر
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کیلئے
عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر ل
یں

ڈاکٹر شہید ذاتی طور پر شجاع اور جری انسان تھے اور ان کے حلقہ احباب میں بھی ایسے افراد کی کثیر تعداد نظر آتی تھی۔ اگرچہ انہوں نے ہر میدان میں افراد سازی کی، مگر شجاع انسانوں کو بہرحال وہ بہت پسند فرماتے تھے۔ آپ ان کے آخری سفر کے ہمراہی کو ہی دیکھ لیں کہ ایک شجاع اور دلیر و جری نوجوان تقی حیدر کو اپنا رفیق بنایا اور تقی حیدر نے بھی ان کے اعتماد کی لاج رکھی، خوب وفا کی اور شہید وفا کہلائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button