ایرانی صدر حسن روحانی کا پاکستانی قوم کے نام اہم پیغام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزت مآب ڈاکٹر حسن روحانی، صدر اسلامی جمہوریہ ایران کا پاکستانی قوم کے نام اہم پیغام
اسلامی جمہوریہ ایران کی گیارہویں حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ میرا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ ثقافتی، تاریخی، سیاسی، معاشی اور دفاعی معاملات، علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں کے محرکات، اقوام اور حکومتوں کی قربت کا سبب بنتے ہیں۔ دونوں عظیم ممالک ایران و پاکستان کے باہمی تعاون کے فروغ اور قربت کے لئے یہ سب ہی اسباب مہیا ہیں۔ دینی ثقافت کے اعتبار سے اسلامی فکر کی تعمیر نو میں علامہ محمد اقبال لاہوری کا حصہ اس حد تک غنی اور قابل تحسین ہے کہ اسلامی ثقافت اور تہذیب و تمدن کے احیاء اور مسلمانوں کے باہمی اتحاد کے بارے میں غوروفکر کرنے والے سبھی دانشور علامہ اقبال ہی کو یاد کرتے ہیں۔ اس دینی مصلح اور مفکر سے ایرانیوں کی وابستگی اور محبت کئی گنا بڑھ کر ہے، چونکہ اقبال نے اپنے گہرے افکار کو فارسی زبان میں بیان کرتے ہوئے ’’طرز گفتار دری‘‘ کو ’’شیریں تر‘‘ خیال کیا ہے۔ اس عظیم صاحب بصیرت مفکر کے نادر افکار ’’دنیائے اسلام کے اتحاد‘‘ کے راستے پر ہمارے لئے رہنما اصول ہیں۔ انہی افکار کے سائے میں دنیائے اسلام میں پائے جانے والی عدم یگانگت اور تفرقہ پسندی کو اتحاد اور جوش و جذبہ میں بدلا اور دنیائے اسلام میں تحول و ارتقاء کا دروازہ کھولا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کی وحدت اور ہمدلی کی یہ آواز آج بھی سچے اہل ایمان کے کانوں میں رس گھول رہی ہے:
از حجاز و چین و ایرانیم ما
شبنم یک صبح خندانیم ما
مست چشم ساقی بطحاستیم
در جہان مثل می و میناستیم
چون گل صد برگ ما را بُو یکی است
اوست جان این نظام و او یکی است
(ہم حجاز، چین اور ایران سے ہیں، ہم ایک مسکراتی ہوئی صبح کی شبنم ہیں۔ ہم ساقی بطحا کی آنکھ سے مست ہیں، ہم دنیا میں شراب و صراحی کی طرح ہیں۔ سینکڑوں پتیوں والے پھول کی طرح ہماری خوشبو ایک سی ہے، وہ اس نظام کی جان ہے اور وہ ایک ہی ہے۔)
ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کی آزادی کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا اور دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ہمیشہ تعمیری تعلقات قائم رہے ہیں۔ سرحدوں پر امن و امان کا قیام ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ دونوں ممالک کے مابین تعمیری تعلقات کی بنیاد ہیں۔ دونوں ممالک کی طویل سرحدیں، باہمی روابط کے استحکام اور نہ صرف دونوں ممالک بلکہ اس خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات کے مزید فروغ کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایران میں پائے جانے والے پٹرول اور گیس کے عظیم ذخائر تک رسائی فوری طور پر پاکستانی عوام اور وسیع تر تناظر میں برصغیر کی ضرورت ہے، جو نہ صرف دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی میں مدد دے سکتی ہے بلکہ علاقائی تناؤ میں کمی اور مخلصانہ و گرم جوش تعلقات کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران دنیا بھر کے ساتھ برابری کی سطح پر صحت مندانہ تعلقات کا خواہاں ہے، اور ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں ہمسایہ ممالک اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعمیری تعلقات سرفہرست ہیں۔ خوش نصیبی سے دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی تنظیمیں مثلاً اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)، علاقائی تعاون کی تنظیم (آئی۔سی۔او)، ترقی پذیر اسلامی ممالک کا گروہ (ڈی۔ایٹ)، ایک طرف باہمی ضرورتوں مثلاً توانائی، گیس پائپ لائن، باہمی تجارت، جغرافیائی قربت، تاریخی و ثقافتی مشترکات اور دوسری طرف ایران پر عائد ظالمانہ پابندیوں کے اٹھائے جانے سے، دو طرفہ اور علاقائی اقتصادی تعاون، باہمی تجارت اور پہلے سے کہیں بڑھ کر سیاسی و ثقافتی تعلقات کے استحکام کے راستے پر تیز رفتار تعاون کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں دونوں ممالک کوشاں ہیں کہ باہمی تجارت میں نجی شعبہ سرگرمی سے حصہ لے اور یہ امر بھی دوطرفہ تعلقات کے فروغ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
اگرچہ انتہا پسندی ایک خوفناک بیماری ہے، جس نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، لیکن اسلامی دنیا دوسروں کی نسبت اس لعنت سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی سب سے بڑی وجہ اسلامی ممالک کے سربراہوں کی ایک تخلیقی معاشرے کی تشکیل میں ناکامی اور پھر اغیار کی مالی اور فکری مداخلت رہی ہے۔ طاقت اور غلبے کے حصول سے بھی پہلے، اس کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ثقافتی کوششوں، تقریب مذاہب اور تمام امت اسلامی کا اتحاد خواہ شیعہ ہو یا سنی، اور دیگر اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے ذریعے ترقی یافتہ معاشروں کے قیام کو ممکن بنانا ہے۔
کسی بھی ملک کا استحکام اور ان کی قومی سلامتی ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے ہیں، اور کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کی قومی سلامتی اور اس کے استحکام کو یرغمال نہیں بنا سکتا۔ دوسرے ممالک میں عدم استحکام، مستقل تنازعات کے امکانات کو فراہم کرتا ہے، جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ نسلی، علاقائی، جغرافیائی اور تاریخی تنازعات کی پیچیدگی، خطے میں بڑے پیمانے پر عدم استحکام کا باعث بنتی ہے۔ محض دور اندیشی اور عقلمندی کے سائے میں ان مشکلات کا کوئی تعمیری حل نکالا جا سکتا ہے۔ خطے میں عدم استحکام ہی شدت پسندی اور دہشت گردی میں اضافے کی وجہ ہے۔
اس منفی رجحان کے نتائج
چند ممالک کی سرحدوں تک ہرگز محدود نہیں رہ سکتے بلکہ اس کا پھیلاؤ بین الاقوامی نظام میں خلل کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی ملک اور کوئی بھی قوم اس سے لاتعلق اور اس کے اثرات سے بچ نہیں سکتی۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشرق وسطٰی کے تنازعات سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر بھی شدت پسند، منتقم مزاج اتحادی ممالک کے مرکز تک جا پہنچے ہیں، جو زمینی فاصلے کی بنا پر خود اور اپنے شہریوں کو دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ سمجھ رہے تھے، لیکن شدت پسندی نے ثابت کر دیا ہے کہ آج کی ایک دوسرے سے منسلک دنیا میں سرحدوں کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے۔ عدم مساوات کی بنا پر یہ عنصر دنیا کے کسی بھی گوشے میں سر اٹھا سکتا ہے، اور اسے عدم استحکام اور معاشرتی عدم مطابقت کا جہنم بھی بنا سکتا ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ تشدد آمیز پالیسی خود اپنے بنانے والوں ہی کی طرف لوٹ کر آتی ہے، اور رنگ و نسل یا جغرافیہ کی کوئی تمیز نہیں کرتی۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس سے نبٹنے کے لئے عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ کے اس حساس لمحے میں، ایران و پاکستان کو عشروں پر محیط تجربات اور دوستانہ روابط کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی مفادات کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کو ازسرنو تازہ کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک کا باہمی تعاون علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان اور ایران، مشرق اور مغرب کے درمیان راہداری پر واقع ہونے کی وجہ سے دنیا کی معاشی اور ثقافتی ترقی میں بڑا حصہ حاصل کرسکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین موجودہ باہمی تعاون کو بڑھانے کے امکانات موجود ہیں اور دونوں ممالک مختلف شعبوں میں تعلقات کے فروغ کے لئے استعداد کار کے بھی حامل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی خواہش ہے کہ موجودہ صورتحال میں اپنی استعداد کار کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو پہلے سے کہیں آگے لے جایا جائے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے عوام اپنے رہنماؤں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے زیادہ خوشحال، زیادہ معاون اور زیادہ طاقتور خطہ چھوڑ کر جائیں۔
(پاک ایران دوستی زندہ و پائندہ باد)