مضامین

پروفیسر سبط جعفر زیدی شہید

تحریر :سیدہ عروس فاطمہ رضوی

 

خلوص ، ایثار ، ایمانداری ، وسیع النظری ، محبت واخلاق اور اخلاص جب یہ اوصاف ایک جگہ جمع ہوجائیں تو شہید پروفیسر سبط جعفر زیدی کا پیکر بنتا ہے جن کے پاس آکر علم نے معراج پائی ۔پروفیسر سبط جعفر زیدی کی خدمات کوکوئی ضبطہ تحریر میں نہیں لاسکتا آپکے والد مولانا سید احمد میاں زیدی معروف عالم دین تھے ان کی آغوش میں آپ نے1957میں آنکھ کھولی ، ایم ، اے بی ایڈ ، ایل ایل بی اور پوسٹ گریجویٹ کیا ۔ صرف دنیاوی تعلیم نہیں بلکہ وررستہ الواغطین میں ادیب اعظم مولانا ظفر حس ، مولانا عنایت حسین جلالوی اور خصوصیت سے مولانا مصطفیٰ جوھر والد گرامی علامہ طالب جوھری سے دینی تعلیم حاصل کی عملی وکالت سے دستبر داری کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے محکمہ تعلیم میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ، مشیر قانون کی ذمہ داری پر مامور ہوئے انٹر میڈیٹ اور ڈگری کلاسز کیلئے نصابی کتب تصنیف کیں جو1983سے1988تک متعدد بار شائع ہوئیں ۔ آپ جے ڈی سی تعلیمی بورڈ کے بانی بھی تھے پروفیسر سبط جعفر انتہائی سادہ طبعیت کے مالک تھے بطور سوز خواں شاعر ادیب نقاد اور محقق آپکی خدمات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے ۔

1967سے لیکر اب تک مختلف الیکڑونک میڈیا سے وابستگی رہی اور خصوصی پروگرام بھی تحریر کئے بطور محقق ومصنف1996 میں ” لحن عقیدت “ کے نام سے دس خصوصی تحقیقی پروگرام نشر کئے سیکنڑوں مذہبی کتابیں لکھیں مگر ” بستہ“ کے نام سے شہرت حاصل کرنے والی کتاب کے اب تک آٹھ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ 1988سے2013تک بطور شاعرہ سوز خواں ڈیڑھ سو سے زائد آڈیو ویڈیو کیسٹس ، سی ڈیز جاری کی گئیں آپ نے امروہوی کالونی سمیت کئی علاقوں میں اسکول قائم کئے آپ آرٹس کونسل پاکستان کے تاحیات رکن تھے ۔ کراچی بار ایسوی ایشن کے ممبر اور پروفیسرز ، لیکچررز ایسوسی ایشن کے رکن بھی تھے اس کے علاوہ انجمن محبان اولیاء کے صدر ، انجمن وظیفہ سادات پاکستان کے مرکزی صدر ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل رہا آپ نے ایک بین الاقوامی ادارہ ترویج سوز خوانی قائم کیا جس میں آج پوری دنیا میں آپکے ہزاروں شاگرد نہ صرف تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ دینی خدمت پر مامور ہیں آپ کو 16ممالک کی سیاحت کاشرف حاصل ہوا ۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نامور یونیورسٹی ہارورڈ پر آپکی خدمات پر پی ایچ ڈی کی گئی جو اس یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے ۔آپ گورنمنٹ ڈگری کالج قاسم آباد میں بطور پرنسپل خدمات انجام دے رہے تھے ۔ فی زمانہ ایک پرانی موٹر سائیکل پر کالج جانا اور تمام وسائل کے ہوتے ہوئے آپ کہا کرتے تھے میں غریب علاقے میں بچوں کی تربیت کرنے میں بہت سکون محسوس کرتا ہوں ۔ بقول حکیم محمد سعید سچ بات یہ ہے کہ مجھے پہلی بار صوفی علوم وفنون اسلامی پر نئے انداز سے نمود فکر کا موقع پروفیسر سبط جعفر نے فراہم کیا ۔

بقول پروفیسر سحر انصاری :، پروفیسر سبط جعفر ادب میں ان اہم موضوعات پر کام کررہے ہیں جن پر ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ۔ شاید قدرت نے ان کو اسی کام کے لئے دنیا میں بھیجا ہے مگر پیر18مارچ2013کو اس وقت ہزاروں شاگرد شعراء اور ادیب سکتے میں آگئے جب یہ خبر سنی کہ پروفیسر سبط جعفر زیدی کو کالج سے گھر جاتے ہوئے نامعلوم دہشت گردوں نے شہید کردیا یہ حملہ سبط جعفر زیدی پر نہیں تھا بلکہ ہر علم سے محبت کرنے والے پر حملہ تھا ۔

ایک شفیق استاد اپنا کردار لئے دنیا سے چلا گیا مگر حملہ کرنے والے بھول گئے استاد کوتو ماراہے مگر اس کے علم کوکوئی نہیں مار سکتا سبط جعفر شہید کے انتقال پر فضاء سوگوار ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے آپکی شہادت پر لیکچررز ایسوی ایشن نے کالج میں تدریسی عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا آپکی نماز جنازہ امروہہ گراوٴنڈ انچولی میں ادا کی گئی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء شعراء ، اساتذہ اور انکی دی ہوئی تعلیم سے سرفراز ہونے والے شاگردوں نے شرکت کی آپ کو وادی حسین قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button